غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Friday 26 February 2016

متفرق / پوسٹ / سکین / آپڈیٹ


اللہ ہر جگہ ہے اس جملے سے آخر کیا مقصورد ہے؟(New)


 رسالہ اہل ثغر ، امام ابو الحسن اشعریؒ


جواب نمبر 2
شیخ سعید فودہ د.ب اس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شریعت میں اللہ تعالی کو فی السماء تو فرمایا گیا ہے اس لیے اللہ کو فی السماء کہنا درست ہے دون ارضہ ..کا مطلب کہ نہ کہ اس کے زمین میں ...یہ ہے کہ اللہ تعالی کو صرف فی الارض کہیں بھی نہیں کہا گیا لہذا زمین میں اللہ کو کہنا درست نہیں
..
اور دیکھیے سلف اللہ تعالی کو فی السماء ..یا علی العرش ان الفاظ کا قران وحدیث میں ورود کی وجہ سے استعمال کرتے ہیں. کہ الرحمن "علی العرش "استوی ایا ہے ..اسی طرح اءمنتم من "فی السماء "یرحمکم.من فی السماء "ایا ہے
اللہ تعالی کو اسمان والا کہنا درست ہے لیکن اللہ جل شانہ کے لائق معنی سے
یعنی چونکہ اسمان میں اس کی بادشاہت ہے حکم صرف اسی کا چلتاہے زمین میں مجازی خداؤں کا حکم بھی چلتا ہے اس لیے اللہ سبحانہ ؤ تعالی کو اوپر والا اسمان والا کہا جانا بالکل درست ہے زمین میں ہونے کا ایسا کوئی معنی نہیں بنتا اس لیے اللہ تعالی کو فی الارض کہنا درست نہیں
یہی مطلب ہے فی سماءہ دون ارضہ
اسی طرح اللہ تعالی کو فوق کہا جاتا ہے علو میں کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا مفہوم ایک صحیح معنی میں بنتا ہے لیکن تحت (نیچھے) کا کوئی لائق باری تعالی معنی نہیں بنتا اس لیے اللہ کو تحت کہنا درست نہیں

سلف کی مراد ہرگز اللہ تعالی کو اسمان سے اوپر بالذات استقرار کیا ہوا ثابت کرنا مقصود نہیں اس پر ان کے دیگر اقوال دلالت کرتے ہیں جن میں حد کی نفی ہے جسم کی نفی ہے کہ جسم طول عرض عمق والے معنی کے لیے ہے اللہ اس سے پاک ہے 

محیط ذاتی قرب ذاتی 

جس نے اللہ کو عرش پر بیٹھا ہوا مانا اس نے کفر کیا امام ذہبیؒ

اللہ کو بذاتہ عرش پر ماننے والوں پر ابن حجر عسقلانیؒ کا رد

خدا تھا اور کوئی مخلوق نہ تھی اب بھی ویسا ہی ہے جہاں خدا مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے

آل وکٹوریہ اللہ کی صفات کے متعلق حقیقی لغوی اور عرفی معنوں میں ہاتھ پاؤں اثبات کرتے ہیں

مجسمیہ اور کرامیہ اللہ کیلئے حقیقی ہاتھ پاؤں  مانتے ہیں  ابراہیم سیالکوٹی

امام الاوزاعیؒ اللہ کہاں ہے
محمد بن کثیر المصیصی

فرقہ اہل حدیث اللہ کیلئے مکان کا قائل














































.................................
جہمیہ کا عقیدہ امام احمد بن حنبلؒ کتاب الرد علی الجہمیہ امام ذہبی کا جواب


'دون' 'فوق' کی ضد ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں
"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
ترجمہ:
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے تیرے نیچے کچھ نہیں۔
( صحیح مسلم ج4 ص 2084 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
اس سےمعلوم ہو گیا کہ اللہ کی ذات موجود بلامکان ، لامحدود اور نہ ختم ہونے والی ہےجس سے نہ اس کے اوپر کسی اور شے کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ اس کے نیچے کسی شے کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کہا جائے کہ یہاں سے اللہ کی ذات ختم ہو کر یہ چیز شروع ہوتی ہے۔اِس سے ان لوگوں کے عقیدے کی بھی نفی ہو گئی جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ صرف عرش پر ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ اللہ صرف عرش پر ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ اللہ کے اوپر تو کچھ نہیں لیکن نیچے عرش ہے۔
فرقہ اہلحدیث کا دعوی کہ اللہ کے اوپر بھی کوئی مخلوق ہوتی ہے اور نیچے بھی
جیسا ان کے عقیدہ سے صریح طور پر واضح ہے کہ اللہ کی ذات کے نیچے عرش وغیرہ مخلوقات کے قائل ہیں اور اس کے بھی قائل ہیں نیچے کی طرف سے نعوذ باللہ اللہ کی ذات ختم ہوتی ہے پھر عرش وغیرہ مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اور رات کو آسمان دنیا پر نزول کے وقت اللہ کے اوپر نعوذ باللہ عرش وغیرہ مخلوقات ہوتی ہیں ۔ یاد رہے دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں رات ہوتی ہے تو مطلب کہ ہر وقت اللہ کے اوپر اور نیچے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے العیاذ باللہ جس کا نبیﷺ نے رد کیا ہے اور اگر یہ لامذہب اللہ کے اوپر اور نیچے مخلوقات ثابت نہیں کرتے تو پھر پتا نہیں کس طرح سے ثابت کی جاسکتی ہیں



نصوص صفات اور اہلسنت والجماعت کا مذہب