غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Friday 16 February 2018

اللہ ہر جگہ ہے اس جملے سے آخر کیا مقصورد ہے؟ Allah Har Jaga Ha Ka Matlab


تحریر:
(ابو حفصہ)

غلطی فہمی اورا سکا  ازالہ
اللہ تعالی بالذات ہر جگہ ہے۔

اس جملے سے آخر کیا مقصود ہے ؟
متقدمین علماء نے کل مکان میں اللہ کے ہونے کا رد کیوں کیا

کیا مقصود ہے؟

معاصر علماء یا ماضی قریب کے علماء نے اللہ کو ہر جگہ کیوں کہا کیا مقصود ہے ؟
یہ سب حقائق جاننے کی ضرورت ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ :

مکان جس کا ترجمہ اردو میں جگہ کا کیا جاتا ہے

اس کی تعریف یہ ہے کہ :
الموضع الحاوی  للشئ

یا البعد الموھوم  الذی یشغلہ الجسم
جیسا کہ المفردات للراغب  یا دیگر کتب میں موجود ہے
ان تعریفات کے مدنظر
اگر ہم اللہ تعالی کو مکانی ذات مان لیں
چاہے ایک مکان ہو یا ہر مکان
تو اس کا مطلب یہ ہوگا

کہ اللہ تعالٰی کوئی جسم ہے جس نے کسی ایک جگہ یا تمام جگہوں کو مشغول کیا ہوا ہے جو اس پر محیط و حاوی ہیں
اس مفہوم میں یقینا یہ کلام باطل ہے

اور بعینہ یہی بات علامہ اشرف علی تھانوی رح نے بھئ امداد الفتاوی میں ذکر کی ہے

جبکہ اللہ سبحانہ و تعالی خالق زمان و مکان ہے

وہ ایک جگہ کے بھی خالق و مالک ہیں اور ہر جگہ کے بھی

تب وہ نہ ایک جگہ میں سما جانے والی ذات ہے نہ ہر جگہ

اور اللہ کو فی مکان ۔۔ یا فی کل مکان ماننے کا مفہوم یہی متبادر ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات ہر مکان یا ایک مکان میں مستقر ہے

اسی مفہوم کا کلام امام ابوبکر بن فورک  رحمہ اللہ نے بھی غالبا بیان مشکل الحدیث میں کیا ہے

کہ دراصل: فی کل مکان میں فی ظرفیت کے لیے ہے تو اس بنا پر اللہ تعالی کا تمام امکنہ میں مظروف ہونا لازم آتا ہے

اور اس جملے میں فی بمعنی علی لینے کا بھی انہوں نے رد کیا ہے  

اور اسی مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے

سلف سے لے کر خلف تک تقریبا تمام ائمہ جن میں تفاسیر کے بڑے بڑے ائمہ جو عقیدتا اشعری و ماتریدی ہیں

انہوں نے اللہ کو "فی کل مکان" کہنے کا رد کیا ہے جس طرح انہوں نے اللہ کو کسی ایک مکان میں ہونے کا رد کیا ہے

تو علمی و تحقیقی اعتبار سے تو یہ مسلم ہے

کہ صحیح عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالٰی مکان میں ٹھہرنے قرار پکڑنے سے پاک ہے

چاہے ایک مکان ہو یا ہر مکان

پس اگر اللہ ہر جگہ ہے کہنا بھی اسی مفہوم میں ہو تب وہ بھی اس امتناع میں شامل ہے

رہی یہ بات ہے کہ موجودہ دور کے علماء نے پھر یہ لفظ کیوں استعمال کیا

تو عرض یہ ہے کہ یہ لفظ اردو زبان کے عوامی  محاورے میں اللہ تعالی سے کسی مکان میں مقید و محدود ہونے کی نفی کے لیے موزوں  و مستعمل ہے

اس بنا پر عوام کو چونکہ اللہ تعالی کے موجود بلا مکان ہونے کا عقیدہ سمجھانا مشکل   ہے

تو کم از کم ان کے ذہنوں سے خدا کے کسی جگہ مقید و محدود ہونے کا تصور ختم کرنے کے لیے یہ جملہ استعمال کیا گیا
دیکھئے( تسھیل تربیت السالک ج3 ص 118 مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ)
اب مسلمان یہ جملہ استعمال کرتے ہیں تو عموما اس کا وہی مطلب ہی لیتے ہیں جو مفسرین و متکلمین  نے لیا ہے

مثال کے طور پر کوئی مسلمان کہے کہ خدا تو ہر جگہ ہے

اس کا مطلب اس کے زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ہے کہ خدا کی ذات سے ہم کہیں چپ نہیں سکتے
اس کی قدرت سے بھاگ نہیں سکتے
لہذا مفہوم آخر میں معیت بمعنی احاطہ قدرت و علم کے ہی لینے کی طرف موول ہے

اور صوفیا کرام بھی اسی مفہوم کو سامنے رکھتے ہیں

شیخ عبدالحق محدث دہلوی  ؒ اخبار الاخیار میں   ایک عنوان قائم کرتے ہیں
”خدا کی معیت مخلوق کے ساتھ “
جس کے تحت لکھتے ہیں
وهو معكم ايما كنتم (الآیہ)
تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اگے فرماتے ہیں:
”اس  کے ظاہری معنی تو یہی ہیں کہ تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے ایک شئے کو دوسری شئے کے ساتھ ہونے کو معیت کہتے ہیں اور یہ معیت دو قسم پر ہے  ایک حقیقی دویم مجازی ۔ علمائے محققین کی رائے ہے کہ اس آیت میں معیت مجازی مراد ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی دنیا کی کسی شئے کے ساتھ باعتبار جسد و ذات کے نہیں بلکہ خدا کی معیت دنیا کی چیزوں کے ساتھ باعتبار علم و قدرت کے ہے چنانچہ متکلمین بھی یہی کہتے ہیں لیکن صوفیائے کرام اس کے ظاہری معنی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے حقیقی معنٰی تلاش و طلب کرتے ہیں ۔ ان کا مذہب یہ ہےکہ خدا کی معیت تمام چیزوں کے ساتھ باعتبار ذات کے ہے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھا جائے اس کی معیت اس طرح نہیں جیسے ہمارے ہاں ایک جسم دوسرے جسم کے ساتھ ہو کیونکہ اللہ تعالٰی کا جسم نہیں اور نہ ہی خدا کی معیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جواہر کی معیت جواہر کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالٰی جو ہر بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیت کا مطلب یہ ہے کہ جیسے عروض کو جوہر سے معیت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ عرض بھی نہیں چنانچہ متکلمین نے ان ہی تین چیزوں کی معیت سے خدا کی معیت کو جدا گانہ قرار دیا ہے لیکن صوفیائے کرام خدا کی معیت مخلوق کے ساتھ ایک چوتھی قسم کی معیت سے ثابت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کی معیت مخلوق سے اس طرح ہے جس طرح روح کی معیت جسد کے ساتھ اس لئے کہ روح نہ قالب کے اندر ہے اور نہ باہر نہ قالب سے متصل اور نہ ہی منفصل، بلکہ روح  اور جسد دونوں علیحدہ علیحدہ عوام سے تعلق  رکھتے ہیں ۔ جس طرح روح کو جسد میں داخل خارج متصل اور جدا ہونے سے کوئی نسبت نہیں اور  ان میں سے کسی ذر ے میں  حقیقۃ ذاتی اعتبار سے روح موجود نہیں لیکن تمام  دنیا کو معلوم ہے کہ روح جسم میں پائی جاتی ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالٰی کی ذات کا حال ہے ۔
من عرف نفسه فقد عرف ربه
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو بھی پہچان لیا
اس میں اسی سر کی طرف اشارہ ہے ۔ اس جگہ ایک اشکال ہو سکتا ہے وہ یہ کہ اس طرح تو خدا تعالٰی کی ذات تمام نا پاک اور گند ے مقامات پر بھی موجود ماننی پڑ ے گی
صوفیا کرام جوا ب میں فرماتے ہیں کہ اس بات پر جمیع امت  مسلمہ کا اتفاق ہے کہ تمام نا پاک اور گندی چیزوں کو خدا تعالٰی ہی نے پیدا فرمایا ہے  اور اسی کی حفاظت کے بغیر ا ن چیزوں کا بقا نا ممکن ہے تو اس قسم کی معیت سے خدا کی ذات میں کوئی عیب لازم نہیں آتا ۔ نیز یہ بھی  سب جانتے ہیں کہ فعل بغیر فاعل اور صفت بغیر موصوف کے وجود میں نہیں آیا کرتے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ روح حاکم ہے اور جسم کے تمام اجزاء میں موجود ہے جسم کے تمام اجزاء اور حیات و غیرہ تمام اسی کے ہاتھ میں ہے ، اسی اعتبار سے جسم کی اندرونی کیفیات مثلاً خون وغیرہ روح کی طہارت پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں ۔ متکلمین اللہ واحد کی معیت کو سمجھ نہ سکے ، بلا تقدیر تجزی و تقسیم و حلول تمام ممکنات میں ماننے میں تاویل کرتے ہیں و اللہ الھادی الی الصواب
جب بڑے باہمت لوگوں کی سعی اور کوشش اپنے مقصد کو طلب کرنے میں کوتاہی کرنے لگی تو میں نے انہیں تحریص دلانے کیلئے اپنے قلم کو ہاتھ میں لیا تا کہ جو لوگ قلب کی صفائی سے محروم ہیں ان کو مولٰی کے اسرار کے مراقبہ سے آگاہ کر دوں تاکہ وہ لوگ اپنے وجود کو خدا کے ساتھ اور خدا کی ذات کو اپنے ساتھ سمجھیں جو لوگ خدا تعالٰی کو اپنے سے دور سمجھتے ہیں وہ بے ادب اور احکام خدا و ندی کے مخالف ہیں سب سے زیادہ محروم وہی لوگ ہیں جو خدا تعالٰی کو اپنے ساتھ نہیں سمجھتے ۔ والسلام “
(اخبار الاخیار  اردو ترجمہ ص۲۷۴ تا ۲۷۶ بحث شیخ حسین مکتوب خدا کی معیت مخلوق کے ساتھ)

روح گویا کہ جسم کے ہر حصے میں ہے
اس مفہوم میں کہ روح جسم کا ہر حصہ کنٹرول کرتا ہے
لیکن باوجود اس کے کہ وہ جسم میں موجود گندگی ۔ خون وغیرہ سے متاثر نہیں ہوتی
پس روح نہ تو جسم کے اندر ہے نہ باہر ہے

بس ایک تعلق ان دونوں کا ہے
۔جس دن اللہ نے یہ تعلق ختم کردی موت واقع ہوجائے گی
اور علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تو روح و بدن کے علاوہ تیسری چیز کی نشاندہی کی ہے جس کو نسمہ  کہتے ہیں

اور اس کی تشریح جو بیان کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ

نسمہ گویا کہ روح و بدن کے درمیان دو اینٹوں کے درمیان جو سیمنٹ کا مصالحہ استعمال کیا جاتا ہے اسی کا رول ادا کرتا ہے کہ اگر کسی کو قتل کردیا جائے تو دراصل وہ نسمہ ہی ختم ہوجاتی ہے جس کے بنا پر روح و جسم کا تعلق باقی ہے

خلاصہ یہ کہ صوفیا نے اللہ تعالی و مخلوق کا تعلق روح و جسم کے تعلق جیسا بتایا ہے

اور یہ بات طے ہے

کہ نفس ناطقہ یعنی روح اور جسم کا تعلق

تعلق تدبیر کا ہے

کہ جسم کی تمام تدبیر نفس ناطقہ یعنی روح ہی کرتی ہے

ایسا نہ کہ روح بدن میں  حلول ہے

اس نظریے سے شاید اختلاف ممکن ہو کہ روح بدن کے اندر نہیں ہے
نہ باہر

لیکن اسی کو اللہ تعالی کی مخلوق کے ساتھ معیت ذاتی کی مثال قرار دے کر شیخ عبدالحق رح نے متکلمین کی رائے ہی پر مہر ثبت کردی

کہ اللہ تعالی نہ داخل عالم ہے نہ خارج عالم

نہ متصل ہے نہ منفصل

کیونکہ دخول خروج

اتصال انفصال اجسام کی صفات ہیں

اللہ تعالی مخلوق سے مبائنت تو رکھتا ہے لیکن عزلت و فاصلے کے لحاظ سے نہیں

جیسا کہ امام بیہقی و امام خطابی

بلکہ امام ابوحنیفہ رح نے بھی ذکر فرمایا ہے

یہاں مقصود فقط تعلق کی تشریح کرنا ہے
اس کے لیے صرف ایک مثال کو بیان کیا تاکہ فہم میں آسکے
کہ جیسا کہ روح بدن کے ساتھ تدبیر کا تعلق رکھتا ہے
کیا مطلب؟
یعنی ہر ہر جگہ کو کنٹرول کرتا ہے
تو گویا روح بدن کے تمام حصوں میں ہوئی
یا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تمام بدن میں روح موجود ہے
حالانکہ روح بدن میں حلول نہیں ہوا بایں معنی کہ بدن میں جو خون ہے غلاظت ہے اس سے متاثر ہوسکے
   
تو اسی مفہوم میں اللہ تعالٰی کی معیت مع جملہ مخلوق بالذات مان لیا جائے

کہ اللہ تعالٰی مدبر عالم ہے

تمام مخلوق کا مدبر ہے

اور ہر چیز اس کے قبضے میں ہے
تو گویا وہ ہر جگہ اور ہر شے کے ساتھ بالذات خود موجود ہے بغیر اس کے کہ وہ ہر چیز میں سمائے یا حلول ہوجائے
تو یہ مثال تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ تقریب افہام کے لیے ہے

جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی رویت کو چاند کی رویت سے تشبیہ دی

 إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِهِ
 تم اپنے رب کو ایسے دیکھو گے جیسے چاند کو بغیر کسی مشقت کے دیکھتے ہو۔
(بخاری - مسلم)

کہ جس طرح چاند کو دیکھتے ہوئے زحمت نہیں اٹھائی جاتی

بعینہ اللہ تعالی کو بھی یہ تمام مخلوق دیکھیں گے تو بلا کیف   کوئی زحمت نہیں اٹھانی پڑی گی

یہاں مقصود یہ نہیں کہ خدا کی ذات بھی چاند کی طرح محدود جسامت رکھتی اور فضا میں معلق ہے والعیاذباللہ

بلکہ مثال سے مقصود زحمت و ازدحام کی نفی میں تشبیہ دینا ہے

خدا کی ذات کو چاند کی ذات سے تشبیہ دینا ہرگز مقصود نہیں

تو یہاں دو طرفہ غلط فہمی پائی جاتی ہے

 (1)
  ان لوگوں کی طرف سے جو معیت کی تاویل علم و قدرت سے کرنا خالص غیر مقلدین کا مذہب سمجھتے ہیں

حالانکہ یہ غلط ہے

دراصل وہ لوگ معیت کی تاویل کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات تو عرش پر ہے

علم ہر جگہ ہے

اور یہ جملہ عوام کے سامنے بھی عرض کرتے ہیں

جن سے عوام صرف اور صرف یہی سمجھتے ہیں کہ

گویا خدا کی ذات ایک محدود ذات ہے

جو کسی نہ کسی جگہ تک ٹھہرتی اور ختم ہوتی منتہی ہوجاتی ہے

وہ جگہ عرش ہے

اس طریقے سے خود بخود اللہ کی ذات کی ایک واضح کیفیت ذہن میں آجاتی ہے خدا کرے کوئی کتنا بھی بلا کیف بلا کیف کی چیخیں مارتا رہے

تو اس قسم کے خیال کو ختم کرنے کے لیے عوام کے سامنے یہ جملہ علماء کہتے ہیں

کہ اللہ ہر جگہ ہے

اس سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ ایک جگہ تک محدود نہیں بلکہ تمام جگہوں تک پھیلا ہوا ہے معاذاللہ
بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے بارے میں اس کی ذات کی کیفیت کا تصور نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کیسا ہے کیونکہ یہ گمراہی ہے ہماری عقل اللہ کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتی

ہاں بس اتنا کہنا چاہیے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم جہاں بھی ہیں

اگر کوئی پوچھے اس کا کیا مطلب؟

تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ بس اتنا مقصود ہے کہ خدا کی گرفت سے نہیں بچ سکتے

اللہ تعالی سے ہم کہیں چھپ نہیں سکتے

بس معنوی معیت ہی مراد ہے

اور ہم کو اللہ کی ایسی ہی  صفات میں   غور و فکر کرنے کا حکم ہے

ذات میں نہیں

تب ہم یہ جملہ کہ کر عوام کو اللہ کی ذات میں غور و فکر سے ہٹا کر اس کی صفات کی طرف لاتے ہیں

اگر کوئی یہ جملہ ان الفاظ سے بھی ادا کرے کہ

اللہ کی ذات ہر جگہ ہے

اور مقصود وہی ہو جو ہم نے بتایا تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں

اعتبار تو مفہوم کا ہی ہوتا ہے


نیز اس کے لیے یہ جملہ اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ یہ جملہ گویا تمام ان آیات و احادیث کا جامع ہے جو معیت و قرب پر دلالت کرتے ہیں

جیسا کہ وھو معکم اینما  کنتم

و نحن أقرب الیہ من حبل الوريد

ان الذی  تدعونہ  لیس اصم  و لا غائبا بل ھو أقرب الی أحدکم من عنق راحلتہ
وغیرہ


لیکن پھر بھی چونکہ اس جملے میں اللہ کی طرف جگہ و مکان کی نسبت آتی ہے

اسی لیے امام ابن حزم رح نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ قرآنی اسلوب ہی اختیار کیا جائے

کہ :

"اللہ ہمارے ساتھ ہم جہاں بھی ہیں"

تو یہ زیادہ بہتر رہے گا

تو دوسری غلط فہمی ان لوگوں  کی ہے

جو عوام کے لیے بھی ان الفاظ کو ایک خاص مقصد کے تحت استعمال کرنا درست نہیں سمجھتے
لہذا دونوں غلط فہمیوں کا ازالہ ہونا ضروری ہے۔

ایک جملہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ”اللہ نے ہم سب کو پیدا کیا ہے “
اب یہی جملہ آپ  اپنے معاشرے میں استعمال کرتے ہیں  اور جس کے سامنے بھی کریں وہ یہی  کہے گا کہ اس کا مطلب ہے کہ  اللہ نے ہم سب کو بنایا ہے ہم سب کی تخلیق کی ہے  وہ ہمارا خالق ہے ، 

لیکن جب یہ جملہ آپ اٹھا کر کسی عیسائی  کے سامنے یا کسی  اور غیر مسلم کے سامنے رکھیں  جسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس جملے کا مطلب یہاں  کیا  لیا جاتا ہے وہ تو یہی کہے گا کہ ایک طرف مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہ ہے جو نہ خود کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے  دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ اس نے سب کو پیدا کیا ہے   یعنی جنا ہے (نعوذ باللہ)
 اب ہم  یہ توکہہ سکتے ہیں کہ جو معنی آپ  اس سے سمجھے ہیں وہ  غلط ہے نہ کہ
جملے کو ہی سرے سے غلط قرار دے   دیا جائے
اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے اس کا مقصد  اللہ کیلئے جگہ کا اثبات  کرنا نہیں ہوتا
 بلکہ
اس قول سے اس کی مراد یہ ہو گی کہ اللہ  ہر وقت ہم کو دیکھ سن رہا ہے ہم   کہیں  بھی چلے جائیں ہم اس سے چھپ نہیں سکتے نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم  کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں اللہ اور ہمارے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا  ہو
یا پھر اس جملے سے
 اس شخص کے باطل قول کی نفی کرنی ہوتی ہے جو  اللہ کیلئے کسی خاص جگہ کا تعین کر لیتا ہے،
اور کہتا ہے کہ اللہ بس فلانی جگہ ہے اس کے مقابلے میں کہا جاتا ہے کہ نہیں اللہ  تو ہر جگہ ہے
 جیسا کہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی  صاحب تھانویؒ نے( تسھیل تربیت السالک ج 3 ص 118) پر فرمایا ہے  اور یہ بھی یہ  کہ  اس جملے میں گنجائش ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے جلیل القدر علماءنے یہ جملہ  اپنی کتب میں استعمال کیا ہے ان کا مقصد اللہ کیلئے جگہ کا اثبات کرنا نہیں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں
وہ جگہ میں کیسے ہو سکتا ہے اس کی ذات تو قدیم ہے  اس نے جگہ کو پیدا کیا ہے جب جگہ نام کی کوئی چیز بھی نہ تھی  تب بھی وہ اکیلا موجود تھا  جیسا وہ جگہاور تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تھا اب بھی وہاں ہے اور ویسا ہے اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہی   سلف و خلف تمام امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔