غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 30 June 2015

استوی معلوم کیف مجھول سے غلط استدلال کا ردّ Istawa Maloom

استوی معلوم کیف مجھول  سے غلط استدلال کا ردّ
فرقہ لامذہبیہ کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔
جبکہ استویٰ معلوم کیف مجھول کا یہی معنی ہے کہ جو اللہ نے ہمیں خبر دی وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن اس کی حقیقت کیا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں
اگر  لامذہبی سلفیہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہماری بات درست نہیں اور ان کی بات درست ہے تو پھر  ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر آپ لوگوں کو استوی  معلوم ہے تو پھر بتاتے کیوں نہیں  جو آپ کو معلوم ہے؟
مفسر قرآن علامہ  شهاب الدين محمودآلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
ليس نصا في هذا المذهب لاحتمال أن يكون المراد من قوله: غير مجهول أنه ثابت معلوم الثبوت لا أن معناه وهو الاستقرار غير مجهول
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے“
 (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)

نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری
(واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوعفتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔

لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
کیا سلف صالحین  ان صفات کو  ظاہر پر محمول کرتے تھے؟
قال الإمام عدي بن مسافرؒ (وفات 557ھ)
وتقرير مذهب السلف كما جاء من غير تمثيل ولا تكيف ولا تشبيه ولا حمل الظاهر
امام عدي بن مسافرؒ فرماتے ہیں
”سلف کا مذہب یہ تھا کہ وہ ان (صفات متشابہ) کی کسی کے ساتھ تشبیہ نہیں دیتے تھے نہ ہی انہیں ظاہر پر محمول کرتے تھے“۔
(اعتقاد أهل السنة ص 26 – أهل السنة اشاعرة ص 149)

الحمدللہ سلف کا وہی وقف ہے جو کہ ہمارا ہے۔


آل وکٹوریہ کے شیخ ابو محمد  امجد صاحب نے
استواء معلوم سے مراد صفت کا معلوم ہونا  لکھا ہے۔ دیکھئے (عقائد علماء دیوبند   از طالب الرحمن وکٹورین صفحہ 66)


جبکہ آج  کل وکٹورین امام مالکؒ کے اس قول ”الاستواء معلوم“ کا سہارا لیتے ہوئے اس کا پورا پورا معنی اور تشریح کرتے ہیں
(ترجمہ شرح واستطیہ ابن العثیمین ص 69)