غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday 8 June 2015

متقدمین نے بھی ظنیت کے درجے میں تاویل کی ہے۔

متقدمین نے بھی ظنیت کے درجے میں تاویل کی ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ ان سلف صالحین نے تاویل کی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے معتزلیہ کی طرح قطعی طور پر تاویل نہیں بلکہ درجہ طن میں تاویل کی ہے۔ معتزلیہ   خود سے کوئی تاویل کرتے ہیں اور اسی پر بس کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں جبکہ اہلسنت اللہ کی مراد کو اس کے سپرد کرکے درجہ ظن میں تاویل  عام لوگوں کے خیالات کو جسمیت کی جانب سے پھیرنے کیلئے یا اور کسی ضرورت کے تحت کرتے ہیں۔ اور وہی تاویل کرتے ہیں جو  اللہ کی شیان شان ہو۔
رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ”یوم یکشف عن ساق“(جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ) میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․
(فتح الباری لابن حجر، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة ج  13 ص 428)
علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله (وفات 310ھ) ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما (وفات 68ھ) حضرت امام  قتادہ (وفات 118ھ) ، حضرت مجاہد (وفات 104ھ) حضرت سفیان ثوری (وفات 161ھ) رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ”والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون“ (آسمان کو ہم نے اپنے دست سے بنایا )میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔
(تفسیر ابن حبریر الطبری،  الذاريات تحت آیة رقم:47)

امام احمد بن حنبل (وفات 241ھ)
وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ عَنِ الْحَاكِمِ عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ السَّمَّاكِ عَنْ حَنْبَلٍ أَنَّ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ تَأَوَّلَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: (وَجَاءَ رَبُّكَ) [الفجر: 22] أَنَّهُ جَاءَ ثَوَابُهُ.
ثُمَّ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ: وَهَذَا إِسْنَادٌ لَا غُبَارَ عَلَيْهِ.

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ (وفات 241ھ) کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام حمدؒ نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
البداية والنهايةج 10 ص 361)
  
امام بخاریؒ (وفات 256 ھ) اپنی صحیح میں قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ} [القصص: 88] : " إِلَّا مُلْكَهُ، وَيُقَالُ: إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: " فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمْ {الأَنْبَاءُ} [القصص: 66] : الحُجَجُ "
سورہ قصص کی تفسیر! بسم اللہ الرحمن الرحیم كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ”ہر چیز ہلاک ہونے والے ہے سوائے اس کے منہ کے“ میں ”وجھہ“ سے اللہ کی سلطنت  مراد ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ اعمال مراد ہیں‘ جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”انبائ“ سے مراد دلیلیں ہیں۔
(صحیح بخاری  ج 6 ص 112 کتاب التفسیر)
فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب   اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے تاویل  کی ہے۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
امام بخاریؒ نے سورۃ قصص کی تفسیر میں وجہ سے مراد اس کا ملک لیا ہے ، ہمارے (غیرمقلدین) کے نزدیک یہ تاویل صحیح نہیں ہے۔
 (ترجمہ کتاب التوحید ص 221  عبد الستار حماد)
تاویل غلط ہے یا صحیح یہ ایک الگ بحث ہے  یہاں یہ ثابت ہو گیا کہ امام بخاریؒ نے بھی  اپنے طور پر تاویل کی ہے۔

مزید دیکھئے