غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Wednesday, 1 July 2015

حافظ ابن تیمیہ اور ان کے اصحاب کے متعلق ایک ضروری وضاحت ibn taymiyyah


حافظ ابن تیمیہؒ اور ان کے اصحاب کے متعلق ایک ضروری وضاحت
اس میں شک نہیں حافظ ابن تیمیہ ایک بہت بڑے علامہ گزرے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انہوں نے بہت سی ایسی باتیں کہیں جو کہ امت کے اجماع کے خلاف اور غیراجتہادی تھیں۔ جہاں امام ابن تیمیہ کو سلف نے ترک کیا ہم بھی وہیں ترک کرتے ہیں۔
آج کے چند لامذہبی  ابن تیمیہ کے ان شاذ اقوال جو کہ اہلسنت کے خلاف ہیں کی اتباع کرنے لگے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت کو واضح کریں
ہم پہلے اعتدال کے ساتھ حافظ ابن تیمیہ کے وہ موٹے موٹے عقائد کی نشان دہی کرتے ہیں جس میں انہوں نے جماعت اہلسنت کو چھوڑا بعض پر تو خود ان کے اپنے لوگوں نے رد کیا  پھر آخر میں اہلسنت کی ان کے متعلق رائے نقل کرتے ہیں۔
ابن تیمیہ اور ان کے  چند اصحاب نے مسئلہ طلاق ثلاثہ میں بھی ساری امت کی مخالفت کی ہے
هذا وعندنا أن الإمام ابن القيم وشيخه إماما حق من أهل السنة، وكتبهم عندنا من أعز الكتب، إلا أنا غير مقلدين لهم في كل مسألة، فإن كل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا نبينا محمدا صلى الله عليه وسلم؛ ومعلوم مخالفتنا لهما في عدة مسائل، منها: طلاق الثلاث بلفظ واحد في مجلس، فإنا نقول به تبعا للأئمة الأربعة، ونرى الوقف صحيحا، والنذر جائزا، ويجب الوفاء به في غير المعصية.
مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ، امام شافعی، امام أحمد بن حنبل، امام مالک) کی پیروی کرتے ہیں، (یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک هے.
[الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠

ابن تیمیہ اللہ تعالٰی کیلئے حوادث کے قائل تھے
یہ مسئلہ ذرافلسفیانہ اورمتکلمانہ بحث ہے لہذا اس کی تشریح میں جائے بغیر کہ اس کا سمجھنابہت سے افراد کیلئے دشوار ہے۔ اس تعلق سے حضرت ابن تیمیہ کا موقف ،البانی کا موف اوردیگر سلفیوں کاموقف سامنے رکھ دیتے ہین قارئین خود غورکریں کہ دوسروں کے عقائد میں تضاد ڈھونڈنے والے خود عقائد مین کیسے مضطرب الاقوال ہیں۔
ابن تیمیہ کاموقف 

حضرت ابن تیمیہ نے اپنی کئی تصانیف میں اس کے اثبات پر بحث کی ہے جس میں بطور خاص درء تعارض العقل والنقل ،منہاج السنۃ،اورتلبیس کلام الجھمیۃ وغیرہ شامل ہیں۔ متکلمین اسلام حضرات حوادث لااول لہ کونہیں مانتے ہیں جب کہ ابن تیمیہ نہ صرف اسے مانتے ہیں بلکہ اس کے ماننے پر زوردیتے ہیں۔ان کے چند اقوال ملاحظہ ہوں۔
ھذامن نمط الذی قبلہ،فان الازلی الازم ھونوع الحادث لاعین الحادث 
(درء تعارض العقل والنقل 1/388)
اس کے علاوہ حضرت ابن تیمیہ "شرح حدیث عمران بن حصین ص193میں کہتے ہیں
"وان قدران نوعھا لم یزل معہ فھذہ المعیۃ لم ینفھا شرع ولاعقل بل ھی من کمالہ "
حضرت ابن تیمیہ نے یہ بات "موافقۃ صحیح منقولہ لصریح معقولہ 2/75میں بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
"وامااکثر اھل الحدیث ومن وافقھم فانہم لایجعلون النوع حادثابل قدیما"
اس کے علاوہ دیکھئے "نقدمراتب الاجماع "میں حضرت ابن تیمیہ ابن حزم پر تنقید کرتے ہوئے کیاکہہ رہے ہیں۔
وأعجب من ذلك حكايته الإجماع على كفر من نازع أنه سبحانهلم يزل وحده، ولا شيء غيره معه، ثم خلق الأشياء كما شاء ".ومعلوم أن هذه العبارة ليست في كتاب الله، ولا تنسب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
(نقد مراتب الاجماع1/304)
صرف حضرت ابن تیمیہ کی ہی بات نہیں ہے بلکہ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں اس قول کو ابن تیمیہ کی جانب منسوب ماناہے۔چنانچہ وہ حضرت ابن تیمیہ کے موقف پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وھواصرح فی الرد علی من اثبت حوادث لااول لھا من روایۃ الباب،وھی من مستشنع المسائل المنسوبۃ لابن تیمیہ ،ووقفت فی کلام لہ علی ھذاالحدیث یرجح الروایۃ التی فی ھذاالباب علی غیرھامع ان قضیۃ الجمع بین الروایتیں تقتضی حمل ھذہ علی التی فی بدء الخلق لاالعکس،والجمع یقدم علی الترجیح بالاتفاق
(فتح الباری 13/410)
حضرت ابن تیمیہ کی اس بات پر مشہور مالکی شافعی فقیہہ اورمحدث ابن دقیق العید نے بھی تنقید کی ہے چنانچہ وہ اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وقع ھنا من یدعی الحذق فی المعقولات ویمیل الی الفلسفۃ ،فظن ان المخالف فی حدوث العالم لایکفر لانہ من قبیل مخالفۃ الاجماع ،وتمسک بقولناان منکر الاجماع لایکفر علی الاطلاق حتی یثبت النقل بذلک متواترا عن صاحب الشرع،قال: ھوتمسک ساقط اماعن عمی فی البصیرۃ اوتعام ،لان حدوث العالم من قبیل مااجتمع فیہ الاجماع والتواتربالنقل
(فتح الباری 12/202)
حضرت ابن تیمیہ کے کلامی اورفلسفیانہ مباحث میں دخل اندازی کوخود ان کے سب سے بڑے محب حافظ ذہبی نے ناپسند کیا ۔چنانچہ وہ زغل العلم میں اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
ما أظنك في ذلك تبلغ رتبة ابن تيمية ولا والله تقربها، وقد رأيت ما آل أمره إليه من الحط عليه، والهجر والتضليل والتكفير والتكذيب بحق وبباطل، فقدكان قبل أن يدخل في هذه الصناعة منورا مضيئا، على محياه سيما السلف، ثم صار مظلما مكسوفا، عليه قتمة عند خلائق من الناس، ودجالا أفاكا كافرا عند أعدائه، ومبتدعا فاضلا محققا بارعا عند طوائف من عقلاء الفضلاء، وحامل راية الإسلام وحامي حوزة الدين ومحيى السنة عند عوام أصحابه، هو ما أقول لك.

(زغل العلم 43)
حوادث لااول لہ کے مسئلہ میں خود البانی نے حضرت ابن تیمیہ پرتنقید کی ہے ۔چنانچہ البانی صاحب اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

وفيه رد أيضا على من يقول بحوادث لا أول لها، وأنه ما من مخلوق، إلاومسبوق بمخلوق قبله، وهكذا إلى مالا بداية له، بحيث لا يمكن أن يقال:
هذا أول مخلوق.فالحديث يبطل هذا القول ويعين أن القلم هو أول مخلوق، فليس قبله قطعا أي مخلوق. ولقد أطال ابن تيمية رحمه الله الكلام في رده على الفلاسفة محاولاإثبات حوادث لا أول لها، وجاء في أثناء ذلك بما تحار فيه العقول،ولا تقبله أكثر القلوب، حتى اتهمه خصومه بأنه يقول بأن المخلوقات قديمة لاأول لها، مع أنه يقول ويصرح بأن ما من مخلوق إلا وهو مسبوق بالعدم، ولكنه مع ذلك يقول بتسلسل الحوادث إلى ما لا بداية له. كما يقول هو وغيره بتسلسل الحوادث إلى ما لا نهاية، فذلك القول منه غير مقبول، بل هو مرفوض بهذا الحديث
وكم كنا نود أن لا يلج ابن تيمية رحمه الله هذا المولج، لأن الكلام فيه شبيه بالفلسفة وعلم الكلام الذي تعلمنا منه التحذير والتنفير منه، ولكن صدق
الإمام مالك رحمه الله حين قال: " ما منا من أحد إلا رد ورد عليه إلا صاحب هذا القبر صلى الله عليه وسلم ".
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 1/258)


ایک دوسری جگہ وہ اس سلسلے میں مختصر شرح عقیدۃ طحاویہ جوکہ المکتب الاسلامی سے شائع ہوئی ہے اس میں وہ کہتے ہیں۔


فانی اقول الآن:سواء کان الراجح ھذاام ذاک،فالاختلاف المذکور یدل بمفھومہ علی ان العلماء اتفقوا علی ان ھناک اول مخلوق،والقائلون بحوادث لااول لھا مخالفون لھذاالاتفاق،لانہم یصرحون بان مامن مخلوق الاوقبلہ مخلوق،وھکذا الامالااول لہ، کماصرح بذلک ابن تیمیۃ فی بعض کتبہ،فان قالوا العرش اول مخلوق ،کماہوظاہر کلام الشارح نقضوا قولھم بحوادث لااول لھا،وان لم یقولوابذلک خالفواالاتفاق،فتامل ھذا فانہ مہم۔واللہ الموفق۔
(العقید
ۃ الطحاویہ بشرح المختصر للالبانی طبع المکتب الاسلامی طبع الاولی1978،ص35)

ابن تیمیہ فنا النار کے قائل تھے جو کہ خالص جہمیہ کا عقیدہ کہلاتاہے
ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم آخرکار ختم ہوجائے گی اوراس کو وہ رحمت الہی کا تقاضامانتے ہیں ۔اس کی صراحت حافظ ابن قیم نے حادی الارواح فی بلادالافراح (2/168-228)میں پوری تفصیل کے ساتھ کی ہے اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مشہور اصولی اورفقیہہ محمدبن اسماعیل الامیرالصنعانی نے ابن تیمیہ کی تردیدمیں ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام رکھا ہے۔


رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النار
اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یاغیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔


فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ، عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ، حتىوقعت عيني على رسالة للأمام الصنعاني ، تحت اسم (رفع الأستار لابطال أدلة القائلينبفناء النار) . في مجموع رقم الرسالة فيه (2619) ، فطلبته ، فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها . فدرستها دراسة دقيقة واعية ، لان مؤلفها الإمام الصنعاني رحمهالله تعالى رد فيها على شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهما الى القولبفناء النار ، بأسلوب علمي رصين دقيق ، (من غير عصبية مذهبية . ولا متابعة اشعريةولا معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه الله تعالى في آخرها . وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة الأحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص 71 - 75) بمناسبة تخريجي فيه بعض الأحاديث المرفوعة ، والآثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ، وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان لابن القيم قولا آخر ، وهو أن النار لا تفنى أبدا ، وان لابن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة والنار .
وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله الأخر ، فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ، ان الردالمشار إليه ، انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه - اعني ابن تيمية - يقول : بفنائها ، وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها الأنهار !
وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثلاثة التي عقدها ابن القيم لهذه المسالة الخطيرة في كتابه (حادي الأرواحإلى بلاد الأفراح) (2 / 167 - 228) ، وقد حشد فيها (من خيل الأدلة ورجلها ، وكثيرهاوقلها ، ودقها وجلها ، واجري فيها قلمه ، ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ، واستنفر كل قبيل وجيل) كما قال المؤلف رحمه الله ، ولكنه أضفى بهذاالوصف على ابن تيمية ، وابن القيم أولي به وأحرى لأننا من طريقه عرفنا راي ابنتيمية ، في هذه المسالة ، وبعض أقواله فيها ، وأما حشد الأدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ، وان كان ذلك لا ينفي انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارص ۳)
البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کتاب میں ان دونوں پر علمی تنقید کی گئی ہےاوریہ کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔


ابن تیمیہ کے تمام دلائل چاہے وہ قوی ہویاکمزور،چھوٹے ہوں یابڑے،تھوڑاہویازیادہ یعنی دلیل کے نام پر جوکچھ بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی بلاد الافراح میں نقل کردیاہے۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختلاف ضرور ہے لیکن ہمیں سردست ابن تیمیہ سے بحث ہے۔


امید محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔
اعلم أن هذه المسألة اشار إليها الإمام الرازي في مفاتيح الغيب ولم يتكلم عليها بدليل نفي ولا إثبات ولا نسبها إلى قائل معين ولكنه استوفى المقال فيها العلامة ابن القيم في كتابه حادي الأرواح إلى ديار الأفراح نقلا عن شيخه العلامة شيخ الإسلام أبي العباس ابن تيمية فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل الأدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كلامه تلميذه ابن القيم (رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)


جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں اشارہ کیاہے لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیااورنہ ہی اس قول کو اس کے قائل کی جانب منسوب کیا۔لیکن اس بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی دیارالافراح میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کے فرمودات کی روشنی میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دلائل وبراہین ذکر کرنے والے ہیں اورابن تیمیہ کے کلام کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔
ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''القول المختار لبیان فناء النار''جس میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فناء ہوجائے گی اسی کی تائید کی ہے چنانچہ یہ صاحب البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نے دیکھاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن قیم کی کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع الاستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چل گیا۔یہ کتاب جو الالبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کلام کیاہے اورکہاہے کہ انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ البانی نے یہاں تک کہاکہ


معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں بھی انہوں نے عقل کی دخل اندازی سے کام لینے کی کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں البانی نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ یہ تک کہاکہ معتزلہ اوراشاعرہ نے جن صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاویل کی ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ 13-14)
اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف الاستار لابطال ادعاء فنار النار''اور اس میں کوشش کی ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیاجائے کہ فناء نار کے ابن تیمیہ قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوشش سعی لاحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہاں کہیں وہ کسی ایسی بات یاکوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں جوان کے مزعومات کے خلاف ہو تو فوراًاس کا انکار کردیتے ہیں بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ علمی اصول تحقیق کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حافظ ذہبی نے اس میں ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حافظ ذہبی کی تصنفیات کی فہرست سے یہ کتاب نکال دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔


حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بالآخر فناہوجائے گی پر ان کے ایک معاصر مشہور فقیہہ اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار"جس میں انہوں نے ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔


ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف
حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار"کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو آپ بھی دیکھیں اورپرکھیں۔
حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا قول ایساہے کہ اس بارے مین سلف اورخلف میں دوآراء رہی ہیں۔


واماالقول بفناء النار ففیھاقولان معروفان عن السلف والخلف ،والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع الاستار ص9)
فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوقول رہے ہیں اوراس بارے میں تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں نزاع رہاہے۔


والرابع : ان النار قیدھابقولھا (لابثین فیہااحقابا)وقولہ (خالدین فیہا الاماشاء اللہ)وقولہ (خالدین فیہامادامت السماوات والارض الاماشاء ربک ) فھذہ ثلاث آیات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقۃ علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت ولامعلق۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں نار کو مذکورہ تین آیتوں سے مقید کیاگیاہے۔ یہ تینوں آیتیں نار کے موقت اورشرط پر معلق ہونے کا تقاضاکرتی ہیں اورجس کی صفت دوام اورمطلق کی ہوتی ہے وہ موقت اورمعلق نہیں ہوتی ہے۔
السادس:ان الجنۃ من مقتضی رحمتہ ومغفرتہ والنار من عذابہ، وقد قال: (نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) وقال تعالیٰ اعلموا ان اللہ شدید العقاب وان اللہ غفوررحیم)وقال تعالیٰ تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )
فالنعیم من موجب اسمائہ التی ھی من لوازم ذاتہ ،فیجب دوامہ بدوامعانی اسمائہ وصفاتہ واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاتہ والمخلوق قد یکون لہ انتھاء مثل الدنیا وغیرھا ،لاسیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔
چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت اللہ کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔اوراس کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد آیتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اسماء کے موجبات میں سے ہے جواس کی ذات کو لازم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحقق ہوسکتاہے جہاں تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہاء بھی ہوتی ہے جیسے کہ دنیا اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔


الوجہ السابع: انہ قد اخبر ان رحمتہ وسعت کل شی وانہ "کتب علی نفسہ الرحمۃ"وقال"سبقت رحمتی غضبی "و"غلبت رحمتی غضبی"وھذا عموم واطلاق فاذا قدرعذاب لاآخرلہ ،لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ(مقدمہ رفع الاستار ۱۳)
ساتویں دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لئے ہوئے ہے اورمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطلاق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی عذاب ایساہو جس کی کوئی انتہاء نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔


البانی کا موقف


البانی نے ابن تیمیہ پر اس مسئلہ پر تنقید کرتے ہوئے رفع الاستار میں جوکچھ بھی لکھاہے وہ پیش خدمت ہے۔ابن تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرلانہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگا۔ اس پر البانی صاحب فرماتے ہیں 


فکیف یقول ابن تیمیۃ :ولوقدرعذاب لاآخر لہ لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ فکان الرحمۃ عندہ لاتتحقق الابشمولھا للکفار المعاندین الطاغین !الیس ھذا من اکبرالادلۃ علی خطا ابن تیمیۃ وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللھم !
کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگا۔گویاکہ رحمت کا ثبوت جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاجائے اورکیایہ ابن تیمیہ اوراس مسئلہ میں ان کی پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرناک مسئلہ میں ان کی پیروی کررہے ہیں۔اس کے بعد البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھا جب کہ ان مطالعہ کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھا اورادلہ شرعیہ میں انہیں مہارت حاصل نہیں تھی (بعض لوگ اسی عمر مین انہیں مجتہد ماننے پر بضد ہیں)


ولعل ذلک کان منہ ابان طلبہ للعلم،وقبل توسعہ فی دراسۃ الکتاب والسنۃ،وتضلعہ بمعرفۃ الادلۃ الشرعیۃ ۔(مقدمہ رفع الاستارص25
یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔


یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور ہے۔

ابن تیمیہ  کے متعلق علماء اہلسنت کی  رائے
علماءاہلسنت میں بعض نے  ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے اور بعض نے صرف ترک پر ہی اکتفاء کیا ہے 

علامہ سبکیؒ فرماتے ہیں:
ابن تيمية هو ضال مضل
” ابن تیمیہ گمراہ ہیں اور گمراہ کرنے والے ہیں“۔
(فیض  القدیر شرح الجامع الصغیر الجز الساوس ص 241)
امام الجرح والتعدیل علامہ شمس الدین ذہبیؒ جو کہ ابن  تیمیہ کے مخلص اور قدردان تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ابن یتمیہ دین کے بارے میں حد سے تجاوز کر رہے ہیں اوور بہت سے اتفاقیا وراجماعی مسائل میں اہلسنت والجماعت کے منہج سے ہٹ رہتے ہیں تو انہوں نے از راہ نصیحت علامہ ابن یتمیہ کو خط لکھا  چنانچہ فرماتے ہیں:
ياخيبة اتبعك فانه معرض للذندقة و الانحلال لا سيما اذا كان قليل العلم والدين باطو ليا شهوانيا۔۔۔۔ فهل معظم اتباعك الاقعيدم بوط خفيف العقل او عامي کذاب بليد الذهن او غريب  و اجسم قوي المکراو كاشف صالح عديم الفهم  فان لم تصدقنيففشهم و زنهم بالعدل
”اس شخص کی نامرادی پر افسوس جو تیری اتباع کرتا ہے اسلئے کہ اندیشہ ہے کہ وہ زندیق ہو جائے اور ملحد ہو جائے  خاص طور پر جب کم علم بھی ہو دین بھی اسکا ناقص ہو شہوت پرست ہو۔۔۔ تیرے پیچھے چلنے والے بیشتر وہ ہیں جو اپاہج ہیں اور رسی میں جکڑے ہوئے  ہیں، عقل کے کمزور ہیں یا وہ عامی کذاب اور بے و قوف ہیں ، یا سوکھی عقل والے ناسمجھ ہیں۔ اگر تم کو میری بات کا یقین نہ ہو تو انکا حال معلوم کرو اور انصاف کے ترازو پر انکو رکھو“۔
(غل العلم ص 17)
ابن حجر هيتميؒ لکھتے ہیں:
ابْن تَيْمِية عبد خذله الله وأضلَّه وأعماه وأصمه وأذلَّه، وَبِذَلِك صرح الْأَئِمَّة
ابن تیمیہ وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالٰی نے رسوا کیا اور گمراہ کیا اور اندھا کیا اور بہراہ کیا اور ذلیل کیا اس کی بڑے بڑے ائمہ نے تصریح کی ہے۔
(الفتاوى الحديثية ج 1 ص 83)
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
ابن تيمية من الحنابلة حيث حرم السفر لزيارة النبي صلى الله تعالى عليه وسلم كما أفرط غيره حيث قال كون الزيارة قربة معلوم من الدين بالضرورة وجاحده محكوم عليه بالكفر ولعل الثاني أقرب إلى الصواب لأن تحريم ما أجمع العلماء فيه بالاستحباب يكون كفرا
(شرح الشفا ج 2 ص 152)
علامہ شامیؒ علامہ سبکیؒ کے حوالہ سے فرماتے ہیں:
قَالَ وَقَالَ السُّبْكِيُّ: يَحْسُنُ التَّوَسُّلُ بِالنَّبِيِّ إلَى رَبِّهِ وَلَمْ يُنْكِرْهُ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ وَلَا الْخَلَفِ إلَّا ابْنَ تَيْمِيَّةَ فَابْتَدَعَ مَا لَمْ يَقُلْهُ عَالِمٌ قَبْلَهُ
نبی کریمﷺ کا وسیلہ پیش کرنا مستحن ہے اور سلف اور خلف میں سے ابن تیممیہ کے سوا کسی نے اس کا انکار نہیں کیا اس نے یہ بدعت کی  اور وہ بات کہی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی۔
(رد المختار  ج 6 ص 397)
اس کے علاوہ اور بھی بے شمار اقوال علماء اہلسنت کے موجود ہیں، اس سے ان لوگوں کو بھی رد ہو گیا جو یہ کہا کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ پر کسی اہلسنت نے کوئی رد نہیں کیا جبکہ یہ بات صحیح نہیں جہاں ابن تیمیہ جماعت اہلسنت کے پابند رہے وہاں کسی اہلسنت نے ان پر کوئی رد نہیں کیا لیکن جہاں انہوں نے جماعت اہلسنت کو چھوڑا وہاں یا تو ان پر رد کیا گیا یا ان کی مخالفت کی گئی یا کم از کم ان کے فیصلے کو ترک کیا گیا ۔
علماء دیوبند کی ابن تیمیہ کے متعلق رائے
علماء دیوبند نے بھی عادلانہ طریقے سے  ابن تیمیہ کو ترک کیا ہے اپنی کتب میں جہاں ابن تیمیہ نے جماعت اہلسنت کی مخالفت کی جبکہ  بعض کی رائے ان کے متعلق سخت تھی
حضرت الاستاذ شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمة الله عليه تو حضرت شاه عبد العزیز رحمة الله علیه سے بهی اس (ابن تیميه كے) *معامله میں سخت تهے کیونکه انهوں نے علامه کی قلمی تالیفات کا بهی مطالعه کیا تها اور وه علامه ابن تیمیه کے لئے شیخ الاسلام کا لقب بهی پسند نه کرتهے تهے اسی ليے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمة الله علیه کو بذل المجهود (کاتب کی غلطی؛ صحیح اوجز المسالک) میں علامه کو شیخ الاسلام لکهنے پر سخت ناراضگی کا اظهار کیا تها اور حضرت رحمة الله علیه کی الشهاب الثاقب تو احقاق حق و ابطال باطل کا بے نظیر علمی و تحقیقی شاهکار هے. رحمه الله رحمة واسعة.
(ملفوظات محدث کشمیری: صفحه 414)
ملفوظات محدث کشمیری میں اور بھی کئی جگہ ان کے متعلق کئی ایک اقوال ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا  محمد ابو بکر غازی پوری صاحب کی کتاب کیا ابن  تیمیہ اہلسنت میں سے تھے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:

ابن تیمیہ گو پہاڑ ہیں علم کے مگر کتاب سیبویہ کو نہیں سمجھ سکے ہوں گے کیونکہ عربیت اونچی نہیں ہے۔ فلسفہ بھی اتنا جانتے ہیں کہ کم اتنا جاننے والے ہوں گے مگر ناقل ہیں۔ حاذق نہیں ہیں۔معقولات کا حاضر رکھنے والا بھی ان جیسا کم ہوا ہے اور مطالعہ بھی بہت زیادہ ہے مگر باوجود اس کے کچی بات کو اختیار کر لیتے ہیں  جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاذق نہ تھے سیبویہ کی سترہ غلطیاں نکالی ہیں اور میرا خیال ہے کہ خود ہی غلط سمجھے ہوں گے۔ (ملفوظات کشمیری ص 236 تالیفات اشرفیہ ملتان)


حافظ ابن قیم
شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ حافظ ابن قیم کے  طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر قیاس دلائل کے جوابات دینے کے بعد  فرماتے ہیں:

”یہ یاد رہے کہ حافظ ابن قیم  ؒ کی شخصیت اور مجموعی لحاظ سے انکی علمی خدمات کا ہمیں کوئی انکار نہیں، اور ان سے ان کی شان کے مناسب ہمیں بے حد عقیدت  و محبت ہے گفتگو تو صرف ان کے بے جان اور بے وقعت اور بے وزن دلائل کے متعلق ہو رہی ہے جو انہوں نے اجماع امت حضرات ائمہ اربعہؒ اور جمہور محدثین و فقہاء عظامؒ کے خلاف پیش کرنے کی بے جاسعی کی ہے “۔ (عمدۃ الاثات ص 127)

 (جاری)