فرقہ معتزلیہ ، کرامیہ ، سلفیہ کا مذہب اور متاخرین کی وجہ تاویل
معتزلیہ کا یہ مذہب ہے کہ جتنی بھی صفات قرآن کریم میں آئی
ہیں وہ ان کے معنی تعین کر لیتے ہیں ظاہری معنی کو تو چھوڑتے ہیں مگر اس کے ساتھ
یہ نہیں کہتے کہ اللہ کی اس میں جو مراد ہے وہ اس کے سپرد بلکہ کہتے ہیں نہیں اس
کا یہی معنی ہے قدرت آگئی یا رحمت اور یہ
معنی تعین کرکے اس پر بس کر لیتے ہیں۔
مجسمہ ، کرامیہ
سلفیہ بھی معنی تعین کرتے ہیں مگر معتزلیہ کے الٹ کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں
ان صفات کا جو ظاہری معنی ہمارے علم میں ہے وہی اللہ کی مراد ہے لیکن اس کی کیفیت
کیا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں یعنی ید سے کہتے ہیں کہ یہ ید سے حقیقی ہاتھ ہی مراد ہے
ذات کا ایک جز مراد ہے مگر اس کی کیفت معلوم نہیں
کہ وہ کس شکل کا ہے کیسا ہے یہ معلوم نہیں۔ مجسمہ کرامیہ یہ معنی تعین کرکے
اس پر بس کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں۔
جب کہ اہلسنت والجماعت اور سلف اہلسنت کا یہ مذہب ہے کہ
یہ جو جو اللہ کی صفات قرآن و حدیث میں
ملتی ہیں ان پر ہم ایمان لاتے ہیں اور اس کا جو ظاہری معنی ہے اس سے اللہ کو پاک
سمجھتے ہیں۔ اللہ کی مراد کو اسی کے سپرد کرتے ہیں
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ
الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا
إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ
حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان
کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی
طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ
کو پاک قرار دیتے ہیں۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے ایک سلفی لکھتا ہے:
هذا النص اولا
صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل
وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل
صراخ ثكالي الجهمية
ترجمہ:
میں کہہتا ہوں یہ عبارے پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ
جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل
تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی
یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر
رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔ (والعیاذ
باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)
اس سے سلفیہ کا مذہب بھی معلوم ہو جاتا ہے اور اہلسنت کا
بھی
ہم خود سے کوئی معنی تعین نہیں کیا جیسا کہ معتزلیہ کی طرح کہیں کہ نزول ، ید وغیرہ آیات سے مراد صرف قدرت ہے اور
بس یا مجسمہ کی طرح کہیں کہ ان صفات سے مراد ان کا حقیقی اور ظاہری معنی ہے اور یہ
ذات کا ایک حصہ ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی مراد نہیں ہو سکتی۔
البتہ متاخرین
نے اس کی درجہ ظن میں تاویل کی اور وہ کیوں کی ہے اس کا جواب ملا علی قاریؒ فرماتے
ہیں:
وَإِنَّمَا
دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ
وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى
عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ،
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج 3 ص 923)
ترجمہ:
انہوں نے ایسا اپنے زمانوں کی مجبوری و ضرورت کی وجہ سے کیا
جو یہ تھی کہ ان کے زمانوں میں مجسمہ اور جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں نے سر اٹھایا
اور یہ عوام کی عقلوں پر غالب ہونے لگے تو
تاویل کرنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ ان کے فتنوں کو دفع کریں اور ان کی باتوں کا توڑ کریں۔
اور لکھتے ہیں:
وَلَمْ يُرِيدُوا بِذَلِكَ مُخَالَفَةَ السَّلَفِ
الصَّالِحِ، مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ ذَلِكَ
متاخرین کی یہ
مراد نہیں تھی کہ وہ اسلاف کی مخالفت کریں۔ معاذ اللہ ان کے بارے میں ایسی بدگمانی
کرنا جائز نہیں۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج 3 ص 923)
اور درجہ ظن میں تاویل کا یہ مطلب نہیں کہ صفات کا
انکار کیا جائے بلکہ
یہ عام لوگوں کے خیالات کو جسمیت کی جانب سے پھیرنے کیلئے
کی گئی
امام ابن ہمامؒ فرماتے ہیں:
نومن نه تعالي مستو علي العرش مع الحكم بان استواء ليس
کاستواء الاجساد من التمكن والمباهته
وامحاذاة بل بمعني يليق به وهوا علم به وحاصله وجوب الايمان بانه استوي علي العرش
مع نفي التشبيه فاما كون المردابه استيلا العرش فامو جائز الاردة لكن لا دليل علیه
عينا فالجواب علينا ماذ كونا وكد اكل ماور دبه مما ظاهرهالجسمة کا لا صبع والقدم
واليدهجيب الايمان به فان اليدا الاصبع صفة لا بمنعے الجارحة بل بمنے يليق به وقد
اول ليد والا صبع باقدرة والقرد لصرف العامة
من فهم الجسمة وهو ممكن ان يواد ولا يوم بارواته
ترجمہ:
ہم باری تعالٰی کے استواء علی العرش پر ایمان لاتے ہیں اور
اس بات کا حکم کرتے ہیں کہ اللہ کا استواء اجسام کے استواء جیسا نہیں ہے کہ مکان بنانے یا چھونے یا مقابل
ہونے کے معنے رکھتا ہو بلکہ ایک ایسے معنی کے اعتبار سے ہے جو اس کی شان کے لائق
ہوں جسکو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا حاصل اس کا یہ ہے کہ استواء علی العرش پر
ایمان لانا نفی تشبیہ کے ساتھ واجب ہے لیکن اس سے استیلا (قدرت) علی العرش مراد
ہونا بھی جائز ہے مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہے پس ہم پر وہی واجب ہے جو ہمنے لکھا
ہے اور اس طرح ان تمام آیات واردہ پر جنکے ظاہر معنی جسمیت پر دلالت کرتے ہیں
ایمان لانا واجب ہے کیونکہ یہ باری تعالٰی کی صفات میں سے عضو کے معنی میں نہیں
ہیں بلکہ کسی ایسے معنے میں ہیں جو شان باری تعالٰی کے لائق ہیں اور ید و اصبع کی
تاویل قدرت و قہر سے عام لوگوں کے خیالات کو جسمیت کے جانب سے پھیرنے کیلئے کی گئی
ہے اور ممکن ہے کہ یہ معنی مراد ہوں لیکن انکے (قطعی) طور پر مراد ہونے کا یقین
نہیں ہے۔
(كتاب المسامرة
ص 33-37)