غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday 1 June 2015

اہلسنت اشعریہ و ماتردیہ اور فرقہ سلفیہ کے درمیان ایک بنیاد ی اختلاف

اہلسنت اشعریہ و ماتردیہ اور فرقہ سلفیہ کے درمیان ایک بنیاد ی اختلاف
علامہ عبدالحلیم صاحب ویلوریؒ نے اپنے فتوے بنام توضیح الدلیل فی ابطال التشبیہ واتعطیل فی صفات الرب الجلیل میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور سلفیہ  کے عقائد کا ذکر کیا ہے۔
 جس کی تائید مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ،  مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ اور مفتی عزیز الرحمٰن دیوبندیؒ اور غیرمقلدین کے اکابر میاں نذیر حسن دہلوی، ابو سعید محمد حسین لاہوری اور محمد شمس الحق عظیم آبادی وغیرہ  نے  بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔

مولانا عبدالحلیم ویلوریؒ فرماتے ہیں
ترجمہ:
ایک فریق (یعنی اشاعرہ و ماتریدیہ پر مشتمل فریق) کہتا ہے کہ  آیات صفات اور وہ احادیث جن میں اللہ تعالٰی کے اوصاف مثلا اس کے استواء علی العرش اور عرش پر اس کی فوقیت اور اس کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور عرفہ کی شام کو اس کا بندوں کے قریب ہونا وغیرہ جن کا  سلف صالحین نے اقرار کیا ہے کہ یہ اللہ تعالٰی کے اوصاف ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے اپنے بارے میں خود ذکر کیا ہے یا ان کے رسول ﷺ نے بیان کیا ہے ۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے، اور ان کی حقیقت جو صرف اللہ ہی جانتے ہیں ان کی معرفت کو ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ان کی ماہیت جو اللہ تعالٰی کے شایان شان ہو اس کے علم کو ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور ہم ان میں تاویل ، تشبیہ اور تعطیل کچھ نہیں کرتے اور ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی  بعد ، حد ، اتصال ، انفصال ، مسافت ، حلول ، اتحاد کی کیفیات سے اور عین مخلوق ہونے سے اور ان کے لئے اعضا و جوراح اور ابعاض  و اجزاء ہونے سے اور حدوث کے تمام تعلقات سے اور جسم کے لوازم سے اور اعراض سے سب سے پاک ہیں اور کتاب و سنت میں اللہ تعالٰی کیلئے جو حقائق و اوصاف مذکور ہیں ہم ان پر اس طور  سے ایمان رکھتے ہیں جو اللہ تعالٰی کی شایان شان ہیں اس طرح سے نہیں  جو ہماری عقل و خیال میں آتے ہیں۔
تو جیسے اللہ تعالٰی عرش پر اس استواء کے ساتھ مستوی ہیں جو ان کے لائق ہے اور ان کو اپنے عرش پر اس طرح فوقیت حاصل ہے جو ان کی شایان شان ہے نہ عرش کے ساتھ اتصال کی کیفیت کے ساتھ اور نہ اس سے انفصال کی کیفیت کے ساتھ اسی طرح اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایسا قرب رکھتے ہیں جو ان کی شایان شان ہے۔ نہ اس میں حلول و اتحاد ہے اور نہ جسموں کے اور اعراض کے قرب کے ساتھ تشبیہ ہے۔
یہ پہلا فرقہ کہتا ہے کہ استواء ، فوقیت اور دیگر اوصاف ان سب کا حکم ایک ہی ہے اس میں کچھ فرق نہیں ہے اور ان سب میں ہمارے لیے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ہم ان پر اس طرح سے ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی کی شایان شان ہیں اور ان کی ذات جل و علا کی تنزیہ بر قرار رہتی ہے اور ہم کیفیت کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں اور تشبیہ ، تاویل، تعطیل سب سے ہی بچتے ہیں“۔

اب دوسرا فریق ہے   اپنے آپ کو سلفی کہنے والا
ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
یہ فریق ثانی دعوی کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی کیلئے فوقیت ثابت ہے عرش سے انفصال کے ساتھ اور عدم تماس کے ساتھ بایں معنی کہ اللہ کی ذات عالم سے خارج ہے اور عرش کے اوپر ہے اور اس میں بھی وہ عرش کی اوپری سطح سے جدا ہے ملا ہوا نہیں ہے اور اپنے بندوں سے دور ہے  اور اللہ کے درمیان اور اس کی مخلوق کے درمیان بڑا فاصلہ ہے اور یہ دوسرا فرقہ فوقیت کو اللہ کے علم کے سپرد نہیں کرتا بلکہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ فوقیت کو جانتا ہے اور یہ محکمات میں سے ہے۔ رہا استواء اور ید ،  اور وجہ ، وغیرہ تو یہ بھی اسی قبیل سے ہیں۔۔۔۔۔ یہ فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہی سلف کا مذہب ہے“۔
ان دونوں فریقوں کے عقائد نقل کرنے کے بعد یہ سوال ہے  کہ
” ترجمہ ہمیں بتایئے کہ ان دو گروہوں میں سے کس کا قول ثابت ہے اور کس اعتقاد درست ہے اور کون سلف صالح کے موافق ہے اور کون درست ہے اور کون خطا پر ہے“۔
الجواب
ترجمہ
جان لو کہ فریق اول کا قول ثابت ہے اور اس کا عقیدہ درست ہے اور وہی سلف صالح کے موافق ہے اور دوسرا فریق ہے اس کا عقیدہ درست نہیں کیونکہ وہ بدعتی اور خواہش پرست ہے۔۔۔۔ اور فریق ثانی کے عقائد پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس کے عقائد دو بدعتی جماعتوں کے عقائد سے مرکب ہیں۔ اللہ تعالٰی کیلئے فوقیت میں انفصال کی کیفیت کو اس نے بدعتی محمد بن ہیضم کرامی سے لیا اور فوقیت کے علاوہ دیگر عقائد یعنی استواء اور ہاتھ اور چہرے اور نزول وغیرہ وہ اوصاف جو سلف و خلف کے نزدیک قرآن و سنت سے ثابت ہیں ان میں اس نے جہمیہ اور معتزلہ کا طریقہ اختیار کیا ہے“۔

میاں نذیر حسن صاحب غیرمقلد اس کی تائید میں لکھتے ہیں:
فاضل اور فہیم محمد عبد الحلیم ویلوری کا جواب صحیح ہے اور ان کی رائے درست ہے اور یہی صحابہ تابعین مجتہدین اور متاخرو محقق علماء کا قول ہے اور دوسرے فریق کی تاویلات سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہیں جیسا کہ ظاہر ہے“۔
محمد حسین لاہوری غیرمقلد اشاعۃ السنہ النویہ میں لکھتے ہیں:
مصنف نے عمدہ بات کہی ہے اور ان کا جواب درست ہے“۔

(توضیح الدلیل ص 201)