غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Saturday 6 June 2015

فرقہ سلفیہ کے جھوٹ اور دھوکے Firqa Salfia Kay Jhoot Aur Doaky


فرقہ سلفیہ کے جھوٹ اور دھوکے

دھوکہ نمبر 1
کہتے ہیں صحابہ اور سلف صالحین صفات متاشابہات کے جو ظاہری معنی ہیں وہی اللہ کیلئے مراد لیتے تھے
حالانکہ یہ بات بلکل جھوٹ ہے سلف اور صحابہ پر صریح طور پر بہتان ہے
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
ایک سلفی عالم امام جلال الدین سیوطیؒ کی  اس بات پر ان کی بدترین توہین کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
(والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)

دھوکہ نمبر 2
کہتے ہیں کہ متقدمین نے کوئی تاویل نہیں کی
حالانکہ یہ بات بھی درست  نہیں  خود صحابہ کرام اور متقدمین میں سے  اہلسنت کے اماموں نے صفات میں درجہ ظنیت میں تاویل کی
 رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ”یوم یکشف عن ساق“(جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ) میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر
(فتح الباری لابن حجر، باب: قول الله تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة ج  13 ص 428)
علامہ ابن جریری طبری رحمہ الله (وفات 310ھ) ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت آیة رقم:42)
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما (وفات 68ھ) حضرت امام  قتادہ (وفات 118ھ) ، حضرت مجاہد (وفات 104ھ) حضرت سفیان ثوری (وفات 161ھ) رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ”والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون“ (آسمان کو ہم نے اپنے دست سے بنایا )میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔
(تفسیر ابن حبریر الطبری،  الذاريات تحت آیة رقم:47)

امام احمد بن حنبل (وفات 241ھ)
وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ عَنِ الْحَاكِمِ عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ السَّمَّاكِ عَنْ حَنْبَلٍ أَنَّ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ تَأَوَّلَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: (وَجَاءَ رَبُّكَ) [الفجر: 22] أَنَّهُ جَاءَ ثَوَابُهُ.
ثُمَّ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ: وَهَذَا إِسْنَادٌ لَا غُبَارَ عَلَيْهِ.

امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ (وفات 241ھ) کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام حمدؒ نے ﴿وجاء ربک﴾ (اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
امام بیہقی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
( البداية والنهايةج 10 ص 361)
  
امام بخاریؒ (وفات 256 ھ) اپنی صحیح میں قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ} [القصص: 88] : " إِلَّا مُلْكَهُ، وَيُقَالُ: إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: " فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمْ {الأَنْبَاءُ} [القصص: 66] : الحُجَجُ "
سورہ قصص کی تفسیر! بسم اللہ الرحمن الرحیم كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ”ہر چیز ہلاک ہونے والے ہے سوائے اس کے منہ کے“ میں ”وجھہ“ سے اللہ کی سلطنت  مراد ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ اعمال مراد ہیں‘ جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”انبائ“ سے مراد دلیلیں ہیں۔
(صحیح بخاری  ج 6 ص 112 کتاب التفسیر)
فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب   اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے تاویل  کی ہے۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
امام بخاریؒ نے سورۃ قصص کی تفسیر میں وجہ سے مراد اس کا ملک لیا ہے ، ہمارے (غیرمقلدین) کے نزدیک یہ تاویل صحیح نہیں ہے۔
 (ترجمہ کتاب التوحید ص 221  عبد الستار حماد)
تاویل غلط ہے یا صحیح یہ ایک الگ بحث ہے  یہاں یہ ثابت ہو گیا کہ امام بخاریؒ نے بھی  اپنے طور پر تاویل کی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ان سلف صالحین نے تاویل کی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے معتزلیہ کی طرح قطعی طور پر تاویل نہیں بلکہ درجہ طن میں تاویل کی ہے۔ معتزلیہ   خود سے کوئی تاویل کرتے ہیں اور اسی پر بس کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں جبکہ اہلسنت اللہ کی مراد کو اس کے سپرد کرکے درجہ ظن میں تاویل  عام لوگوں کے خیالات کو جسمیت کی جانب سے پھیرنے کیلئے یا اور کسی ضرورت کے تحت کرتے ہیں۔ اور وہی تاویل کرتے ہیں جو  اللہ کی شیان شان ہو۔
لہذا فرقہ سلفیہ کا یہ کہنا بھی جھوٹ ثابت ہوا کہ صحابہ و سلف صالحین نے کوئی تاویل کی ہی نہیں۔

دھوکہ نمبر 3
کہتے ہیں کہ تیسری صدی کے بعد والوں اور متاخرین اہلسنت وغیرہ نے پہلے والوں کی مخالفت کی
جبکہ یہ بات بلکل غلط اور جھوٹ ہے لعنت اللہ علی الکاذبین ان کا ایسے کہنے کا مقصد صرف ائمہ سے بدگمان کرنا ہے اور ان تیسری صدی سے پہلے والوں کا عقیدہ بجائے ان کے بعد والے کے ذریعہ سمجھنے کے   بعد والے اہلسنت کے اماموں کو چھوڑ کر خود سے اخذ کرنا ہے۔
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں
وَلَمْ يُرِيدُوا بِذَلِكَ مُخَالَفَةَ السَّلَفِ الصَّالِحِ، مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ ذَلِكَ
متاخرین کی یہ مراد نہیں تھی کہ وہ اسلاف کی مخالفت کریں معاذ اللہ ان کے متعلق ایسی بدگمانی کرنی جائز نہیں۔
مزید فرماتے ہیں
 وَإِنَّمَا دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ،
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج 3 ص 923)
ترجمہ:
انہوں نے ایسا اپنے زمانوں کی مجبوری و ضرورت کی وجہ سے کیا جو یہ تھی کہ ان کے زمانوں میں مجسمہ اور جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں نے سر اٹھایا اور یہ عوام کی عقلوں پر غالب  ہونے لگے تو تاویل کرنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ ان کے فتنوں کو دفع کریں اور ان کی  باتوں کا توڑ کریں۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج 3 ص 923)

دھوکہ نمبر 4
کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ کے بیچ حق و باطل کا اختلاف ہے
العیاذ باللہ تعالٰی
فرقہ سلفیہ کے ایک شیخ محمد العثمین  اہلسنت اشعریہ اور ماتریدیہ  کو اہلسنت سے خارج قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
نقول كيف يكون الجميع اهل سنة وهم مختلفون ؟ فماذا بعد الحق الا الضلال وكيف يكونون اهل سنة وكل واحد يرد علي الاخر؟ هذا لا يمكن الا اذا امكن الجمع بين الضدين
ترجمہ:
ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ، ماتریدی ، سلفی) اہلسنت میں سے کیسے ہو سکتے ہیں حالانکہ ان میں اختلافف ہیں اور حق کے سوا جو کچھ ہے وہ گمراہی ہے اور یہ تینوں اہلسنت کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ایسی دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
(شرح عقیدہ وسطیہ ص 22)
جبکہ اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،چند فروعی مسائل میں اختلاف ہے جوکہ مضرنہیں ہے یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ  ہونے سے نکل جائے ،لہذا الإمام الأشعري اورالإمام الماتريدي کے مابین بعض جزئی اجتہادی مسائل میں خلاف ہے ، اور علماء امت نے ان مسائل کوبھی جمع کیا ہے ،الإمام تاج الدين السبكي رحمه الله نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل ہیں ،
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے ہیں کہ:
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خلاف فيها ثلاث عشرة مسائل منها معنوي ست مسائل والباقي لفظي وتلك الست المعنوية لا تقتضي مخالفتهم لنا ولا مخالفتنا لهم تكفيراً ولا تبديعاً، صرّح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم
( طبقات الشافعية ج 3 ص 38)
میں نے احناف کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا تومیں نے صرف تیره مسائل کوپایا جن میں همارا اختلاف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف ہے اور باقی (سات ) مسائل میں محض لفظی اختلاف ہے ، اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف کا مطلب هرگزیہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے هم ایک دوسرے کی تکفیر اور تبدیع ( بدعت کا حکم ) کریں ، استاذ أبو منصور البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔
بالکل یہی بات علامہ ملا علی قاری رحمه الله نے بھی کی ہے
وقال العلامة على القارى فى المرقات 
وماوقع من الخلاف بين الماتريدية والأشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها لفظيات فلم تكن من الإعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال بعض المحققين ان الخُلف بيننا فى الكل لفظي اهـ۔

( ج 1 ص 306 )
اشعریہ وماتریدیہ کے مابین بعض مسائل میں اختلاف حقیقت میں فروعی اختلاف ہے ، اور یہ ظنی مسائل ہیں ان اعتقادی مسائل میں سے نہیں ہیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ، بلکہ بعض محققین نے تویہ کہا ہے کہ اشاعره اور ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خلافیہ میں محض لفظی اختلاف ہے ۔
لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اشعری ماتریدی ہے اور ماتریدی اشعری ہے ، کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جمع ونشرکیا ہے اور اصول عقائد ان کے پاس وہی ہیں جو صحابہ تابعین وتبع تابعین کے تھے ، بس ان دو اماموں نے تو ان عقائد کی تبلیغ وتشہیر ونصرت وحفاظت وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع تابعین عقائد تھے وهی اشاعره اور ماتریدیه کےعقائد ہیں ، اب وه لوگ کتنے خطرے میں ہیں جو احناف اور امام ابوحنیفہ سے ضد وتعصب کی بنا پر اشاعره اور ماتریدیه کے عقائد کوگمراه وغلط کہ دیتے ہیں۔
اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتمام کیا تواب اگر کوئی بے وقوف شخص امام بخاری کے ساتھ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری کا انکار کرے یا اس کو غلط کہے تو ایسا شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها ہے ، کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ، بعینہ یہی حال ہے الإمام الأشعري اورالإمام الماتريدي کا ہےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو لکھ کر آگے لوگوں تک پہنچا دیا ، اب کوئ جاهل کوڑمغز اشاعره اور ماتریدیه کے عقائد کوگمراه کہے تو اس کی
اس بکواس کا پہلا نشانہ کون بنتا ہے ؟؟

دھوکہ نمبر 5
کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ اللہ کو عرش پر نہیں مانتے
 العیاذ باللہ ہم نے کب ایسا کہا ؟
ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر ہے  جیسا اس کی شیان شان ہے، انکار تو ہم اس بات کا کرتے ہیں جو یہ لوگ کرامیہ و مشبہہ کی طرح کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر ٹھہرا ہوا ہے۔
سلفیوں کے شیخ صالح العثیمین(وفات 1421ھ) لکھتے ہیں۔
ما معنی الاستواء عندھم فمعنا العلو والااستقرار
شرح عقیدہ الوسطیہ ص 375)
)
ہمارے نزدیک استوایٰ کا معنی بلند اور استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
استوی کے یہ سب معنی ہیں
استقرار -ٹھہرنا
استیلا –غلبہ
برابر ہونا
جلوس -بیٹھنا
ان میں کچھ معنی ہیں جو کہ اللہ کی شان کے لائق ہیں جیسے استیلا لیکن یہ معنی جو اللہ کی شان کے لائق بھی ہے اس معنی کی اللہ کیلئے تخصیص کرنے والے کو بھی سلف نے  نہیں بخشا اور استوی کے اسی ایک معنی کی اللہ کیلئے تخصیص کرنے والے کو معتزلیہ قرار دیا ہے۔  اگر یہ معنی جو اللہ کی شان کے لائق بھی ہے اس کی تخصیص جائز نہیں تو پھر وہ معنی جن میں قوی احتمال موجود ہے کہ یہ اللہ کی شیان شان  ہو سکتے ہیں یا نہیں اور جو اللہ کی شان کے لائق نہیں ان کی کیسے تخصیص ہو سکتی ہے کہ بندہ ان معنی کو لے اور کہے بس اللہ کی یہی  مراد ہے؟

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات 310ھ) فرماتے ہیں:
كلام العرب في تأويل قول الله:"ثم استوى إلى السماء"
علا عليها علوّ مُلْك وسُلْطان، لا علوّ انتقال وزَوال
(تفسیر الطبري ج1 ص 430)
استواء کلامِ عرب میں بہت سی صورتوں میں استعمال ہوا ہے ان میں سے "الاحتیاز" اور "استیلاء" کے معنی میں بھی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تاویل کی "ثم استویٰ الیٰ السماء" چنانچہ فرمایا: الله تعالي كي علو بادشاهي اور غلبے والي علو هے اتنقال اور زوال والي علو نهيں۔

علو "اونچا هونا " دو معنوں ميں مستعمل هے ايك طاقت اور مرتبے والي اونچائي جيسا كه بادشاه عالي هے اپنے رعايا پر چاہے وه زمين پر بيٹها ہو اور رعايا پهاڑ پر ہو ،، دوسرا جهت والي علو جس ميں انتقال اور زوال كا معني موجودہے كيونكہ آپ اوپر كي جهت ميں تب جائيں گے جب آپ نيچے كي جهت سے منتقل ہوجائيں اور نيچے كي جهت سے زائل هوجائيں يهي معني غيرمقلدين ليتے ہيں اور اسي كي نفي امام ابن جرير ؒ نے كي ہے
مجتہد مطلق حضرت الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله (وفات 150ھ) فرماتے ہیں کہ
ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه  
  ”ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اور وہ عرش پر ٹھہرا ہوا نہیں“۔  
 (كتاب الوصية (ص ۸۷)، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف)
القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (وفات 403ھ)فرماتے ہیں کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان
 ( الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به ص/65)
ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا  ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب  جگہ و مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا  ہی ہے۔

دھوکہ نمبر 6
کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ اللہ کو ہر جگہ میں مانتے ہیں۔
جبکہ وہ ایسا نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں اللہ کسی بھی جگہ میں  ہونے سے پاک ہے اللہ موجود بلا جگہ و مکان ہے اور یہ کہنا کہ اللہ ہر جگہ ہے ہمارے نزدیک اللہ کی کسی ایک خاص جگہ میں تخصیص کرنے کی نفی میں ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں :  (اللہ تعالٰی کے) ہر جگہ ہونے کے اس عقیدہ ہی کی کوئی دلیل نہیں۔ جب وہ صرف جگہ میں ہونے سے پاک ہے کئی جگہوں میں اس کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
اگے لکھتے ہیں
اگر چہ اس محاورہ (اللہ ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قید کا نہ ہونا ہے۔
(تسھیل تربیت السالک ج 3 صفحہ 118)
یعنی  اللہ ہر جگہ ہے کہنے سے کسی جگہ میں اللہ کی قید کی نفی کرنا ہے۔ جیسے کوئی  کہے کہ اللہ یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے۔
مکان و جگہ کی تعریف
        مشهور لغوي عالم امام أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهاني اپنی کتاب
 (المفردات في غريب القرءان) میں فرماتے هیں کہ
(المكان عند أهل اللغة الموضع الحاوي للشيء)
یعنی مکان أهل اللغة کے نزدیک اس جگہ کوکہتے هیں جوکسی چیزکوحاوی ( گھیرا ہوا ) هو ۔

        العلامة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام)میں فرماتے هیں کہ
(المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم )
یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گھیرتا ہے ۔
        الشيخ يوسف بن سعيد الضفتي المالكي فرماتے هیں کہ
( قال أهل السنة: المكان هو الفراغ الذي يحل به الجسم)
یعنی مکان وه خالی جگہ ہے جس میں جسم سماتا ہے ۔
یہ چند اقوال  مكان کی تعریف سے متعلق تھے
اس تعریف کے مطابق قطعاً قطعاً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ ہر جگہ میں ہے ہر جگہ نے اسے سما رکھا ہے نعوذ باللہ
یہ ہم پر صریح  طور پر جھوٹ ہے ہماری کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا بلکہ اس کے خلاف ہی لکھا ہے۔ البتہ جہمیہ کا یہی عقیدہ ہے وہ زمین میں ہر چیز میں اللہ کی ذات کو حلول کے ساتھ مانتے ہیں اور عرش و آسمان کو خالی مانتے ہیں
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
(مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 7418  صحیح)
حماد بن زید نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے۔

 اور فرقہ کرامیہ و   ہشامیہ اور آج کے فرقہ سلفیہ جو کہ اللہ کی ذات کیلئے عرش کو مقرر کرتے ہیں۔
عبد القاهر بن طاهر البغدادي التميميؒ(المتوفى: 429ھ) فرماتے ہیں:
أواجمعوا على انه لَا يحويه مَكَان وَلَا يجرى عَلَيْهِ زمَان خلاف قَول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه.
) الفرق بين الفرق(ص/321)
”اس  پر اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی کو کسی جگہ و مکان نے گھیرا نہیں نہ اس پر زمان یعنی وقت کا گذر ہوتا ہے بخلاف اس فرقہ   ہشامیہ اور کرامیہ  کے اس قول کے کہ اللہ عرش پر ہی ہے“۔

ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ   جگہ میں ہونے سے پاک ہے۔
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 ھ)فرماتے ہیں:
" كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔
تبيين كذب المفتري فيما نسب إلى الإمام أبي الحسن الأشعريص/150) (
”الله تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان و جگہ کا محتاج نہیں ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ جگہ و مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔
القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (وفات 403ھ)فرماتے ہیں کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان.
) (الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65

”ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا  ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب جگہ و مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے جگہ و مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا  ہی ہے“
وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (وفات 476ھ)
في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
(أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101))

الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بھی نہیں ہے ، کیونکہ استقرار ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ، پس یہ دلالت ہے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب جگہ و مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے جگہ و مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
امام بدر الدین العینی الحنفیؒ  (وفات 855ھ) لکھتے ہیں
 أَن الله لَيْسَ بجسم فَلَا يحْتَاج إِلَى مَكَان يسْتَقرّ فِيهِ،
(عمدۃ القاری ج 2 ص 117)
اللہ جسم سے پاک ہے اللہ جگہ و مکان کا محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے کا۔

دھوکہ نمبر 7
کہتے ہیں کہ ”استویٰ علی العرش“ دلیل ہے اللہ کے عرش پر ہونے کی
جبکہ استوی علی العرش  ہونا تو عرش کی تخلیق کے بعد  ہے جبکہ اللہ عرش پر مستوی ہونے سے پہلے بھے وہاں تھا اور تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے بھی جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے
پھر استویٰ علی العرش کا تو یہ معنی نہ ہوا  کہ اللہ صرف عرش پر ہی ہے  یا  فرقہ سلفیہ و کرامیہ کا عقیدہ غلط ہے یا عقیدے کی دلیل غلط ہے۔
سلفیہ کے شیخ صالح العثیمین (وفات 1421ھ) لکھتے ہیں
 وهو الآن علي ما كان عليه وهو يريد ان ينكر استواء الله
اللہ جیسا تھا اب بھی ویسا ہے کہنا استواء کا انکار کرنا ہے۔
(شرح عقیدہ وسطیہ ص 208)
اب دیکھئے کتنے جلیل القدر علماء فقہاء اور محدثین ایسا کہہ رہے ہیں کیا یہ سب استواء کے منکر تھے؟
  (i)
الإمام الأعظم أبو حنیفة ؒ(150ھ)فرماتے ہیں کہ
أَيْن الله تَعَالَى فَقَالَ يُقَال لَهُ كَانَ الله تَعَالَى وَلَا مَكَان قبل ان يخلق الْخلق وَكَانَ الله تَعَالَى وَلم يكن أَيْن وَلَا خلق كل شَيْء . ( الفقه الأبسط و اکبر :باب الِاسْتِثْنَاء فِي الْإِيمَان (ص/161)،العالم والمتعالم (ص/57))

جب تم سے کوئی پوچھے  کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے تو اسے کہو کہ (اللہ وہیں ہے جہاں)  مخلوق کی تخلیق سے پہلے جب کوئی مکان نہیں تھا صرف اللہ  موجود تھا۔ اوروہی  اس وقت موجود تھا جب  مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی“۔

 (ii)
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 ھ)فرماتے ہیں:
" كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔.)تبيين كذب المفتري فيما نسب إلى الإمام أبي الحسن الأشعري(ص/150 ((

الله تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان کا محتاج نہیں ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔

 (iii)
القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعريؒ (403ھ)فرماتے ہیں کہ
ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان. )الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65((

ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا  ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبلامکان ) اب بھی ویسا  ہی ہے

 (iv)
أبو القاسم، ابن جزيؒ (المتوفى: 741ھ) فرماتے ہیں کہ
وَهُوَ الْآن على مَا عَلَيْهِ كَانَ.
)القوانين الفقهية ج۱ ص۵۷ الْبَاب الثَّانِي فِي صِفَات الله تَعَالَى عز شَأْنه وبهر سُلْطَانه(

اللہ کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے

 (v)
وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (وفات 476 ھ
في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ
(أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101))

الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بھی نہیں ہے ، کیونکہ استقرار ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ، پس یہ دلالت ہے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔

(vi)
 وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكرؒ (وفات 620 ھ)
[طبقات الشافعية ( 8/186 ) ] : " موجودٌ قبل الخَلْق ، ليس له قَبْلٌ ولا بَعْدٌ ، ولافوقٌ ولا تحتٌ ،

ترجمہ:
اللہ موجود ہے جیسا (تمام) مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا، نہیں اس سے پہلے کچھ نہیں اس کے بعد کچھ نہیں اس کے اوپر کچھ نہیں اس کے نیچے کچھ ۔

(vii)
 وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (وفات 505 ھ)
ما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
)إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108(

امام غزالیؒ فرماتے ہیں اللہ زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے تھا اور ویسا ہی ہے جیسا  وہ (مخلوق کی تخلیق) سے پہلے تھا۔

(viii)
 قال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (520 ھ)  "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل"
(المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2))

اللہ مکان میں نہیں  وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔

(ix)
وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء  (وفات 660ھ)
"ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
(طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219)
اللہ جسم والا نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
 (x)
 وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ)
في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصانع العالم لا يـحـويه قطر تعالـى الله عن تشبيه قد كان موجودا ولا مكانا وحكمه الان عـلى ما كانا سبحانه جل عن المكان وعز عن تغير الزمان" اهـ
)منظومته "حدائق الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32 (
اللہ موجود تھا بلا مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔

 (xi)
 وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه :
" إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ)إتحاف السادة المتقين (2/ 24(

امام شافعیؒ فرماتے ہیں
بے شک اللہ تعالیٰ موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا پس اللہ تعالیٰ نے مکان کو پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ اُسی صفت ازلیہ ( ازل سے جو اللہ کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے اللہ کے ذات میں تبدیلی کرنا اور نہ اللہ کے صفات میں تبدیلی کرنا۔

دھوکہ نمبر 8
بائن الخلقۃ اللہ مخلوقات سے جدا ہے
فرقہ سلفیہ یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھاتے ہیں  کہ اللہ اپنے مخلوق سے جدا ہے ایسے جیسے ایک شے دوسرے شے سے  جدا ہوتی ہے اللہ اور مخلوقات کے بیچ بہت بڑا  مسافت (فاصلہ) ہے۔
جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حق ہے کہ
 اللہ تعالٰی  کی ذات قدیم ہے جیسا اللہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔
پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے ساتھ متحد ہو جائے۔
مولانا ادریس کاندھلویؒ فرماتے ہیں:
حق تعالٰی کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرتا ہے۔
عقائد اسلام ص 59))
اللہ اپنی ذات کے ساتھ  متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نکل سکتا ہے ایک یہ کہ اللہ کی ذات کو جسم و جھت سے پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ اللہ کی ذات کیلئے  کوئی جگہ مقرر کر دی جائے (جیسا فرقہ سلفیہ کرتا ہے)اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے اللہ کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی اللہ کی ذات ختم قرار دی جائے گی  پھر اس عقیدے سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کے بعد جو بھی مخلوقات ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر اللہ  کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ مقرر کر دیتے ہیں  تو وہ فاصلہ بھی ٖغیر اللہ  یعنی کہ مخلوقات میں ہی شامل ہو گا۔ اسلئے اب کسی بھی طرح یہ
عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔
اللہ اور مخلوق کے بیچ کوئی مسافت نہیں بلکہ اللہ اور مخلوق کا واسطہ بلا کیف و بلا تشبیہ ہے 
کتاب الوصيہ ميں امام اعظم فرماتے ہيں
(نقله ملا علي القاريّ في شرح الفقه الأكبر ص 138)
"ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهةٍ حقٌّ" اهـ.
اللہ تعالي کي ملاقت اہل جنت سے بنا کسي کيفيت،تشبيہ اور جھت کے حق ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ مزید فرماتے ہیں
"والله تعالى يُرى في الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة"
االلہ تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہونگے، بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور اللہ اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہوگي
(شرح فقه الكبر ملا علي قاريؒ ص 136-137)

دھوکہ نمبر 9
فرقہ سلفیہ یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھاتے ہیں کہ اللہ کی ذات ختم ہوتی ہے اور پھر عرش اور دیگر مخلوقات شروع ہوتی ہیں  العیاذ باللہ
جبکہ یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
 (الحدید 3)
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن

رسول اللہ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں

"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے  تیرے نیچے کچھ نہیں۔
(صحیح مسلم)

دون کا مطلب ”علاوہ“  بھی ہوتا ہے اور ”دون“ کا مطلب ”نیچے بھی ہوتا ہے۔
المورد ص 557)
)
 ہم دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ ”دون“ نیچے کیلئے استعمال ہوا ہے۔
نبی کریم کی حدیث ہے
وَلَا الْخُفَّيْنِ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ تَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَمَا دُونَ الْكَعْبَيْنِ
اور اگر تمہارے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو“۔
(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)

امام بيهقي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
 (الأسماء والصفات للبيهقي ج۲ ص۲۸۷)
ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبی کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان  و جگہ سے پاک ہے۔

دھوکہ نمبر 10
کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ جو اللہ کو عرش پر نا مانے وہ کافر ہے۔
حالانکہ امام ابو حنیفہؒ کی طف منسوب یہ قول تحریف شدہ ہے۔
امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ سے اللہ کے مکان ثابت کرنے والے کي تکفير کا قول
قَالَ ابو حنيفَة من قَالَ لَا اعرف رَبِّي فِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض فقد كفر وَكَذَا من قَالَ إِنَّه على الْعَرْش وَلَا ادري الْعَرْش أَفِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض
 الفقه الأكبر ص: 135))
ابومطيع بلخي کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا، اسي طرح جو کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھي کافر ہے۔
 ملاحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ اللہ کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں، اللہ تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي، پھر اگر وہ شخص کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر کيا،، اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے،تو امام بياضي اور فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم اللہ دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي بات کي طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔
،اور ايسا کہنے والا اللہ کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر نفي کرتا ہے اور يہ بات اللہ کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے
اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ ملا علي قاري رحمہ اللہ حل الرموز ميں ملک العلماءشيخ عزالدين بن عبدالسلام الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ يہ قول اللہ جل جلالہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديتا ہے تو اس بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا
يعني اللہ سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر اللہ کے وجود کے ليےمکان لازم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے

لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے ملاوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف کرکے اس کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غلط اور امام صاحب کي اپني تصريحات کے خلاف ہےاور جس ملاوٹ اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں
اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے ساتھ مروي ہے اور اس کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالسلام کے ارشادات کے مطابق بلا غبار واضح نظر آتي ہے ليکن غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ الاسلام ابواسماعيل الھروي الانصار ي صاحب الفاروق کے نام سے جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکلام شامل ہيں جن ميں يہ جناب اشاعرہ کومسلم بلکہ اہل کتاب بھي نہيں سمجھتے اور ان کے ذبيحے حرام اور ان سے نکاح بھي حرام کہلاتے ہيں اور يہ فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمہ اللہ کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ چاہے اپني طرف سے بڑھاديئے حتي کہ ساري بات کا مفہوم ہي بگاڑديا اور کلام کا رخ اپني مطلب کي طرف پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا
قَالَ سَأَلت أَبَا حنيفَة عَمَّن يَقُول لَا أعرف رَبِّي فِي السَّمَاء أَوفِي الأَرْض
فَقَالَ قد كفر لِأَن الله تَعَالَى يَقُول {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} وعرشه فَوق سمواته
فَقلت إِنَّه يَقُول أَقُول على الْعَرْش اسْتَوَى وَلَكِن قَالَ لَا يدْرِي الْعَرْش فِي السَّمَاء أَو فِي الأَرْض
قَالَ إِذا أنكر أَنه فِي السَّمَاء فقد كفر
کيا،،، اس عبارت ميں انہوں نے لان اللہ يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [عني چونکہ اللہ تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا، اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الفاظ فاذا انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھاديں جس کي وجہ سے مفھوم بظاہر تجسيمي معني کي طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حالانکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب کا مسلک اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے، تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ تو الھروي نے اپني طرف سے بڑھاديے اور ان الفاظ کا کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں، اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسلام نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات اللہ کے ليے مکان و جگہ ثابت کررہا ہے اس ليے يہ کفر ہے
اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت بڑے پايے کے ہيں جبکہ ان کے اپنے ہي شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کلام الہي کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں کہ ان کے ہاں اللہ کا کلام نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباللہ اور ساتھ ميں جناب کي يہ عجيب منطق بھي نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے، مجموع الفتاوى (12/ 294)
وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي - الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ - وَغَيْرِهِ وَقَالُوا: لَيْسَ هَذَا هُوَ الْحُلُولُ الْمَحْذُورُ الَّذِي نَفَيْنَاهُ. بَلْ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّحِيفَةِ وَلَا يُقَالُ بِأَنَّ اللَّهَ فِي الصَّحِيفَةِ أَوْ فِي صَدْرِ الْإِنْسَانِ كَذَلِكَ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَهُ حَالٌّ فِي ذَلِكَ دُونَ حُلُولِ ذَاتِهِ،
 ابن تيميہ کہتے ہيں کہ ايک گروہ نے يہ بات بھي کہي ہے کہ اللہ کا کلام مصحف ميں حلول ہوگيا ہے جيسا کہ ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ، يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہ وہ حلول نہيں ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہتے ہيں کہ اللہ کا کلام اللہ صحيفہ ميں ہے اور يہ نہيں کہا جائے گا کہ اللہ صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کلام اس ميں [يعني مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن اللہ کي ذات حلول نہيں ہوئي
سبحان اللہ اگر يہي کلام کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتا؟ تو خلاصہ کلام يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام صاحب کي اس بات کي روايت کو اگر ابواسماعيل الھروي کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کلام کا مفھوم مکان کي نفي ميں واضح ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں

اور اسي کلام کو  ابن قيم  ان الفاظ کي زيادتي سے نقل کيا ہے،لانہ انکر ان يکون في السماء لانہ تعالي في اعلي عليين، يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا، کيونکہ اللہ اعلي عليين ميں ہے حالانکہ قران وسنت ميں کہيں بھي اللہ کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تصرفات جناب ابواسماعيل الھروي کي تحریف کرد ہ ہيں اور ان سے امام ذہبي رحمہ اللہ نے العلو ميں اور امام ابن قيم  نے اجتماع الجيوش الاسلاميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کر لیا۔
دھوکہ نمبر 11
کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رات کے وقت اللہ تعالٰی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ اللہ عرش پر ہی  ہے تب ہی تو آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں۔
 اگر یہی بات ہے جو کہ یہ فرقہ سلفیہ کہتا ہے تو سوال یہ ہے کہ دنیا کے گول ہونے کی وجہ سے 24 گھنٹوں میں ہر وقت کسی نا کسی علاقے میں رات ہوتی ہے تو اللہ کی ذات کا 24 گھنٹوں میں ہر وقت مسلسل آسمان دنیا پر موجود ہونا ثابت ہوتا ہے لہذا اگر 24 گھنٹوں میں ہر وقت اللہ کی ذات کا مسلسل آسمان دنیا پر موجود ہونا تسلیم کیا جائے تو ان کے دعوے کے مطابق اللہ کی ذات کے عرش پر موجود ہونے کی نفی ثابت ہوتی ہے اور ان کے دعوے کے مطابق قرآنی آیات کا انکار لازم ہو جاتا ہے اگر یہ کہتے ہیں کہ ان کے دعوے کے مطابق استویٰ علی العرش کی قرآنی آیات کا انکار لازم نہیں ہوتا  تو مندرجہ ذیل باتوں کا جواب قرآن یا کسی صحیح حدیث سے دیں۔
کیا اللہ کی ذات ہر وقت صرف اور صرف آسمان دنیا پر موجود  رہتی ہے؟
کیا اللہ کی ذات ہر وقت صرف اور صرف عرش پر موجود رہتی ہے؟
کیا اللہ کی ذات ہر وقت اور بیک وقت عرش اور آسمان دنیا پر موجود رہتی ہے؟
نوٹ : فرقہ سلفیہ کا اس میں سے کوئی ایک عقیدہ اپنانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کہاں ہےتب ہی بندہ مومن ہوتا ہے لیکن اب تک یہ لوگ  ان تینوں عقائد میں سے کسی ایک عقیدے پر متفق نہیں ہوئے کیا یہ مومن ہیں؟
فرقہ سلفیہ کے عقیدہ سے یہ سب چیزیں لازم آتی ہیں کیونکہ یہ استویٰ کا ظاہری معنی لیتے ہیں اور نزول کا بھی استوی کا سا معاملہ کرنے کا دعوی کرتے ہیں اب ان میں سے کون سا عقیدہ رکھنا ہے یہ فرقہ سلفیہ نے بتانا ہے جبکہ اہلسنت کا مذہب ہے کہ استویٰ اور نزول دونوں کی مراد کو اللہ کے ہی سپرد کرنا ہے۔
امام ابن جزیؒ (وفات 741ھ) فرماتے ہیں:
 اعلم أنه ورد في القرآن والحديث ألفاظ يُوهِمُ ظاهِرُها التشبيه، كقوله تعالى: (الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى) [طه: ٥] وحديث النزول، وغير ذلك، فيجب على العبد أن يؤمِنَ بها من غير تشبيه ولا تعطيلٍ ولا تأويل، ويَكِلَ عِلمها إلى الله تعالى، ويقول: آمنت بما قال الله تعالى وبما قال رسوله صلى الله عليه وسلم بالمعنى الذي أراده الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، والله ورسوله أعلم.
وهذا طريقة التسليم التي تقود إلى السلامة، وهي التي أثنى الله على من اتصف بها بقوله تعالى: ( وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا )[آل عمران: ٧] وعلى هذا كان الصحابة والتابعون وأئمة المسلمين
”قرآن اور حدیث میں استویٰ اور نزول ظاہری طور پر تشبیہ کی طرف  لے جاتے ہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں بغیر  تعطیل و تاویل کے اور  اللہ کی مراد کو اس پر اس کے رسول پر چھوڑ دیں یہی سلامتی کا طریقہ ہے اسی پر صحابہ و تابعین اور ائمہ مسلمین تھے“۔
(النور المبين ص 60)


دھوکہ نمبر 12
کہتے ہیں کہ عرش کے اوپر اوپر کوئی جگہ ، مکان یا جھت نہیں اور اللہ وہاں ہے تو جھت و مکان و جگہ سے پاک ہے۔
اس بات کا بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اول تو  اللہ کی ذات کا کہیں انکار کرنے سے اور اس کے لئے کوئی جگہ مقرر کرنے سے ہی اللہ کیلئے جسم ، جھت مکان و جگہ کا اثبات ہو جاتا ہے۔
پھر  حدیث کے مطابق اللہ تعالٰی رات کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں  اور یہ فرقہ  نزل الی سماء کا معملہ بھی استویٰ علی العرش کی طرح رکھنے کے داعی ہیں اور استویٰ علی العرش کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ وہیں ٹھہرا ہوا ہے اب جب  ان کے عقیدے کے مطابق  اللہ عرش سے نیچے آسمان دنیا پر آتا ہے تو پھر تو اس وقت اللہ  مکان ، جھت اور  حدود میں آجائے گا یا نہیں؟

دھوکہ نمبر 13
فرقہ سلفیہ لامذہبیہ ایک عقلی ڈھکوسلہ ضرور دیتے ہیں کہ
اگر اللہ ہر جگہ ہے تو پھر کیا اللہ گندی جگہوں پر بھی ہے بیت الخلا میں بھی ہے؟
حالانکہ یہ اعتراض تب  بنے جب کوئی اللہ کی ذات  کیلئے حلول (مکس) یا اتحاد (جڑ) کا قائل ہو جیسا کہ جہمیہ ہیں جو کہ حلول اور اتحاد کے قائل ہیں انہیں تو ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں مگر جو اس کا قائل نہیں  اس پر یہ اعتراض نہیں پڑتا اب ہم تو یہ کہتے نہیں کہ اللہ مخلوق میں مکس ہو گیا ہے یا اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔کیونکہ اللہ اس سے پاک ہے اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔
 لیکن یہ فرقہ چونکہ اللہ کی ذات  کو ایسا ہی حقیر سمجھتا ہے کہ اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد ہو جائے گا اس لئے یہ اعتراض پھر ہم پر  کرتے ہیں لیکن یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ انہی پر جاتا ہے نزول الی السماء کے وقت اللہ کی ذات کا سب سے نچلے آسمان پر مانتے ہیں ساتھ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی ذات مخلوق کے پاس ہو تو حلول اور اتحاد کے سوا کوئی راستہ نہیں اسلئے یہ فرقہ یہاں حلولی جہمی ہوجاتا ہے۔
یاد رہے  دنیا کی چاہے  گندی اور بری سے بری جگہ ہی کیوں نہ ہو وہ جہنم  کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اور جہنم کے متعلق خود نبیﷺ فرماتے ہیں وہاں اللہ تعالٰی قیامت کے روز اپنا قدم اس میں رکھیں گے۔
حدثنا أنس بن مالک أن نبي الله (صلی اللہ علیہ وسلم) قال لا تزال جهنم تقول هل من مزيد حتی يضع فيها رب العزة تبارک وتعالی قدمه فتقول قط قط وعزتک ويزوی بعضها إلی بعض

حضرت انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی نے فرمایا دوزخ لگاتار یہی کہتی رہے گی ھل من مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھر دوزخ کہے گی تیری عزت کی قسم بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2676 )
لامذہبیہ اللہ کی ان صفات کو اللہ کی شان کے لائق نہیں چھوڑتے بلکہ وہ انہیں اس کی ذات کے جز  اعضا تصور کرتے ہیں۔
 اور ان لامذہبیہ کے نزدیک اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد لازم آئے گا۔
اب ان کے اس عقیدے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ یہ اس وقت جہنم میں اللہ کی ذات کو حلول  کے ساتھ مانیں یا اتحاد کے ساتھ اب یہ بتائیں کہ جہنم میں یہ کس کے ساتھ مانیں گے حلول کے ساتھ یا اتحاد کے ساتھ؟
ہمارا ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ یہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا علم ہر جگہ ہے اب ہم ان سے پوچھتے ہیں اگر اللہ کی صفت علم ہر جگہ ہے تو کیا اللہ کی یہ صفت بیت الخلا میں بھی ہے؟
کلام اللہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے جو کہ حافظ کے دل میں محفوظ ہوتی ہے کیا  جب حافظ بیت الخلا جاتا ہے تو کیا وہ اللہ کی صفت کو ساتھ لے کر جاتا ہے؟
بنی آدم کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
«مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ»
ہر دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے چاہیں تو اسے سیدھا فرما دیں اور چاہیں تو ٹیڑھا کر دیں
(سنن ابن ماجہ ج 1 حدیث نمبر 199)
ایک اور حدیث ہے
«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ»
تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔
(صحیح مسلم ج 4 حدیث نمبر 2249)
سلفیوں کے ایک مولوی خلیل ہراس نے لکھا ہے کہ اللہ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کا جز ہیں۔
 خليل هراس كتاب التوحيد لابن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں
ص63 :
 القبض إنما يكون باليد حقيقة لا بالنعمة . 
فإن قالوا : إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته الإنعام .
قلنا لهم : وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فلا مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم .. )) اهـ !
خليل هراس الله كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے :
”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ، اگر كوئي  کہے کہ باء سبب كے  لیئے ، يعني الله نے نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں : كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خلاصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو الله سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ، يهاں الله كے پكڑنے كو بهي كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس ان
كے هاں الله كي صفت يد الله تعالي كے ليے پكڑنے كا آله هے اور الله كا پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذبالله ،، الله الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اسي التوحيد كے تعليقات ميں :
ويقول 89 :
(( ومن أثبت الأصابع لله فكيف ينفي عنه اليد والأصابع جزء من اليد ؟؟!! )) اهـ
ترجمه : اور جس نے الله كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح الله سے هاته كي نفي كرتا هے حالانكه انگلياں هاته هي كا جزء هے (نعوذبالله)
يهاں الله تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ، كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه الله كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔ 

اب یمارا  ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ کیا  آدمی جب بیت الخلا جاتا ہے تو کیا اللہ کی انگلیوں کو باہر چھوڑ کر جاتا ہے؟ دوسرا یہ کہ اللہ کی ذات کو  آپ  لوگ صرف عرش کے اوپر ٹھہراتے ہیں اب اللہ کی ذات اوپر اور اس کا ہاتھ اور انگلیں نیچے ؟
یہ اعتراض خود فرقہ اہل حدیث پر جاتا ہے۔
1
فرقہ اہل حدیث کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی
لکھتے ہیں
 ”ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لاشریک لہ باری تعالٰی کے واسطے ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 6)

2
فرقہ اہلحدیث کے شیخ السلام ثناء اللہ امرتسری  الجہمی
لکھتے ہیں
 ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے“۔
(تفسیر ثنائی ص 347 )

3
محقق اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی
 لکھتے ہیں
وكما نقول هذا الاستواء والكون في تلك الجهة فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ ولا نتكلف بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوك‍ن العلم و عليتهفان هزا شعبة من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف و تبائن ماكان عليهه الصحابة و تابعوهم رضوان اللہ عليهم اجمعين
ترجمہ
”جیسا ہم استواء اور جہت فوق کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں ویسا ہی ان اقوال خدا وندی هو معكم وغيرہ ”وہ تمہارے ساتھ“ ہے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ ہم اس کی تاویل علم کے ساتھ یا نصرت کے ساتھ کرنے میں تکلف نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے غیر  کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ ساتھ ہونے سے اس کا علم مراد ہے کیونکہ یہ بھی تاویل کی ایک شاخ ہے جو مذہب صحابہ ؓ و تابعین وغیرہ سلف کے خلاف ہے “
(التحف ص 16  بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 202)

ان کے بارے میں کیا خیال ہے آج کے لامذہبوں کا ؟

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی چاہے اچھے سے اچھی  یا  بری سے بری تمام مخلوقات کا خالق ہے لیکن  یہ گواہی دینے کے بعد اس کی شان گھٹانے کی غرض سے اس کی ہر ہر مخلوق کے متعلق یہ پوچھے  کہ کیا اس کا بھی اللہ خالق ہے اس کا بھی اللہ خالق ہے درست نہیں۔
یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ”اللہ اکبر“ اللہ سب سے بڑا ہے مگر یہ اقرار کرنے کے بعد  کوئی احمق کہے کہ کیا اللہ میرے ہاتھ سے بڑا ہے میری انگلیوں سے بڑا ہے کیا  فلاں چیز سے فلاں جانور سے بھی بڑا ہے قطعاً درست نہیں۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہہ دو کہ اللہ  سب سے بڑا ہے بس۔
بعض چیزوں کو اجمالاً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے،اگر تفصیلات بیان کریں تو خلافِ ادب ہے۔ مثلاً سسر اپنے داماد کو کہے: ’’میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘،تو اجمالاً قول ہونے کی وجہ سے یہ ادب ہے لیکن اگر وہ تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا خالق اللہ ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک عضو کا نام لے کر یہی بات کہی جائے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے‘‘یہ اجمالاً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درست اور ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک جگہ کا جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں، نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگا۔لہذا ایسا سوال کرنا ہی غلط، نامناسب اور ناجائز ہے۔
یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے قرآن کریم کو بیت الخلاء میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حالانکہ ہر حافظ جب بیت الخلاء جاتا ہے تو قرآن اس کے سینے میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ، کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم اللہ تعالیٰ کا جسم ہی ثابت نہیں کرتے تو بے ادبی لازم نہیں آتی ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخلاء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں، اگر ہے تو بیت الخلاء میں بابرکت کیسے ؟ تو اس کا یہ سوال لغو ہوگا کیونکہ جب رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں ۔اللہ کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔
نوٹ :
اللہ کو ہر جگہ کہنے سے ہماری مراد اللہ کیلئے کسی جگہ کا اثبات کرنا نہیں بلکہ کسی بھی جگہ کے مقرر کرنے کی نفی کرنی ہے۔
اللہ کی ذات کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو کہ تمام اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات موجود بلا مکان و جگہ ہے جیسا تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تھی اب بھی ویسے ہی ہے (ملاحظہ ہو اشعریہ ماتریدیہ کا منہج اور فرقہ سلفیہ سے ان کا اختلاف اختلاف نمبر 2) اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔

دھوکہ نمبر 14
فرقہ لامذہبیہ    کو جب مشہور علماء کے حوالہ پیش کیئےجا تے ہیں  تو پھر  یہ لوگ اس عالم کی کسی دوسری مبہم عبارت کو اٹھا کر اپنے جاہلوں میں یہ بات مشہور کر دیتے ہیں کہ اس نے رجوع کر لیا تھا۔ اس پر بندہ  صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ لعنت اللہ  علی الکاذبین

البتہ ان کی رجوع والے جھوٹ سے کم از کم یہ بات تو معلوم ہو ہی جاتی ہے کہ یہ لوگ  اس عالم کو گمراہ ہی تصور کرتے ہیں۔

(جاری)