غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday 12 July 2015

نزول الی السماء کے وقت لامذہب سلفی درحقیقت جہمیہ اور حلولیہ ہیں Nazool al Smah


 نزول الی السماء کے وقت لامذہب سلفی درحقیقت  جہمیہ اور حلولیہ ہیں
لامذہب سلفیوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ  موجود بلا مکان و جگہ ہے لامحدود ہے تو کہتے ہیں اللہ کی ذات کی کوئی انتہا نہیں تو کہتے ہیں کہ پھر تو آپ لوگ جہمی ہو گئے کیونکہ جب اللہ موجود بلا مکان و جگہ اور لامحدود ہوا تو پھر تو اپنی ہر مخلوق کے پاس ہوا اور اگر اپنی مخلوقات کے پاس ہوا تو اس سے حلول (مکس ہونا) یا اتحاد (جڑ جانا) لازم آتا ہے۔
اب نزل الی السماء کے وقت جب یہ اللہ کی ذات کو چھ آسمانوں کو چھوڑ کر آخری آسمان دنیا پر مانتے ہیں یقیناً ان کے اس عقیدے سے اللہ کیلئے حلول اور اتحاد کا  اثبات ہو جاتا ہے لہذا یہ لوگ بلا شبہ حلولیہ ہیں۔
ان لامذہبیہ کی دشمنی صرف اہلسنت اشعریہ و ماتریدہ کے ساتھ ہے جن کے یہ اقوال کو غلط معنی دے کر کہتے ہیں کہ وہ جہمیہ اور حلولیہ ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ  لامذہبی خود جہمیہ اور حلولیہ ہیں  کیونکہ جس طرح سے زمین اللہ کی مخلوق ہے ویسے ہی آسمان بھی اللہ کی مخلوق ہے جس طرح سے زمین پر اگر کوئی اللہ کی موجودگی کو حلول اور اتحاد مانتا ہے  تو اسے ایسا ہی آسمان  میں بھی حلول اور اتحاد ماننا پڑے گا۔
حلول و اتحاد کے متعلق ہمارا موقف
اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔  

یہ لامذہبی زمین پراللہ کو نہیں مانتے   کیونکہ کہتے ہیں کہ اس سے حلول لازم آتا ہے لیکن آسمان میں اللہ  کو مانتے ہیں اس سے حلول کیوں لاز م نہیں آتا ؟
جس طرح سے نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ رات کے وقت اللہ تعالٰی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں ویسے ہی نبیﷺ نےیہ بھی فرمایا ہے کہ نماز ی جب نماز پڑھتا ہے تو اللہ سامنے موجود ہوتے ہیں۔
نزول الی السماء
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) قال يتنزل ربنا تبارک وتعالی کل ليلة إلی السمائ الدنيا حين يبقی ثلث الليل الآخر يقول من يدعوني فأستجيب له من يسألني فأعطيه من يستغفرني فأغفر له
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب کہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے اور فرماتا ہے، کہ کون ہے، جو مجھ سے دعا مانگے، تو میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے، جو مجھے سے سوال کرے، تو میں اس کو دے دوں اور کون ہے، جو مجھے سے بخشش چاہے، تو میں اس کو بخش دوں۔
(صحیح بخاری  ج3 حدیث:1271)
نزل الی السماء کے متعلق اہلسنت کا موقف آگے آئے گا  لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ دنیا  کے گول ہونے کیوجہ سے دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں رات کا وقت ہوتا ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں جہاں دنیا میں کہیں نہ  کہیں رات نہ ہو ہر وقت دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں رات کا وقت ہوتا ہے۔اب جس طرح سے یہ لامذہبی حدیث  کے ظاہری معنی کو لیتے ہیں اس سے پھر یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ  ہر وقت  آسمان دنیا پر ہی ہو یا اللہ ہر وقت عرش اور آسمان دنیا دونوں پر ہو  ، حالانکہ یہ  لامذہی یہ بات نہیں مانتے کہ اللہ  ہر وقت آسمان دنیا پر  ہی ہے یا  ہر وقت عرش پر بھی ہے اور آسمان دنیا پر بھی ہے ،   اگر یہ ایسا کہیں تو ان کا    باقی من گھڑت عقیدہ تباہ ہو جائے ۔
نمازی کے سامنے اللہ
عن عبد الله بن عمر أن رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) رأی بصاقا في جدار القبلة فحکه ثم أقبل علی الناس فقال إذا کان أحدکم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلی
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ایک مرتبہ) قبلہ کی دیوار میں کچھ تھوک دیکھا، تو آپ نے اسے صاف کر کے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے، تو وہ اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے، اس لئے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے، تو اللہ سبحانہ اس کے سامنے ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری ج 1  حدیث : 401)
اہلسنت کا ایسے اقوال کے متعلق یہ کہنا ہے کہ     اس کی حقیقت اللہ ہی خوب جانتا ہے  ہم اللہ کیلئے  کوئی تخصیص نہیں کرتے کہ یہ کہیں کہ اگر اللہ سامنے ہوا تو عرش  خالی ہو گی اگر عرش پر ہوا تو سامنے نہ ہوا اگر آسمان پر ہوا تو عرش خالی ہو گیا وغیر  ہ
ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی حقیقت  کو اللہ کے ہی سپرد کرتے ہیں  یہی صحابہ او ر اہلسنت سلف کا موقف تھا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
”جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
نمازی سامنے اللہ موجود ہوتا ہے یہ حدیث ان پر اہتمام حجت ہے جو کہ ظاہری معنی لیتے ہیں  اور اللہ کیلئے تخصیص کرتے ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ  یہ لامذہبی سلفی اللہ کی مراد کو اللہ کے سپرد کرنے کے بھی پکے منکر ہیں
چنانچہ ایک سلفی مولوی امام جلال الدین سیوطیؒ کی عبارت کو نقل کرنے کے بعد  یہ بکواس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
ترجمہ:
”میں کہتا ہوں یہ عبارے پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں“۔ (والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)

اب انہیں چاہئے کہ منافقت چھوڑ کر بغیر تفسیر کے اس کا ظاہری معنی لیں۔ 


نزول الی السماء کے متعلق اہلسنت والجماعت کا موقف

اخْتُلِفَ فِي مَعْنَى النُّزُولِ عَلَى أَقْوَالٍ فَمِنْهُمْ مَنْ حَمَلَهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيقَتِهِ وَهُمُ الْمُشَبِّهَةُ
امام الجرح والتعدیل حافظ ابن  حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیںؒ
نزول کے معنی کے متعلق مختلف اقوال ہیں مگر جس نے اسے ظاہر اور حقیقت پر حمل کیا وہ مشبہۃ (گمراہ فرقہ) ہے۔
(فتح الباري لابن حجر ج 3 ص 30)
 لامذہبی سلفیوں کے شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں:
نزوله تعالي حقيقي
اللہ کا نزول حقیقی ہے۔
(شرح العقیدة الوسطيه ص 13)
لفظ حقیقی کی تشریح
اگر حقیقت  سے یہ مراد ہو کہ وہ حقیقت جو اللہ کی شان کے لائق ہے اور ہم اس کو بالکل نہیں جانتے  اور اسے اللہ کے سپرد کرتے ہیں تو بلکل درست ہے۔
لیکن اگر حقیقی سے یہ مراد ہے کہ جو  مخلوقات کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کسی   ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرکے منتقل ہو جانا  تو ہم  قطعاً اس کا انکار کرتے ہیں اور ابن حجرؒ نے بھی اسی حقیقی کا رد کیا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقی سے فرقہ سلفی کیا مراد لیتا ہے۔

فرقہ سلفیہ کے ہاں اللہ حرکت کرتا ہے۔
چنانچہ سلفیہ کے شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں:
شیخ محمد بن عثیمین لکھتے ہیں۔
الحرکة لله تعالي فالحرکة له حق
)الجواب المختار ص 22(
اللہ حرکت کرتا ہے یہ حق ہے۔

فرقہ سلفیہ کے ہاں اللہ منتقل ہوتا ہے۔
سلفیہ کے شیخ خليل هراس  امام ابن حزيمه كي التوحيد ر اپني تعليق ميں اللہ کے نزول کے قول کے تحت حاشئے میں  لكهتے ہيں:
)ص126( :
«يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه : انتقال من علو إلى سفل!».
ترجمه :
يعنی الله كا آسمان دنيا پر نزول اس بات كا تقاضا كرتي  ہے كہ  الله اس كے اوپر ہو كيونكہ نزول اوپر سے نيچے منتقل ہونے كو كهتے ہيں“۔
 نعوذبالله
بالفرض اگر وہ ایسا نہ بھی لکھتے تب بھی لامذہبی سلفیوں کے  اصول  و ضوابط کے مطابق یہی بات لازم آتی ہے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ ان کا ظاہری معنی ہی لینا ہے اور نزول ا وپر سے نیچے منتقل ہونے کو ہی کہتے ہیں جیسا خلیل ہراس نے کہا۔

فرقہ سلفیہ  کہ ہاں  نزول کے وقت عرش خالی ہوتا ہے۔
چنانچہ فرقہ سلفیہ کے شیخ ابن عثیمین نے نزول کے وقت عرش کے خالی ہونے کا اہلسنت کا قول قرار دیا ہے۔
سلفیوں کے شیخ ابن العثیمین  لکھتے ہیں:
واذا كان علماء اهل السنة لهم في هذا ثلاثة قول يخلو، وقول بانه لا يخلو، وقول بالتوقف
(شرح عقیدہ الاوسطیہ للعثیمین ص 261)

لہذا معلوم ہوا ہے کہ یہ لامذہبی حقیقی کی وہ مراد لیتے ہیں جو مراد گمراہ فرقہ مشبہہ کے ہاں ہے۔
(new)