فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کے گھٹیا ترین عقائد و نظریات
ہر لامذہب یہ دعوی کرتا ہے کہ ہم اللہ کی ذات کے متعلق وہی کچھ کہتے ہیں جو
کتاب و سنت میں ہے حالانکہ ان کے عقائد دیکھنے کے بعد ان کے اس دعوی کی دھجیاں اڑ
جاتی ہیں اور یہ اپنے اس دعوی میں پوری طرح سے نا کام ثابت ہوتے ہیں ان کے عقائد
دلائل شرعیہ کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ، اجماع امت (سلف و خلف) کہیں
سے بھی ثابت نہیں۔
عقیدہ نمبر
1
اللہ کی
ذات کے حصے بھی ہیں نعوذ باللہ اور اللہ کی ذات
کے نچلے حصے میں حد بھی ہے۔
بات كرنے سے قبل ياد رہے كہ
امام احمد ؒ سے حد كے بارے ميں دو قول آئے ہيں ايك اثبات كا ايك نفي ، اب ہونا تو
يہ چاہيئے تها كہ حد كي نفي جو كہ اہل سنت كا عقيده ہے اور سلف كے بارے ميں منقول ہے
کہ
، كہ وه حد ثابت نہيں كرتے تهے
امام بيهقيؒ
فرماتے ہيں
الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 334)
أَ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَشَرِيكٌ وَأَبُو [ص:335] عَوَانَةَ لَا يُحِدُّونَ
” امام سفيان ثوري ا مام شعبه امام حماد بن زيد ، حماد بن سلمه امام شريك اور امام ابوعوانه رحمهم الله الله تعالٰی كي حد ثابت نہيں كرتے تهے “
امام
بیہقیؒ اگے فرماتے ہیں:
وَعَلَى
هَذَا مَضَى أَكَابِرُنَا
”اسی پر
ہمارے اکابر بھی گزرے ہیں“ ۔
تو امام احمد كو حد كے اثبات
كے قول سے بری كہنا چاہئے تها اس ليے كہ اثبات حد پر قران و سنت ميں كوئي دليل نہيں
جيسا كہ خود انکے شيخ الباني نے كہا ہے ،
وليس فيه مايشهد لذالك من
الكتاب والسنة (فہرس مخطوطات دار الکتب الظاہریه ص 376)
ليكن ابن تيميه اور قاضي
ابويعلي ان كو عجيب و غريب احوال پر حمل كرت ہيں جنكا خلاصہ ہم ذيل ميں لکھتے ہيں۔
قاضي ابويعلي جس سے ابن تيميه نے جگہ جگہ اخذ كيا ہے اور اس كے عقائد پر علامه ابن الجوزي ؒ نے دفع شبه التشبيه ميں بہت مضبوط سخت رد كيا انہوں نے امام احمد سے حد كے اثبات اور انكار كے دونوں روايتوں كو اس طرح جمع كيا ہے
قاضي ابويعلي جس سے ابن تيميه نے جگہ جگہ اخذ كيا ہے اور اس كے عقائد پر علامه ابن الجوزي ؒ نے دفع شبه التشبيه ميں بہت مضبوط سخت رد كيا انہوں نے امام احمد سے حد كے اثبات اور انكار كے دونوں روايتوں كو اس طرح جمع كيا ہے
قال إنه على
العرش بحد معناه أن ما حاذى العرش من ذاته هو حد له وجهة له والموضع الذي
جہاں انہوں
نے حد كا اثبات كيا ہے وہاں اس مراد الله كي ذات كا وه حصہ ہے جو كہ عرش كے مقابل
يعني سامنے ہے وہی اس کی حد اور جہت ہے۔
قال هو على العرش بغير حد
معناه ما عدا الجهة المحاذية للعرش وهي الفوق والخلف والأمام واليمنة واليسرة وكان
الفرق بين جهة التحت المحاذية للعرش وبين غيرها ما ذكرنا أن جهة التحت تحاذي العرش
بما قد ثبت من الدليل والعرش محدود
اور جہاں امام احمد نے كها كہ
وه عرش پر بغير حد كے ہے وہاں مراد الله كي ذات كا وه سائيڈ ہے جو عرش كے مقابل نہيں
ہے ، جو كہ اوپر ، آگے ، پيچهے ،دائيں اور بائيں كي سائيڈ كي ہے ،(یعنی يہ تمام سائيڈ الله كے غيرمحدود ہيں)
استغفرالله ايسے خرافات پر نہ
مام ابن تيميه كو كوئي غصه آتا ہے نہ غيرمقلدين ، الله كے ذات كے حصے بناليے ايك وه
جو عرش كي طرف عرش كے بالمقابل ہے باقي اوپر كا حصه ، پيچهے كا حصه ، دائيں ،
بائيں ۔۔۔ الله كي ذات كو حصوں ميں تقسيم كرليا جبكہ حصے تركيب كي واضح علامت اور
جسم كي تعريف اور خصوصيات ميں شامل هيں اس سے زياده تجسیم کي وضاحت اور كيا هوگي ۔
امام
ابن تيميه اس پر يہ تبصره اور ابو یعلی سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہيں كه امام
احمد كے كلام كي تفسير ميں الله كو صرف ايك جهت سے محدود ماننا ماسوائے ديگر پانچ
جهتوں كے ، يه تفسير قاضي كي دوسري جگه بيان كي گئي تفسير كے خلاف هے
(كيا
امام احمد ايسے خرافات پر اپنے كلام كو حمل كرنا صحيح سمجهتے هونگے )
ليكن آگے امام ابن تيميه نے جو خود امام احمد كے كلام كي تفسير جو ان كے ہاں مختار هے وه نقل كي هے ، وه بهي قابل ديد ہے ،ابن تيميه كہتے ہيں كہ
قول أحمد حد لايعلمه إلا هو والثاني أنه صفة يَبِين بها عن غيره ويتميز فهو تعالى فرد واحد ممتنع عن الاشتراك له في أخص صفاته قال وقد منعنا من إطلاق القول بالحد في غير موضع من كتابنا ويجب أن يجوز على الوجه الذي ذكرناه فهذا القول الوسط من أقوال القاضي الثلاثة هو المطابق لكلام أحمد وغيره من الأئمة وقد قال إنه تعالى في جهة مخصوصة وليس هو ذاهبًا في الجهات بل هو خارج العالم متميز عن خلقه منفصل عنهم غير داخل في كل الجهات وهذا معنى قول أحمد حد لايعلمه إلا هو ولو كان مراد أحمد رحمه الله الحد من جهة العرش فقط لكان ذلك معلومًا لعباده فإنهم قد عرفوا أن حده من هذه الجهة هو العرش فعلم أن الحد الذي لا يعلمونه مطلق لا يختص بجهة العرش
ليكن آگے امام ابن تيميه نے جو خود امام احمد كے كلام كي تفسير جو ان كے ہاں مختار هے وه نقل كي هے ، وه بهي قابل ديد ہے ،ابن تيميه كہتے ہيں كہ
قول أحمد حد لايعلمه إلا هو والثاني أنه صفة يَبِين بها عن غيره ويتميز فهو تعالى فرد واحد ممتنع عن الاشتراك له في أخص صفاته قال وقد منعنا من إطلاق القول بالحد في غير موضع من كتابنا ويجب أن يجوز على الوجه الذي ذكرناه فهذا القول الوسط من أقوال القاضي الثلاثة هو المطابق لكلام أحمد وغيره من الأئمة وقد قال إنه تعالى في جهة مخصوصة وليس هو ذاهبًا في الجهات بل هو خارج العالم متميز عن خلقه منفصل عنهم غير داخل في كل الجهات وهذا معنى قول أحمد حد لايعلمه إلا هو ولو كان مراد أحمد رحمه الله الحد من جهة العرش فقط لكان ذلك معلومًا لعباده فإنهم قد عرفوا أن حده من هذه الجهة هو العرش فعلم أن الحد الذي لا يعلمونه مطلق لا يختص بجهة العرش
بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية (3/ 24)
” امام احمد نے جہاں حد نفي كي ہے اس سے مراد يہ ہے كہ كوئي اس حد كے اندازے كا علم نہيں ركهتا كہ كتنا حد ہے ،كيونكه انهوں نے كہا ہے کہ لله كے ايسا حد هے جس كو صرف الله ہي جانتاہے، ، اگر اس كا مطلب يہ ہوتا ہه وه الله صرف عرش كي جهت ميں محدود ہے تو وه تو الله كے بندوں كو معلوم تها“۔
( كوئي بتائے كهاں كسي نص
ميں ہميں الله كے ليے حد بتائي گئي هے كه ہميں اس بات پر علم هو ، ام تقولون علي
الله مالاتعلمون)
آگے لكها كه بندوں كو پته ہے كہ الله كا حد اس جهت سے عرش ہي ہے
پس معلوم هوا كہ الله كا وه حد جو مخلوق كو معلوم نہيں وه مطلق هے صرف عرش كے ساتھ مختص نهيں“
پس معلوم هوا كہ الله كا وه حد جو مخلوق كو معلوم نہيں وه مطلق هے صرف عرش كے ساتھ مختص نهيں“
آخري جملے ميں غور كیجئے الله كے ليے حد اور وه بهي جہاں قاضي اس كو صرف عرش كي سائيڈ ميں ثابت كرتے ہيں ابن تيميه اس كو مطلقا ثابت كرتے ہيں نہ كہ صرف عرش كي سائيڈ ميں مخصوص ، سبحان الله عما يصفون ،
كيا يه سب قران و حديث سے ليا گيا ہے ،ايسي باتوں كو يقينا لامذہبی سلفی علم كلام ہي كهتےہهيں اور فرماتے ہيں كہ علم كلام صرف زنديق ہي استعمال كرتے ہيں۔
عقیدہ نمبر 2
فرقہ سلفیہ لامذہبیہ کے مطابق انگلیاں
اللہ کے ہاتھ کا ایک جز ہیں۔
فرقہ سلفیہ کے شیخ خليل هراس كتاب التوحيد
لابن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں
ص63 :
القبض إنما يكون باليد حقيقة لا بالنعمة .
فإن قالوا : إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته الإنعام .
قلنا لهم : وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فلا مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم .. )) اهـ !
خليل هراس الله كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے :
”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ، اگر كوئي کہے کہ باء سبب كے ليہےے ، يعني الله نے نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں : كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خلاصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“
ص63 :
القبض إنما يكون باليد حقيقة لا بالنعمة .
فإن قالوا : إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته الإنعام .
قلنا لهم : وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فلا مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم .. )) اهـ !
خليل هراس الله كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے :
”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ، اگر كوئي کہے کہ باء سبب كے ليہےے ، يعني الله نے نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں : كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خلاصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو الله سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے
كے بارےہے ، يهاں الله كے پكڑنے كو بهي كسي "آلے يا اوزار يا محتاج "
كها پس ان
كے هاں الله كي صفت يد الله تعالي كے ليے پكڑنے كا آله هے اور الله كا پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذبالله ،، الله الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اسي التوحيد كے تعليقات ميں :
ويقول 89 :
(( ومن أثبت الأصابع لله فكيف ينفي عنه اليد والأصابع جزء من اليد ؟؟!! )) اهـ
ترجمه : اور جس نے الله كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح الله سے هاته كي نفي كرتا هے حالانكه انگلياں هاته هي كا جزء هے (نعوذبالله)
يهاں الله تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ، كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه الله كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔
كے هاں الله كي صفت يد الله تعالي كے ليے پكڑنے كا آله هے اور الله كا پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذبالله ،، الله الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اسي التوحيد كے تعليقات ميں :
ويقول 89 :
(( ومن أثبت الأصابع لله فكيف ينفي عنه اليد والأصابع جزء من اليد ؟؟!! )) اهـ
ترجمه : اور جس نے الله كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح الله سے هاته كي نفي كرتا هے حالانكه انگلياں هاته هي كا جزء هے (نعوذبالله)
يهاں الله تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ، كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه الله كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔
عقیدہ نمبر
3
فرقہ
لامذہبہ سلفیہ کے نزدیک جو شخص اللہ کیلئے حد نہ مانے وہ کافر ہے۔
چناچنہ ابن تیمیہ نہ
صرف یہ کہ اللہ کیلئے حد کا اثبات کرتے ہیں بلکہ اسے ماننے پر اصرار بھی کرتےہ یں
اور جو نہ مانے اسے کافر قرار دیتے ہیں (نعوذ باللہ)
فهذا كله وما اشبهه
شواهد و دلائل علي الحد ومن لم يعترف به فقد كفر
(بيان تلبیس الجہمیہ
ج 3 ص 689)
قرآن پاک کی کس آیت
یا حدیث میں اللہ کیلئے حد کا ذکر آیا ہے
جسے نہ ماننے والا کافر ہے؟؟
عقیدہ نمبر
4
فرقہ
لامذہبیہ سلفیہ کے مطابق اللہ کے آسمان دنیا پر نزول کے وقت نیچے کی طرف منتقل
ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ
سلفیہ
کے شیخ خليل هراس امام ابن حزيمه كي
التوحيد ر اپني تعليق ميں اللہ کے نزول کے قول کے تحت حاشئے میں لكهتے ہيں:
)ص126( :
«يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا
يقتضي وجوده فوقها فإنه : انتقال من علو إلى سفل!».
ترجمه :
”يعنی الله كا آسمان دنيا پر نزول اس بات كا تقاضا كرتي ہے كہ
الله اس كے اوپر ہو كيونكہ نزول اوپر سے نيچے منتقل ہونے كو كهتے ہيں“۔
نعوذبالله
بالفرض اگر وہ ایسا
نہ بھی لکھتے تب بھی لامذہبی سلفیوں کے
اصول و ضوابط کے مطابق یہی بات
لازم آتی ہے۔
عقیدہ نمبر
5
نزول کے
وقت عرش خالی ہوتا ہے۔
سلفیوں کے شیخ ابن
العثیمین لکھتے ہیں:
واذا كان علماء اهل السنة
لهم في هذا ثلاثة قول يخلو، وقول بانه لا يخلو، وقول بالتوقف
(شرح عقیدہ الاوسطیہ
للعثیمین ص 261)
علماء اہل سنت
کے (نزول) کے بارے میں تین قول ہیں
1 : نزول کے وقت عرش
خالی ہو جاتا ہے۔
2: نزول کے وقت عرش
خالی نہیں ہوتا۔
3: اس پر توقف کیا
جائے۔
ابن عثیمین نے اہلسنت
پر یہ بہتان عظیم باندھا ہے کہ اہلسنت کے نزول کے متعلق تین قول ہیں البتہ ان کے فرقے
کے اس متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے تین مختلف اقوال ہیں جن سے جان چھڑانے
کیلئے ابن عثیمین نے ان اقوال کو اہلسنت کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
اب بتایئے ان میں سے
کس کا عقیدہ صحیح ہے؟؟
پہلے قول کے مطابق
نزول کے وقت اللہ کا عرش خالی ہو جاتا ہے اور بقول ابن عثیمین یہ اہلسنت کا قول ہے
کہ عرش خالی ہوتا ہے۔ دوسرے قول کے مطابق اللہ کا عرش خالی نہیں ہوتا یہ بھی اہلسنت کا قول ہے اور تیسرا یہ کہ اس پر توقف
کیا جائے یہ بھی اہلسنت کا قول ہے۔
اب جو نزول کے وقت اللہ کے عرش کو خالی مانے وہ بھی
اہلسنت جو عرش کو خالی نہ مانے وہ بھی
اہلسنت اور جو یہ کہے کہ اسے معلوم نہیں کہ کیا ہوتا ہے تو وہ بھی اہلسنت۔ نعوذ
باللہ من ذالک یہ عقائد ابن عثیمین نے کہاں سے لئے ہیں اسلاف میں سے کس نے کہا ہے
کہ نزول کے متعلق تین قول ہین اور تینوں اہلسنت کے ہیں اور حق ہیں؟؟
عقیدہ نمبر
6
فرقہ سلفیہ
جہمیہ کی طرح فناء النار کا قائل ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے
کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور
ہے۔
ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال
بفناء الجنۃ والنار"کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس
دلیلیں بیان کی ہیں۔
(مقدمہ رفع الاستار ص9)
جتنے بھی ابن تیمیہ کے پیروا ہیں سب جہمیہ کی طرف فنا النار کے قائل ہیں۔
عقیدہ نمبر
7
تفویض
(یعنی اللہ کی مراد کو اس کے سپرد کرنا)
لامذہبیہ سلفیہ کے نزدیک بلکل غلط
ہے .
امام جلال الدین
سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ
السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا
وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا
نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
”جمہور اہل سنت جن
میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے
ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی
تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔
(الإتقان في علوم
القرآن ج 3 ص 14)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک لامذہبی سلفی لکھتا ہے:
وثانياً قوله : مع
تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ
ثكالي الجهمية
ترجمہ:
”امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان
کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو پاک قرار
دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو
بچوں سے محروم ہو گئی ہوں“۔
(والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية
للقعيدة السلفية قوله 28)
عقیدہ نمبر
8
اللہ کی
ذات کیلئے نعوذ باللہ جسم کا اطلاق
ابن قیم نے اگر مگر کرتے ہوئے اللہ کیلئے جسم کا بھی اثبات
کر لیا ہے۔
وإن
أردتم بالجسم ما يوصف بالصفات ويرى بالأبصار ويتكلم ويكلم ويسمع ويبصر ويرضى ويغضب
فهذه المعاني ثابتة للرب تعالى وهو موصوف بها فلا ننفيها عنه بتسميتكم للموصوف بها
جسما
فرماتے ہیں
ترجمہ: اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا جائے اور اس سے کلام کیا جائے اور وہ خود کلام کرے تو یہ سارے معانی اللہ کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جسم کے اطلاق کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔
فرماتے ہیں
ترجمہ: اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا جائے اور اس سے کلام کیا جائے اور وہ خود کلام کرے تو یہ سارے معانی اللہ کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جسم کے اطلاق کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔
(الصواعق المرسلة ج3 ص
940)
ایک
اور جگہ لکھتے ہیں:
وإن أردتم بالجسم ما له وجه ويدان وسمع وبصر فنحن نؤمن بوجه ربنا الأعلى وبيديه وبسمعه وبصره
ترجمہ:
اور تمہاری مراد جسم سے یہ ہو کہ جس کے لئے چہرہ ہو اور دو ہاتھ ہوں اور سمع ہو اور بصر ہو تو ہم اللہ کے چہرے، دونوں ہاتھوں ، سمع بصر پر ایمان لاتے ہیں۔
(الصواعق المرسلة ج3 ص 943)
وإن أردتم بالجسم ما له وجه ويدان وسمع وبصر فنحن نؤمن بوجه ربنا الأعلى وبيديه وبسمعه وبصره
ترجمہ:
اور تمہاری مراد جسم سے یہ ہو کہ جس کے لئے چہرہ ہو اور دو ہاتھ ہوں اور سمع ہو اور بصر ہو تو ہم اللہ کے چہرے، دونوں ہاتھوں ، سمع بصر پر ایمان لاتے ہیں۔
(الصواعق المرسلة ج3 ص 943)
عقیدہ نمبر
9
فرقہ سلفیہ کے نزدیک اللہ کی صفت ید متاشابہات میں سے
نہیں۔
ایک وکٹورین اہل
حدیث عالم زبیر علی زئی جو کہ ساری عمر اپنے آپ کو سلفی کہتا رھا ایک جگہ لکھتا ہے۔
” اللہ کی صفت ”ید“
کو متاشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے“۔
(اصول المصابیح تحقیق زبیر علی زئی ص 38)
عقیدہ نمبر
10
فرقہ
لامذہبیہ سلفیہ کے نزدیک اللہ لامکان سے مکان کی طرف منتقل ہوا
ابن
قیم استواء كے بارے ميں لكهتے هيں كه
اجتماع الجيوش الإسلامية (2/ 161)
(فَإِنْ قَالَ) : فَهَلْ يَجُوزُ عِنْدَكَ أَنْ يَنْتَقِلَ مَنْ لَا مَكَانَ فِي الْأَزَلِ إِلَى مَكَانٍ. قِيلَ لَهُ: أَمَّا الِانْتِقَالُ وَتَغَيُّرُ الْحَالِ فَلَا سَبِيلَ إِلَى إِطْلَاقِ ذَلِكَ عَلَيْهِ لِأَنَّ كَوْنَهُ فِي الْأَزَلِ لَا يُوجِبُ مَكَانًا وَكَذَلِكَ نَقْلَتُهُ لَا تُوجِبُ مَكَانًا وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ كَالْخَلْقِ لِأَنَّ كَوْنَ مَا كَوْنُهُ يُوجِبُ " مَكَانًا " مِنَ الْخَلْقِ وَنَقْلَتُهُ تُوجِبُ مَكَانًا وَيَصِيرُ مُنْتَقِلًا مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ وَاللَّهُ تَعَالَى لَيْسَ كَذَلِكَ. . . وَلَكِنَّا نَقُولُ: اسْتَوَى مِنْ لَا مَكَانَ إِلَى مَكَانٍ وَلَا نَقُولُ: انْتَقَلَ وَإِنْ كَانَ الْمَعْنَى فِي ذَلِكَ وَاحِدًا.
ترجمه : اگر كوئي كهے كه كيا آپ كے هاں جائز هے كه كوئي ذات جو ازل ميں لامكان هو [ كسي مكان ميں قرار پائے هوئے نهيں هو ] وه كسي مكان كي طرف منتقل هوجائے ،، تو اسے كها جائے گا هرچه انتقال و تغير [تبديلي ] هے تو اس كا اطلاق الله جل جلاله پر هونے كا كوئي راسته نهيں هے [يعني جائز نهيں هے ] ، كيونكه ازل ميں اس كا موجود هونا [اس كے ليے ] كوئي مكان ثابت نهيں كرتا ، اور اسي طرح اس كا منتقل هونا بهي كوئي مكان ثابت نهيں كرتا ، اور وه اس بات ميں مخلوق كي طرح نهيں هے كيونكه ايسي موجوگي جس سے مكان لازم آتا هے وه مخلوق كي طرف سے هے [يعني ايسي موجودگي مخلوق كے ليے هے ] اور ان كا انتقال بهي مكان ثابت كرتا هے اور وه [ مخلوق اپني انتقال ميں ] ايك مكان سے دوسرے مكان كي طرف منتقل هوجاتي هے ،،، اور الله اس طرح نهيں هے ،،، ليكن هم كهتے هيں كه الله لامكان سے مكان كي طرف مستوي هوا اور يه نهيں كهتے "منتقل " هوا اگر چه دونوں كا مطلب ايك هي هو
اس عبارت ميں كئي باتيں قابل غور هيں :
:::أٓل وكٹوريه مجسمه هميں فلسفے يا فلسفيانه باتوں كا طعنه ديتي رهتي هے اور كهبي كهبي ان سے جب آپ بات كريں تو جسم كے خصوصيت جيسا كه مكان ميں استقرار ۔ طول عرض وعمق اور حد وغيره كي بات آپ ان پر لازم كرليں تو ان كي طبيعت بهت بهاري هوجاتي هے كه يه سب آپ لوگوں كا فلسفه هے اور هم ايسي باتيں نهيں كرتے اور كهبي كهتے هيں يه علم كلام والوں كي باتيں هيں اور يه ايك لعنت بهرا علم هے يهاں ان كے امام وهي فلسفيانه گفتگو فرمارهے هيں ،، اور وهي علم الكلام چهيڑ رهے هيں فرق يه هے كه آنجناب اهل سنت متكلمين كے بجائے كراميه كي طرفداري ميں اپنے علم الكلام كا حصه ڈال رهے هيں
ايك طرف امام ابن قيم ؒ الله عزوجل پر انتقال و تغير كو جائز نهيں كهتے اور ساته ميں ازل ميں الله سے مكان كي نفي فرماتے هيں اور استواء كو جس كو بعد ميں انهوں نے انتقال هي كے هم معني مان ليا هے اس مقام ميں اس سے بهي الله كے ليے مكان كا لزوم نهيں مانتے ،،، اور اس بات كو مخلوق كا خاصه قرار دے رهے هيں كه ان كي ايك جگه موجودگي يا دوسري جگه منتقلي مكان لازم كرتي هے اور الله مخلوق كي طرح نهيں هے ،،، تو پهر كس طرح آخر ميں كهتے هيں كه هم كهتے هيں الله لامكان سے مكان كي طرف مستوي هوا ،،،،، جب كسي جگه سے دوسري جگه منتقلي سے مكان لازم هونا مخلوق كا خاصه هے تو آخر ميں يهي خاصه كس طرح رب العزت كے ليےثابت فرمايا جو كه ليس كمثله شئ هے ،، اور يه بهي فرمايا كه هم استوي كهتے هيں انتقل نهيں كهتے ليكن دونوں كو هم معني بهي قرار دے ديا
گويا ابن قيم رحمه الله كے هاں زياده ضروري صرف الفاظ كي رعايت هے ،، معني جو بهي ليا جائے كوئي مسئله نهيں حالانكه انتقال كا الله پر جائز نه هونا اس وجه سے نهيں هے كه يه لفظ قران وحديث ميں وارد نهيں هوا بلكه يه لفظ الله پر تغير اور تبديلي ثابت كرنے والا هے اس ليے الله سے منفي هے ،محض الفاظ كي رعايت كركے معني خوبخو وهي لينا اتنے بڑے امام سے كيسے صادر هوتا هے ،، اس پر جتنا بهي تعجب كيا جائے كم هے
يهاں قابل غور بات يه بهي هے كه آج كے سلفيوں كے هاں الله عزوجل سے جسم كي نفي بالكل غلط هے يه دليل دے كر كه جسم كا لفظ قران وحديث ميں وارد نهيں هوا لهذا الله كے ليے اس كا اثبات يا نفي كوئي بهي جائز نهيں هے
تو هم پوچهتے هيں آپ كے امام نے جو پهلي عبارت ميں انتقال وتغير كا اطلاق الله پر جائز ه هونے كي بات كي هے تو يه نفي كونسي آيت يا حديث ميں آئي هے
اجتماع الجيوش الإسلامية (2/ 161)
(فَإِنْ قَالَ) : فَهَلْ يَجُوزُ عِنْدَكَ أَنْ يَنْتَقِلَ مَنْ لَا مَكَانَ فِي الْأَزَلِ إِلَى مَكَانٍ. قِيلَ لَهُ: أَمَّا الِانْتِقَالُ وَتَغَيُّرُ الْحَالِ فَلَا سَبِيلَ إِلَى إِطْلَاقِ ذَلِكَ عَلَيْهِ لِأَنَّ كَوْنَهُ فِي الْأَزَلِ لَا يُوجِبُ مَكَانًا وَكَذَلِكَ نَقْلَتُهُ لَا تُوجِبُ مَكَانًا وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ كَالْخَلْقِ لِأَنَّ كَوْنَ مَا كَوْنُهُ يُوجِبُ " مَكَانًا " مِنَ الْخَلْقِ وَنَقْلَتُهُ تُوجِبُ مَكَانًا وَيَصِيرُ مُنْتَقِلًا مِنْ مَكَانٍ إِلَى مَكَانٍ وَاللَّهُ تَعَالَى لَيْسَ كَذَلِكَ. . . وَلَكِنَّا نَقُولُ: اسْتَوَى مِنْ لَا مَكَانَ إِلَى مَكَانٍ وَلَا نَقُولُ: انْتَقَلَ وَإِنْ كَانَ الْمَعْنَى فِي ذَلِكَ وَاحِدًا.
ترجمه : اگر كوئي كهے كه كيا آپ كے هاں جائز هے كه كوئي ذات جو ازل ميں لامكان هو [ كسي مكان ميں قرار پائے هوئے نهيں هو ] وه كسي مكان كي طرف منتقل هوجائے ،، تو اسے كها جائے گا هرچه انتقال و تغير [تبديلي ] هے تو اس كا اطلاق الله جل جلاله پر هونے كا كوئي راسته نهيں هے [يعني جائز نهيں هے ] ، كيونكه ازل ميں اس كا موجود هونا [اس كے ليے ] كوئي مكان ثابت نهيں كرتا ، اور اسي طرح اس كا منتقل هونا بهي كوئي مكان ثابت نهيں كرتا ، اور وه اس بات ميں مخلوق كي طرح نهيں هے كيونكه ايسي موجوگي جس سے مكان لازم آتا هے وه مخلوق كي طرف سے هے [يعني ايسي موجودگي مخلوق كے ليے هے ] اور ان كا انتقال بهي مكان ثابت كرتا هے اور وه [ مخلوق اپني انتقال ميں ] ايك مكان سے دوسرے مكان كي طرف منتقل هوجاتي هے ،،، اور الله اس طرح نهيں هے ،،، ليكن هم كهتے هيں كه الله لامكان سے مكان كي طرف مستوي هوا اور يه نهيں كهتے "منتقل " هوا اگر چه دونوں كا مطلب ايك هي هو
اس عبارت ميں كئي باتيں قابل غور هيں :
:::أٓل وكٹوريه مجسمه هميں فلسفے يا فلسفيانه باتوں كا طعنه ديتي رهتي هے اور كهبي كهبي ان سے جب آپ بات كريں تو جسم كے خصوصيت جيسا كه مكان ميں استقرار ۔ طول عرض وعمق اور حد وغيره كي بات آپ ان پر لازم كرليں تو ان كي طبيعت بهت بهاري هوجاتي هے كه يه سب آپ لوگوں كا فلسفه هے اور هم ايسي باتيں نهيں كرتے اور كهبي كهتے هيں يه علم كلام والوں كي باتيں هيں اور يه ايك لعنت بهرا علم هے يهاں ان كے امام وهي فلسفيانه گفتگو فرمارهے هيں ،، اور وهي علم الكلام چهيڑ رهے هيں فرق يه هے كه آنجناب اهل سنت متكلمين كے بجائے كراميه كي طرفداري ميں اپنے علم الكلام كا حصه ڈال رهے هيں
ايك طرف امام ابن قيم ؒ الله عزوجل پر انتقال و تغير كو جائز نهيں كهتے اور ساته ميں ازل ميں الله سے مكان كي نفي فرماتے هيں اور استواء كو جس كو بعد ميں انهوں نے انتقال هي كے هم معني مان ليا هے اس مقام ميں اس سے بهي الله كے ليے مكان كا لزوم نهيں مانتے ،،، اور اس بات كو مخلوق كا خاصه قرار دے رهے هيں كه ان كي ايك جگه موجودگي يا دوسري جگه منتقلي مكان لازم كرتي هے اور الله مخلوق كي طرح نهيں هے ،،، تو پهر كس طرح آخر ميں كهتے هيں كه هم كهتے هيں الله لامكان سے مكان كي طرف مستوي هوا ،،،،، جب كسي جگه سے دوسري جگه منتقلي سے مكان لازم هونا مخلوق كا خاصه هے تو آخر ميں يهي خاصه كس طرح رب العزت كے ليےثابت فرمايا جو كه ليس كمثله شئ هے ،، اور يه بهي فرمايا كه هم استوي كهتے هيں انتقل نهيں كهتے ليكن دونوں كو هم معني بهي قرار دے ديا
گويا ابن قيم رحمه الله كے هاں زياده ضروري صرف الفاظ كي رعايت هے ،، معني جو بهي ليا جائے كوئي مسئله نهيں حالانكه انتقال كا الله پر جائز نه هونا اس وجه سے نهيں هے كه يه لفظ قران وحديث ميں وارد نهيں هوا بلكه يه لفظ الله پر تغير اور تبديلي ثابت كرنے والا هے اس ليے الله سے منفي هے ،محض الفاظ كي رعايت كركے معني خوبخو وهي لينا اتنے بڑے امام سے كيسے صادر هوتا هے ،، اس پر جتنا بهي تعجب كيا جائے كم هے
يهاں قابل غور بات يه بهي هے كه آج كے سلفيوں كے هاں الله عزوجل سے جسم كي نفي بالكل غلط هے يه دليل دے كر كه جسم كا لفظ قران وحديث ميں وارد نهيں هوا لهذا الله كے ليے اس كا اثبات يا نفي كوئي بهي جائز نهيں هے
تو هم پوچهتے هيں آپ كے امام نے جو پهلي عبارت ميں انتقال وتغير كا اطلاق الله پر جائز ه هونے كي بات كي هے تو يه نفي كونسي آيت يا حديث ميں آئي هے
عقیدہ نمبر
11
فرقہ سلفیہ
کے مطابق اللہ حرکت کرتا ہے ۔ نعوذ باللہ
شیخ محمد بن عثیمین
لکھتے ہیں۔
الحرکة لله تعالي
فالحرکة له حق
(الجواب المختار ص 22)
اللہ حرکت کرتا ہے یہ
حق ہے۔
دوسری طرف ابن باز
جنہیں سلفی بہت مانتے ہیں وہ یہاں ابن عثیمین کا قطعاً ساتھ نہیں دیتے بلکہ وہ
حرکت کی نفی کرتے ہیں
اور کہتے ہیں بلا شبہ یہ قول اہلسنت
والجماعت کے خلاف ہے۔
والنزول والمجيء صفتان
منفتان عن الله من طريق الحركة والانتقال من حال الي حال، بل هما صفتان من صفات الله بلا
تشبيه جل عما يقول المعظلة والمشبهة
بها علوا كبيرا ولا شك ان هذا القول باطل مخالف لما عليه
اهل السنة والجماعة
(مجموع فتاوی ج 5
ص 54)
عقیدہ نمبر 12
اللہ کی مخلوق نے اللہ کو اٹھا رکھا ہے (والعیاذ باللہ)
ابن تیمیہ جو کہ
عثمان بن سعید الدارمی سے جگہ جگہ عقیدے کا اثبات کرتے ہیں جن پر ابن جوزی
نے دفع الشہبۃ میں رد بھی کیا ہے۔ چنانچہ
ابن تیمیہ دارمی کی عبارت نقل کرتے ہیں کہ کہ
فَلَا تَدْرِي أَيُّهَا الْمُعَارِضُ أَنَّ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لَمْ يَحْمِلُوا الْعَرْشَ وَمَنْ عَلَيْهِ بِقُوَّتِهِمْ وَشِدَّةِ أَسْرِهِمْ2 إِلَّا بِقُوَّةِ اللَّهِ وَتَأْيِيدِهِ
فَلَا تَدْرِي أَيُّهَا الْمُعَارِضُ أَنَّ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لَمْ يَحْمِلُوا الْعَرْشَ وَمَنْ عَلَيْهِ بِقُوَّتِهِمْ وَشِدَّةِ أَسْرِهِمْ2 إِلَّا بِقُوَّةِ اللَّهِ وَتَأْيِيدِهِ
( بيان
تلبيس الجهمية 3/246)
ترجمه
: كيا تم نهيں جانتے اے معارض ، كہ حملة العرش [فرشتوں ] نے عرش كو اور جو [ذات ]
اس پر موجود ہے اس كو اپنی قوت اور طاقت سے نہيں بلكہ الله كي قوت اور مدد
سے اٹهايا ہے۔
نعوذ باللہ من ذالک یعنی بقول ابن سعید اور ابن تیمیہ مخلوق نے خالق کو اٹھا رکھا ہے۔ یہ بات ابن تیمیہ اور ابن سعید نے کئی ایک جگہ کہی ہے۔
ابن
تیمیہ اور ابن سعید کے بعض اندھے مقلد اس کا یہ جواب دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ
اگر اللہ اپنے مخلوق کو قدرت دے تو وہ اسے اٹھا سکتے (حالانکہ کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ
اللہ کی مخلوق نے اللہ کو اٹھا رکھا ہے یہ ان ملحدین کی بدعت ہے) یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہ دہریے کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو اپنے جیسا
ایک اور اللہ پیدا کر دے یا کوئی یہ کہے
کہ مخلوق اللہ کی قدرت سے اللہ پر غالب
آسکتی ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک) اللہ کی شان اس سے پاک ہے۔
اس
پر خود ایک سلفی معلق کو بھی غیرت آئی ہے اس نے بھی رد کیا ہے۔
چنانچہ
ابن سعید کی کتاب نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد کے حاشیہ
میں ایک سلفی معلق لکھتے ہیں۔
هَذَا
غير صَحِيح، فَلَيْسَ الْعَرْش حَامِلا للرب وَلَا يقلهُ، بل الرب سُبْحَانَهُ
وَتَعَالَى مستغن عَن
الْعَرْش
وَغَيره من الْمَخْلُوقَات وَهُوَ الْحَامِل للعرش ولحملة الْعَرْش بقوته وَقدرته،'
(نقض
الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد 1/458)
يہ
بات [یعنی عرش كا الله كو اٹهانا ] صحيح نہيں كيونكہ عرش الله كا حامل [اٹهانے
والا ] نہيں ، بلكہ رب تعالي عرش وغيره مخلوقات سے مستغنی ہےبلكہ وہی عرش كو اور اس كے اٹهانے والوں كو
اپنے قوت اور قدرت سے اٹهانے والا ہے۔
يہ
واضح رد كيا ہے سلفی معلق نے اگر دارمی کی بات ٹهيك ہوتي تو سلفي معلق اس كي بات كو "هذا
غير صحيح " نہ كہتے يہ ہم نے صرف ان جاهل سلفیہ
کی تسلی کیلئے لگايا ورنہ سلفي معلق كے رد كی ہميں
کوئی ضرورت نہيں ہے جب یہ بات اتنی واضح ہو ۔
ان احمق لامذہب سلفیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے کن کو اپنے عقائد سپرد کر رکھے ہیں۔
عقیدہ
نمبر 13
اللہ تعالٰی کیلئے جہت کا اثبات
فرقہ اہلحدیث کے مجدد
نواب صدیق حسن خان صاحب اللہ کیلئے جہت کو ثابت کرنے کیلئے چند آیات نقل کرنے کے
بعد لکھتے ہیں۔
”مذکورہ بالا تیرہ
آیات سے اللہ تعالٰی کیلئے جہت فوق اور علو
پوری صراحت کے ساتھ ثابت ہوتی ہے“۔ (والعیاذ باللہ)
(مجموعہ رسائل عقائد
ج 3 ص 147)
نزل الابرار جو کہ
غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں لکھا ہے کہ
”وهو في جهة الفوق ،
ومكانه العرش“
وہ (اللہ) اوپر کی
جہت میں ہے اور س کا مکان عرش ہے۔
)نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان(
امام اہل حدیث نواب
وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ عقائد
میں پوری طرح سے سلفی تھے(تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء ص 385)
رئیس ندوی جنہیں فرقہ
اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی
جائزہ ص 635)
داؤد ارشد صاحب
غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
” بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید
ص 162)
اور غیرمقلدین اپنے
آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیرمقلد
تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل
غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث سے
جان چھڑانے کیلئے اس کے بارے میں کہتے ہیں
کہ یہ ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو
گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری
دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35
جنوری 2003 صفحہ 77)
کیا اللہ جھت میں ہے؟
وقال الإمام الحافظ
الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته
)متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن
الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر
المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي
كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) جس کے شروع میں لکھا ہے
کہ یہ عقائد امام ابو حنیفہؒ ، امام ایو یوسفؒ
، امام محمدؒ کے عقائد ہیں کہ
”الله
تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے“
(متن العقيدة الطحاوية صفحہ ۱۵)
شیخ نظام الدین
الهنديؒ اللہ کیلئے مکان کا اثبات کرنے
والے کو کافر لکھتے ہیں۔
قال الشيخ نظام الهندي:
"ويكفر بإثبات المكان لله" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني
صفحه 259)
الشيخ محمود محمد
خطاب السبكيؒ اللہ تعالٰی کیلئے جھت کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں "وقد قال جمع من السلف والخلف: إن من اعتقد أن الله في
جهة فهو كافر".(إتحاف الكائنات(
الله کیلئے جسم جھت کے قائل پر چاروں آئمہ امام ابو
حنیفہؒ ، امام مالکؒ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبلؒ کا کفر کا فتویٰ۔
(وفي المنهاج القويم على المقدمة الحضرمية )في الفقه الشافعي
لعبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر بافضل الحضرمي: "واعلم أن القرافي وغيره
حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي الله عنهم القول بكفر القائلين بالجهة
والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ
ومثل ذلك نقل ملا علي
القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاةج3 ص 270-271(
عقیدہ نمبر 14
محکم کو متشابہات اور متشابہات کو محکم
فرقہ اہل حدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
”اللہ تعالٰی کے قرب و معیت کی تاوئل علم، قدرت اور احاطے
کے ساتھ کی ہے ، سو یہ آیات متشابہ ہیں ان
میں غور و خوض کرنا بے سود ہے جب کہ آیات استوا محکمات ہیں“۔
(مجموعہ رسائل عقیدہ ج
3 ص 103)
نوٹ : حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ، اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات
دونوں قدیم و ازلی ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی صفات میں سے کوئی صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آجائے ، اگر ہم نعوذباللہ اللہ کی ذات
کے ساتھ قائم کسی صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ، اور کہیںکہ یہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے ، تو هم نے ایک خاص وقت میں اللہ کواس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ، اب اگر اس صفت کو
هم کوئی بے فائدہ کہیں تو یہ بهی گمراهی ہے کہ ہم نے اللہ کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں یا بالفاظ دیگر اللہ کی کسی صفت کو بلا فائدہ کہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت
کے وجود میں آنے سےپہلےہم نے اللہ کو کسی کمال سے خالی مان لیا حالانکہ اللہ کی ذات کسی بهی وقت کسی کمالی صفت سے محروم قرار نہیں دیا جاسکتا ، ورنہ وہ اللہ ہی نہ رہے گا ، ثابت ہو اکہ اللہ کی
ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں
ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے اللہ کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
فَإِنْ قُلْتُمْ لَنَا: قَدْ قُلْتُمْ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ بِالرَّبِّ. قَالُوا لَکمْ (4) : نَعَمْ، وَهَذَا قَوْلُنَا الَّذِی دَلَّ عَلَیہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ،
ترجمہ : اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے اللہ کے ذات میں حوادث کا قیام مان لیا ، تو آپ کو وہ کہیں گے کہ ہاں یہ ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل دلالت کرتا ہے
سوال : یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ، کیونکہ انہوں نے کہا :قالوا لکم ۔ یعنی وہ لوگ آپ کو کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ
جواب : محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں تو قالوا لکم : آیا ہے لیکن چار نسخوں میں "قلنا لکم " آیا ہے جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها :(4) ب، ا، ن، م: قُلْنَا لَکمْ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس
قول کو اپنانے والا ابن تیمیہ بهی ہے
علاوہ ازیں :آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنجائش هی نہیں رہتی ، بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نسبت ہو لیکن چونکہ آگے ان کی حمایت کی ہے لهذا
کوئی فرق نہیںپڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے :
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
وَقَدْ أَخَذْنَا بِمَا فِی قَوْلِ کلٍّ مِنَ الطَّائِفَتَینِ مِنَ الصَّوَابِ، وَعَدَلْنَا عَمَّا یرُدُّہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ مِنْ قَوْلِ کلٍّ مِنْهُمَا.
فَإِذَا قَالُوا لَنَا: فَهَذَا یلْزَمُ (1) أَنْ تَکونَ الْحَوَادِثُ قَامَتْ بِهِ. قُلْنَا: وَمَنْ أَنْکرَ هَذَا قَبْلَکمْ مِنَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ؟ وَنُصُوصُ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ تَتَضَمَّنُ ذَلِک مَعَ صَرِیحِ الْعَقْلِ، وَہو قَوْلٌ لَازِمٌ لِجَمِیعِ الطَّوَائِفِ
ترجمہ : هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس کو شرع اور عقل رد کرتی ہے اس سے عدول کیا ، اگر ہمیں وہ کہیں کہ اس بات کے یہ لازم ہے کہ الله
کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ہو ، هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے ؟ جبکہ قران و سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی طرف
اشارہ کرتی ہے ] اور یہ قول تمام فرقوں کو لازم ہوتا ہے
ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 382)
وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْخَلْقَ حَادِثٌ کالهشامیة والکرَّامِیة قَالَ: نَحْنُ نَقُولُ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ.
یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے جو لوگ کہتےہیں کہ مخلوق حادث ہے وہ کہتےہیں کہ هم اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے قائل ہیں
ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں
وَلَا دَلِیلَ عَلَى بُطْلَانِ ذَلِک. بَلْ الْعَقْلُ وَالنَّقْلُ وَالْکتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ یدُلُّ عَلَى تَحْقِیقِ ذَلِک کمَا قَدْ بُسِطَ فِی مَوْضِعِهِ.
یعنی اس بات کے بطلان پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ، سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے
ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے اللہ کو پاک کهنا غلط ہے
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
ثُمَّ إِنَّ کثِیرًا مِنْ نُفَاةِ الصِّفَاتِ - الْمُعْتَزِلَةِ وَغَیرِهِمْ - یجْعَلُونَ مِثْلَ هَذَا حُجَّةً فِی نَفْی قِیامِ الصِّفَاتِ، أَوْ قِیامِ الْحَوَادِثِ بِہ مُطْلَقًا، وَہو غَلَطٌ مِنْهُمْ،
ترجمہ : پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے والوں نے یہ بات [اللہ کی ذات کے ساتھ ] صفات کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے
اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراصل ابن تیمیہ بعض حوادث کو اللہ کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے اللہ کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غلط
ہے
جیسا کہ انہوں نے کها :
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
وَلَا یجِبُ إِذَا نَفَیتَ عَنْہ النَّقَائِصَ وَالْعُیوبَ أَنْ ینْتَفِی عَنْہ مَا ہو مِنْ صِفَاتِ الْکمَالِ وَنُعُوتِ الْجَلَالِ]
ترجمہ : جب آپ نے اللہ سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کساتھ ضروری نہیں کہ اس سے وہ چیزیں بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جلال کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمیه
کمال و جلال کے صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]
امام ابوالمظفر الاسفرائینی فرماتے ہیں:
"ومما ابتدعوه- أی الکرَّامیة- من الضلالات مما لم یتجاسر على إطلاقہ قبلهم واحد من الأمم لعلمهم بافتضاحہ ہو قولهم: بأن معبودهم محل الحوادث
تحدث فی ذاتہ أقوالہ وإرادتہ وإدراکہ للمسموعات والمبصرات، وسموا ذلک سمعًا وتبصرًا، [ التبصیر فی الدین (ص/ 66- 67]
یعنی کرامیہ نے جن گمراهیوں کو ایجاد کیا جن پر ان سےپہلےعلی الاطلاق کسی نے بهی اس کی قباحت اور رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیںوہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که: ان کا معبود حوادث
کا محل ہے اس کے ذات میں اس کے اقوال ، ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہوتے ہیں،
معلوم ہوا یہ قول امام ابن تیمیہ نے کرامیہ کی اتباع میں کها ہے
اس کی تصریح اور اعتراف ملک عبدالعزیز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من الالهیات کے مولف سلفی عالم ڈاکٹر احمد الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے :
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنہ مذهب السلف وأنہ الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلی ہو بعینہ رأى الکرامیة
یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یهی وہ حق بات ہے جس کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ،، تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "
خود یهی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ اللہ کو کلام اللہ کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہلاتا ہے اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباللہ ]
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول الحوادث بذات اللہ تعالى بمعنى أنہ یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید ہو الرأی الصحیح بدلالة العقل والنقل
ترجمہ :اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ، اس معنی سے کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل
کی دلالت سے
ان حضرات کو اللہ کی ذات میں حوادث کا حلول صحیح عقیدہ اس بنا پر لگتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ کو حادث کہتےہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے تو گویا اس کلام کے ذریعے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز
چیز حلول ہوگئی جوپہلےنہیںتهی حالانکہ اگر اہل سنت کی طرح اللہ کے کلام کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ اللہ نے قران پر جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السلام کے ساتھ جو
تکلم کیا یہ سب اپنے اسی ازلی قدیم صفت سے کیا اور اس کلام سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل قول کا محتاج نہ ہوتے ، دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل
اللہ تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے افعال جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ، وغیرہ یہ سب اللہ کی ذات میں پیدا نہیںہوتے بلکہ اللہ اپنے قدیم صفت سے ان افعال کو مخلوق میں کرتا اور
پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف کوئی بهی اشارہ کسی عقلی یا نقلی دلیل میں نہیںکہ اللہ تعالی کا کلام یا اس کے افعال سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز [حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں
ابن تیمیہ اور امام احمد ؒ کے عقیدے میں نمایاں فرق
فائدہ :یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں فرق بتاتے ہیں کہ امام احمد ؒ قران کو اللہ تعالی کا ازلی کلام کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد اللہ کا علم کہتےہیںجس طرح ایس اکوئی وقت
نہیں تها جب اللہ علم سے معطل ہو اسی طرح ایسا وقت بهی نہیںتها جب قران نہ تها ، جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ ہے چنانچہ ابن تیمیہ کہتےہیں
ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں
وإذا کان اللہ قد تکلم بالقرآن بمشیئة کان
القرآن کلامہ وکان منزلا منہ غیر مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم
الله"ا.هـ[ "مجموع الرسائل" (1/380):
قران اللہ کا کلام ہے اور اسی سے نازل ہوا ہے مخلوق نہیںہے ، اور اللہ کے ساتھ اس کی قدم کی طرح قدیم نہیں ہے ،
دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مسئلے پر مناظرہ نقل کیا ہے اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو اللہ کا علم
اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں
البدایة والنهایة ط هجر (14/ 399)
فَقَالَ لِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا تَقُولُ فِی الْقُرْآنِ؟ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقَالَ الْمُعْتَصِمُ: أَجِبْهُ. فَقُلْتُ: مَا تَقُولُ فِی الْعِلْمِ؟ فَسَکتَ، فَقُلْتُ:
الْقُرْآنُ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عِلْمَ اللَّہ مَخْلُوقٌ فَقَدْ کفَرَ بِاللَّهِ. فَسَکتَ، فَقَالُوا فِیمَا بَینَهُمْ:
یا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، کفَّرَک وَکفَّرَنَا. فَلَمْ یلْتَفِتْ إِلَى ذَلِک، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: کانَ اللَّہ وَلَا قُرْآنَ؟ فَقُلْتُ: کانَ اللَّہ وَلَا
عِلْمَ؟ فَسَکتَ
اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ اللہ موجود تها لیکن قران نہ تها ، اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا اللہ موجود تها اور اس کا علم نہ تها " ، یعنی یہ کیسے
ہوسکتا ہے کہ اللہ موجود ہو اور بلاعلم کے ہو اور چونکہ امام احمد ؒ نے ان سے کها تها کہ القران من علم اللہ ، کہ قران اللہ کے علم سے ہے ، تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی قدیم ہے کیونکه
یہ اللہ کا علم ہے اور اللہ بلاعلم کبھی بهی نہیں تها
اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے،،
ابن تیمیہ ایک جگہ لکھتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
والکرَّامِیة یسَمُّونَ مَا قَامَ بِہ " حَادِثًا " وَلَا یسَمُّونَہ " مُحْدَثًا
کہ کرامیہ فرقہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے
آگے لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
وَأَمَّا غَیرُ الکرَّامِیة مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیثِ وَالسُّنَّةِ وَالْکلَامِ فَیسَمُّونَ ذَلِک " مُحْدَثًا " کمَا قَالَ {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ}
یعنی کرامیہ کے علاوہ علم حدیث ، سنت اور علم کلام کے ائمہ اس کو محدث بهی کہتےہیںجیسا کہ اللہ نے فرمایا : مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث
اب یهاں صفات باری تعالی کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ امام احمد ؒ کی مخالفت کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے
امام ذهبی ؒ نے العلو میں نقل کیا ہے [ جس سے غیرمقلدین بهت استدلال کرتے ہیںاور روایات نقل کرتے ہیں]
العلو للعلی الغفار (ص: 150)
قَالَ ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا مُحَمَّد بن الْفضل بن مُوسَى حَدثنَا أَبُو مُحَمَّد الْمروزِی قَالَ سَمِعت الْحَارِث بن عُمَیر وَہو مَعَ فُضَیل بن عِیاض یقُول من زعم أَن الْقُرْآن مُحدث فقد کفر وَمن زعم أَنہ لَیسَ من علم اللہ فَہو زندیق
یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ اللہ کے علم میں سے نہیںہے وہ زندیق ہے
اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے :
العلو للعلی الغفار (ص: 169)
ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا أَبُو هَارُون مُحَمَّد بن خلف الجزار سَمِعت هِشَام بن عبید اللہ یقُول الْقُرْآن کلَام اللہ غیر مَخْلُوق
فَقَالَ لَہ رجل أَلَیسَ اللہ تَعَالَى یقُول {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ من رَبهم مُحدث} فَقَالَ مُحدث إِلَینَا وَلَیسَ عِنْد اللہ بمحدث //
قلت لِأَنَّہ من علمہ وَعلمہ قدیم فَعلم عبادہ مِنْهُ
یعنی هشام بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ قران اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے ، کسی نے کها کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ "ما یاتیهم من ذکر من ربهم محدث "
[پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے : کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف
سے کوئی نئی نصیحت نہیںآتی مگر وہ اس کو سنتے ہیںکهیلتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی اللہ نے اس کو نئ چیز کہا ہے ،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہماری طرف نئی ہے اللہ کے هاں نئی نہیں ہے
امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں: میں کهتا ہوں کہ یہ بات اس لیے ہے کہ قران اللہ کے علم سے ہے اور اللہ کا علم قدیم ہے
یہاں امام ذهبی کا بهی ابن تیمیہ سے اختلاف ہوا ، امام ذهبی قران کو اللہ کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گزر چکا جو قران کو اللہ کے ساتھ ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔
عقیدہ نمبر 15
لامذہب
سلفیوں اور غیرمقلدین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی یہ صفات حادث یعنی نو پیدا ہیں۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث
کے امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ
تصریح کی ہے کہ وہ عقائد میں پوری طرح سے سلفی تھے(تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء
ص 385) لکھتے ہیں:
” فص الصفات الفعلية حادث “
پس یہ صفات فعلیہ
حادث ہیں
(ہدية
المهدي ص 10)
رئیس ندوی جنہیں فرقہ
اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی
جائزہ ص 635)
داؤد ارشد صاحب
غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
” بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید
ص 162)
اور غیرمقلدین اپنے
آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیرمقلد
تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل
غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث سے
جان چھڑانے کیلئے اس کے بارے میں کہتے ہیں
کہ یہ ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو
گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری
دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35
جنوری 2003 صفحہ 77)
بہرحال
ہم ان کی تسلی کیلئے ان کے بڑے ابن تیمیہ کا بھی عقیدہ پیش کرتے ہیں جس کے یہ اندھے مقلد ہیں۔
نوٹ : حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ، اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات
دونوں قدیم و ازلی ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی صفات میں سے کوئی صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آجائے ، اگر ہم نعوذباللہ اللہ کی ذات
کے ساتھ قائم کسی صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ، اور کہیںکہ یہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے ، تو هم نے ایک خاص وقت میں اللہ کواس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ، اب اگر اس صفت کو
هم کوئی بے فائدہ کہیں تو یہ بهی گمراهی ہے کہ ہم نے اللہ کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں یا بالفاظ دیگر اللہ کی کسی صفت کو بلا فائدہ کہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت
کے وجود میں آنے سےپہلےہم نے اللہ کو کسی کمال سے خالی مان لیا حالانکہ اللہ کی ذات کسی بهی وقت کسی کمالی صفت سے محروم قرار نہیں دیا جاسکتا ، ورنہ وہ اللہ ہی نہ رہے گا ، ثابت ہو اکہ اللہ کی
ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں
ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے اللہ کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
فَإِنْ قُلْتُمْ لَنَا: قَدْ قُلْتُمْ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ بِالرَّبِّ. قَالُوا لَکمْ (4) : نَعَمْ، وَهَذَا قَوْلُنَا الَّذِی دَلَّ عَلَیہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ،
ترجمہ : اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے اللہ کے ذات میں حوادث کا قیام مان لیا ، تو آپ کو وہ کہیں گے کہ ہاں یہ ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل دلالت کرتا ہے
سوال : یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ، کیونکہ انہوں نے کہا :قالوا لکم ۔ یعنی وہ لوگ آپ کو کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ
جواب : محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں تو قالوا لکم : آیا ہے لیکن چار نسخوں میں "قلنا لکم " آیا ہے جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها :(4) ب، ا، ن، م: قُلْنَا لَکمْ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس
قول کو اپنانے والا ابن تیمیہ بهی ہے
علاوہ ازیں :آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنجائش هی نہیں رہتی ، بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نسبت ہو لیکن چونکہ آگے ان کی حمایت کی ہے لهذا
کوئی فرق نہیںپڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے :
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
وَقَدْ أَخَذْنَا بِمَا فِی قَوْلِ کلٍّ مِنَ الطَّائِفَتَینِ مِنَ الصَّوَابِ، وَعَدَلْنَا عَمَّا یرُدُّہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ مِنْ قَوْلِ کلٍّ مِنْهُمَا.
فَإِذَا قَالُوا لَنَا: فَهَذَا یلْزَمُ (1) أَنْ تَکونَ الْحَوَادِثُ قَامَتْ بِهِ. قُلْنَا: وَمَنْ أَنْکرَ هَذَا قَبْلَکمْ مِنَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ؟ وَنُصُوصُ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ تَتَضَمَّنُ ذَلِک مَعَ صَرِیحِ الْعَقْلِ، وَہو قَوْلٌ لَازِمٌ لِجَمِیعِ الطَّوَائِفِ
ترجمہ : هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس کو شرع اور عقل رد کرتی ہے اس سے عدول کیا ، اگر ہمیں وہ کہیں کہ اس بات کے یہ لازم ہے کہ الله
کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ہو ، هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے ؟ جبکہ قران و سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی طرف
اشارہ کرتی ہے ] اور یہ قول تمام فرقوں کو لازم ہوتا ہے
ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 382)
وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْخَلْقَ حَادِثٌ کالهشامیة والکرَّامِیة قَالَ: نَحْنُ نَقُولُ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ.
یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے جو لوگ کہتےہیں کہ مخلوق حادث ہے وہ کہتےہیں کہ هم اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے قائل ہیں
ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں
وَلَا دَلِیلَ عَلَى بُطْلَانِ ذَلِک. بَلْ الْعَقْلُ وَالنَّقْلُ وَالْکتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ یدُلُّ عَلَى تَحْقِیقِ ذَلِک کمَا قَدْ بُسِطَ فِی مَوْضِعِهِ.
یعنی اس بات کے بطلان پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ، سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے
ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے اللہ کو پاک کهنا غلط ہے
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
ثُمَّ إِنَّ کثِیرًا مِنْ نُفَاةِ الصِّفَاتِ - الْمُعْتَزِلَةِ وَغَیرِهِمْ - یجْعَلُونَ مِثْلَ هَذَا حُجَّةً فِی نَفْی قِیامِ الصِّفَاتِ، أَوْ قِیامِ الْحَوَادِثِ بِہ مُطْلَقًا، وَہو غَلَطٌ مِنْهُمْ،
ترجمہ : پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے والوں نے یہ بات [اللہ کی ذات کے ساتھ ] صفات کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے
اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراصل ابن تیمیہ بعض حوادث کو اللہ کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے اللہ کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غلط
ہے
جیسا کہ انہوں نے کها :
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
وَلَا یجِبُ إِذَا نَفَیتَ عَنْہ النَّقَائِصَ وَالْعُیوبَ أَنْ ینْتَفِی عَنْہ مَا ہو مِنْ صِفَاتِ الْکمَالِ وَنُعُوتِ الْجَلَالِ]
ترجمہ : جب آپ نے اللہ سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کساتھ ضروری نہیں کہ اس سے وہ چیزیں بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جلال کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمیه
کمال و جلال کے صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]
امام ابوالمظفر الاسفرائینی فرماتے ہیں:
"ومما ابتدعوه- أی الکرَّامیة- من الضلالات مما لم یتجاسر على إطلاقہ قبلهم واحد من الأمم لعلمهم بافتضاحہ ہو قولهم: بأن معبودهم محل الحوادث
تحدث فی ذاتہ أقوالہ وإرادتہ وإدراکہ للمسموعات والمبصرات، وسموا ذلک سمعًا وتبصرًا، [ التبصیر فی الدین (ص/ 66- 67]
یعنی کرامیہ نے جن گمراهیوں کو ایجاد کیا جن پر ان سےپہلےعلی الاطلاق کسی نے بهی اس کی قباحت اور رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیںوہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که: ان کا معبود حوادث
کا محل ہے اس کے ذات میں اس کے اقوال ، ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہوتے ہیں،
معلوم ہوا یہ قول امام ابن تیمیہ نے کرامیہ کی اتباع میں کها ہے
اس کی تصریح اور اعتراف ملک عبدالعزیز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من الالهیات کے مولف سلفی عالم ڈاکٹر احمد الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے :
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنہ مذهب السلف وأنہ الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلی ہو بعینہ رأى الکرامیة
یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یهی وہ حق بات ہے جس کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ،، تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "
خود یهی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ اللہ کو کلام اللہ کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہلاتا ہے اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباللہ ]
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول الحوادث بذات اللہ تعالى بمعنى أنہ یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید ہو الرأی الصحیح بدلالة العقل والنقل
ترجمہ :اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ، اس معنی سے کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل
کی دلالت سے
ان حضرات کو اللہ کی ذات میں حوادث کا حلول صحیح عقیدہ اس بنا پر لگتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ کو حادث کہتےہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے تو گویا اس کلام کے ذریعے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز
چیز حلول ہوگئی جوپہلےنہیںتهی حالانکہ اگر اہل سنت کی طرح اللہ کے کلام کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ اللہ نے قران پر جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السلام کے ساتھ جو
تکلم کیا یہ سب اپنے اسی ازلی قدیم صفت سے کیا اور اس کلام سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل قول کا محتاج نہ ہوتے ، دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل
اللہ تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے افعال جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ، وغیرہ یہ سب اللہ کی ذات میں پیدا نہیںہوتے بلکہ اللہ اپنے قدیم صفت سے ان افعال کو مخلوق میں کرتا اور
پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف کوئی بهی اشارہ کسی عقلی یا نقلی دلیل میں نہیںکہ اللہ تعالی کا کلام یا اس کے افعال سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز [حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں
ابن تیمیہ اور امام احمد ؒ کے عقیدے میں نمایاں فرق
فائدہ :یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں فرق بتاتے ہیں کہ امام احمد ؒ قران کو اللہ تعالی کا ازلی کلام کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد اللہ کا علم کہتےہیںجس طرح ایس اکوئی وقت
نہیں تها جب اللہ علم سے معطل ہو اسی طرح ایسا وقت بهی نہیںتها جب قران نہ تها ، جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ ہے چنانچہ ابن تیمیہ کہتےہیں
ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں
وإذا کان اللہ قد تکلم بالقرآن بمشیئة کان
القرآن کلامہ وکان منزلا منہ غیر مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم
الله"ا.هـ[ "مجموع الرسائل" (1/380):
قران اللہ کا کلام ہے اور اسی سے نازل ہوا ہے مخلوق نہیںہے ، اور اللہ کے ساتھ اس کی قدم کی طرح قدیم نہیں ہے ،
دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مسئلے پر مناظرہ نقل کیا ہے اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو اللہ کا علم
اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں
البدایة والنهایة ط هجر (14/ 399)
فَقَالَ لِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا تَقُولُ فِی الْقُرْآنِ؟ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقَالَ الْمُعْتَصِمُ: أَجِبْهُ. فَقُلْتُ: مَا تَقُولُ فِی الْعِلْمِ؟ فَسَکتَ، فَقُلْتُ:
الْقُرْآنُ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عِلْمَ اللَّہ مَخْلُوقٌ فَقَدْ کفَرَ بِاللَّهِ. فَسَکتَ، فَقَالُوا فِیمَا بَینَهُمْ:
یا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، کفَّرَک وَکفَّرَنَا. فَلَمْ یلْتَفِتْ إِلَى ذَلِک، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: کانَ اللَّہ وَلَا قُرْآنَ؟ فَقُلْتُ: کانَ اللَّہ وَلَا
عِلْمَ؟ فَسَکتَ
اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ اللہ موجود تها لیکن قران نہ تها ، اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا اللہ موجود تها اور اس کا علم نہ تها " ، یعنی یہ کیسے
ہوسکتا ہے کہ اللہ موجود ہو اور بلاعلم کے ہو اور چونکہ امام احمد ؒ نے ان سے کها تها کہ القران من علم اللہ ، کہ قران اللہ کے علم سے ہے ، تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی قدیم ہے کیونکه
یہ اللہ کا علم ہے اور اللہ بلاعلم کبھی بهی نہیں تها
اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے،،
ابن تیمیہ ایک جگہ لکھتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
والکرَّامِیة یسَمُّونَ مَا قَامَ بِہ " حَادِثًا " وَلَا یسَمُّونَہ " مُحْدَثًا
کہ کرامیہ فرقہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے
آگے لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
وَأَمَّا غَیرُ الکرَّامِیة مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیثِ وَالسُّنَّةِ وَالْکلَامِ فَیسَمُّونَ ذَلِک " مُحْدَثًا " کمَا قَالَ {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ}
یعنی کرامیہ کے علاوہ علم حدیث ، سنت اور علم کلام کے ائمہ اس کو محدث بهی کہتےہیںجیسا کہ اللہ نے فرمایا : مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث
اب یهاں صفات باری تعالی کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ امام احمد ؒ کی مخالفت کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے
امام ذهبی ؒ نے العلو میں نقل کیا ہے [ جس سے غیرمقلدین بهت استدلال کرتے ہیںاور روایات نقل کرتے ہیں]
العلو للعلی الغفار (ص: 150)
قَالَ ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا مُحَمَّد بن الْفضل بن مُوسَى حَدثنَا أَبُو مُحَمَّد الْمروزِی قَالَ سَمِعت الْحَارِث بن عُمَیر وَہو مَعَ فُضَیل بن عِیاض یقُول من زعم أَن الْقُرْآن مُحدث فقد کفر وَمن زعم أَنہ لَیسَ من علم اللہ فَہو زندیق
یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ اللہ کے علم میں سے نہیںہے وہ زندیق ہے
اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے :
العلو للعلی الغفار (ص: 169)
ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا أَبُو هَارُون مُحَمَّد بن خلف الجزار سَمِعت هِشَام بن عبید اللہ یقُول الْقُرْآن کلَام اللہ غیر مَخْلُوق
فَقَالَ لَہ رجل أَلَیسَ اللہ تَعَالَى یقُول {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ من رَبهم مُحدث} فَقَالَ مُحدث إِلَینَا وَلَیسَ عِنْد اللہ بمحدث //
قلت لِأَنَّہ من علمہ وَعلمہ قدیم فَعلم عبادہ مِنْهُ
یعنی هشام بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ قران اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے ، کسی نے کها کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ "ما یاتیهم من ذکر من ربهم محدث "
[پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے : کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف
سے کوئی نئی نصیحت نہیںآتی مگر وہ اس کو سنتے ہیںکهیلتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی اللہ نے اس کو نئ چیز کہا ہے ،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہماری طرف نئی ہے اللہ کے هاں نئی نہیں ہے
امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں: میں کهتا ہوں کہ یہ بات اس لیے ہے کہ قران اللہ کے علم سے ہے اور اللہ کا علم قدیم ہے
یہاں امام ذهبی کا بهی ابن تیمیہ سے اختلاف ہوا ، امام ذهبی قران کو اللہ کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گزر چکا جو قران کو اللہ کے ساتھ ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔
(جاری)