غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday 5 July 2015

رد الحد / بائن من الخلقة / مسافت Rad AlHad

رد الحد  ،بائن من الخلقة، مسافت
لامذہبی سلفیہ کے نزدیک حد کا معنی
لامذہبی سلفی حد کے معنی کرنے میں تقیہ سے کام لیتے ہیں یہ لامذہبی اللہ کیلئے دو طرح کی حد کے قائل ہیں جس میں سے معنی ایک حد کا کرتے ہیں اور ثابت دوسری حد کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے اس پر کچھ نہ کچھ اختلاف بھی رکھتے ہیں۔
نوٹ : یاد رہے کہ  اللہ کیلئے حد  ہونے کا ذکر  نہ  اللہ کا فرمان ہے نہ رسول اللہ کا فرمان ہے  جسے ماننا ضروری اور لازم ہو نہ یہ کوئی اجتہادی مسئلہ ہے کہ کوئی اجتہاد کرے اور اس کی تقلید کر لی جائے  خاص کر عقیدے کے باب میں وہ بھی ایک ایسے لفظ سے جس کا معنی اللہ کی شان کے  عین خلاف آتا ہے۔
لامذہبی سلفی اس سلسلہ میں حد کے کیا  معنی  اور کیا تشریح کرتے ہیں
حد کا پہلا معنی
کہتے ہیں کہ اللہ کی حد ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان جدائی ہے ہم اللہ اور مخلوق کو آپ میں جڑا ہوا نہیں کہتے اور اللہ کا مخلوق میں حلول نہیں کہتے اسلئے اللہ کیلئے حد کا اثبات کرتے ہیں۔
اگر حد کا یہی معنی ہوتا تو پھر جنہوں نے حد کی نفی کی وہ سب حلولی ہوئے؟
اب ان کے پوچھا جائے کہ کیا یہ حد غیر اللہ ہے اگر غیر اللہ ہے تو اللہ اور مخلوق کے درمیان ایک اور غیر اللہ مخلوق کا وجود ہے اب اس مخلوق سے جدائی کیلئے کیا اللہ کو اور کسی حد کی ضرورت ہوگی؟
ان کے عقیدے کے مطابق تو نزول الی السماء کے وقت  اللہ  کا مخلوق میں حلول لازم جاتا ہے؟ اس وقت کیا اللہ کو مخلوق سے جدا کرنے کیلئے اور کسی حد کی ضرورت ہوتی ہے ؟

 حد کا دوسرا معنی
یہ معنی کرنے میں یہ لامذہبی خوب تقیے سے کام لیتے ہیں اور کبھی کھل کر نہیں کہہ پاتے البتہ ان کے بڑوں نے جس کی یہ اندھی تقلید کرتے ہیں انہوں نے حد کے اس معنی کی صراحتاً وضاحت کی ہے اور وہ تشریح بیان کی ہے حد کی جس کے وہ حقیقت میں قائل ہیں کہ نعوذ باللہ اللہ تعالٰی کی ذات لامتناہی نہیں اس کی انتہاء ہے وہ لامحدود نہیں بلکہ محدود ذات ہے۔ العیاذ باللہ
اور اس میں وہ لوگ اللہ کیلئے حد کو  فاصلے کی دوری ،مسافت اور خلا کے ساتھ مانتے ہیں۔

حد کی تشریح
بات کرنے سے قبل یاد رہے کہ امام احمد ؒ سے حد کے بارے میں دو قول آئے ہیں ایک اثبات کا ایک نفی ، اب ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حد کی نفی جو کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے اور سلف کے بارے میں منقول ہے  کہ
، کہ  وہ حد ثابت نہیں کرتے تھے
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں
أَ کانَ سُفْیانُ الثَّوْرِی وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَیدٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَشَرِیک وَأَبُو [ص:335] عَوَانَةَ لَا یحِدُّونَ  
”  امام سفیان ثوری ا مام شعبہ امام حماد بن زید ، حماد بن سلمہ امام شریک اور امام ابوعوانہ رحمہم اللہ اللہ تعالٰی کی حد ثابت نہیں کرتے تھے
(الأسماء والصفات للبیہقی (2/ 334)
امام بیہقیؒ اگے فرماتے ہیں:
وَعَلَى ہذَا مَضَى أَکابِرُنَا
اسی پر ہمارے اکابر (جو کہ ان گنت ہیں) بھی گزرے ہیں“ ۔

تو امام احمد کو حد کے اثبات کے قول سے بری کہنا چاہئے تھا اس لیے کہ اثبات حد پر قران و سنت میں کوئی دلیل نہیں جیسا کہ خود  انکے شیخ البانی نے کہا ہے ،
ولیس فیہ مایشہد لذالک من الکتاب والسنة 
(فہرس مخطوطات دار الکتب الظاہریہ ص 376)
لیکن ابن تیمیہ اور قاضی ابویعلی ان کو عجیب و غریب احوال پر حمل کرت ہیں جنکا خلاصہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔
قاضی ابویعلی جس سے ابن تیمیہ نے جگہ جگہ اخذ کیا ہے اور اس کے عقائد پر علامہ ابن الجوزی ؒ نے دفع شبہ التشبیہ میں بہت مضبوط سخت رد کیا انہوں نے امام احمد سے حد کے اثبات اور انکار کے دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا ہے
قال إنہ على العرش بحد معناہ أن ما حاذى العرش من ذاتہ ہو حد لہ وجہة لہ والموضع الذی
 جہاں انہوں نے حد کا اثبات کیا ہے وہاں اس مراد اللہ کی ذات کا وہ حصہ ہے جو کہ عرش کے مقابل یعنی سامنے ہے وہی اس کی حد اور جہت ہے۔
قال ہو على العرش بغیر حد معناہ ما عدا الجہة المحاذیة للعرش وہی الفوق والخلف والأمام والیمنة والیسرة وکان الفرق بین جہة التحت المحاذیة للعرش وبین غیرہا ما ذکرنا أن جہة التحت تحاذی العرش بما قد ثبت من الدلیل والعرش محدود
اور جہاں امام احمد نے کہا کہ وہ عرش پر بغیر حد کے ہے وہاں مراد اللہ کی ذات کا وہ سائیڈ ہے جو عرش کے مقابل نہیں ہے ، جو کہ اوپر ، آگے ، پیچھے ،دائیں اور بائیں کی سائیڈ کی  ہے ،(یعنی یہ تمام سائیڈ اللہ کے غیرمحدود ہیں(
استغفراللہ ایسے خرافات پر نہ مام ابن تیمیہ کو کوئی غصہ آتا ہے نہ  غیرمقلدین ، اللہ کے ذات کے حصے بنالیے ایک وہ جو عرش کی طرف عرش کے بالمقابل ہے باقی اوپر کا حصہ ، پیچھے کا حصہ ، دائیں ، بائیں ۔۔۔ اللہ کی ذات کو حصوں میں تقسیم کرلیا جبکہ حصے ترکیب کی واضح علامت اور جسم کی تعریف اور خصوصیات میں شامل ہیں اس سے زیادہ تجسیم کی وضاحت اور کیا ہوگی ۔

امام ابن تیمیہ اس پر یہ تبصرہ اور ابو یعلی سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام احمد کے کلام کی تفسیر میں اللہ کو صرف ایک جہت سے محدود ماننا ماسوائے دیگر پانچ جہتوں کے ، یہ تفسیر قاضی کی دوسری جگہ بیان کی گئی تفسیر کے خلاف ہے
(کیا امام احمد ایسے خرافات پر اپنے کلام کو حمل کرنا صحیح سمجھتے ہونگے؟)
لیکن آگے امام ابن تیمیہ نے جو خود امام احمد کے کلام کی تفسیر جو ان کے  ہاں مختار ہے وہ نقل کی ہے ، وہ بہی قابل دید ہے ،ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ
قول أحمد حد لایعلمہ إلا ہو والثانی أنہ صفة یبِین بہا عن غیرہ ویتمیز فہو تعالى فرد واحد ممتنع عن الاشتراک لہ فی أخص صفاتہ قال وقد منعنا من إطلاق القول بالحد فی غیر موضع من کتابنا ویجب أن یجوز على الوجہ الذی ذکرناہ فہذا القول الوسط من أقوال القاضی الثلاثة ہو المطابق لکلام أحمد وغیرہ من الأئمة وقد قال إنہ تعالى فی جہة مخصوصة ولیس ہو ذاہبًا فی الجہات بل ہو خارج العالم متمیز عن خلقہ منفصل عنہم غیر داخل فی کل الجہات وہذا معنى قول أحمد حد لایعلمہ إلا ہو ولو کان مراد أحمد رحمہ اللہ الحد من جہة العرش فقط لکان ذلک معلومًا لعبادہ فإنہم قد عرفوا أن حدہ من ہذہ الجہة ہو العرش فعلم أن الحد الذی لا یعلمونہ مطلق لا یختص بجہة العرش
(بیان تلبیس الجہمیة فی تأسیس بدعہم الکلامیة (3/ 24)

امام احمد نے جہاں حد نفی کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی اس حد کے اندازے کا علم نہیں رکھتا کہ کتنا حد ہے ،کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ للہ کے ایسا حد ہے جس کو صرف اللہ ہی جانتاہے، ، اگر اس کا مطلب یہ ہوتا ہہ وہ اللہ صرف عرش کی جہت میں محدود ہے تو وہ تو اللہ کے بندوں کو معلوم تھا“۔
( کوئی بتائے کہاں کسی نص میں ہمیں اللہ کے لیے حد بتائی گئی ہے کہ ہمیں اس بات پر علم ہو ، ام تقولون علی اللہ مالاتعلمون)
آگے لکھا کہ بندوں کو پتہ ہے کہ اللہ کا حد اس جہت سے عرش ہی ہے
پس معلوم ہوا کہ اللہ کا وہ حد جو مخلوق کو معلوم نہیں وہ مطلق ہے صرف عرش کے ساتھ مختص نہیں

آخری جملے میں غور کیجئے اللہ کے لیے حد اور وہ بہی جہاں قاضی اس کو صرف عرش کی سائیڈ میں ثابت کرتے ہیں ابن تیمیہ اس کو مطلقا ثابت کرتے ہیں نہ کہ صرف عرش کی سائیڈ میں مخصوص ، سبحان اللہ عما یصفون ،
کیا یہ سب قران و حدیث سے لیا گیا ہے ،ایسی باتوں کو یقینا لامذہبی سلفی علم کلام  ہی کہتےہیں اور فرماتے ہیں کہ علم کلام صرف زندیق ہی استعمال کرتے ہیں۔

فرقہ  سلفیہ اس تشریح کے واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ جس حد کے وہ نعرے لگاتے ہیں اس سے وہ اللہ کی ذات کی لامحدودیت کا انکار کرتے ہیں  اس کے لامتناہی ہونے کا انکار کرتے ہیں اسے متناہی اور محدود ذات سمجھتے ہیں نعوذ باللہ من ذالک
اور یہ بھی کہ ابھی تک یہ صحیح طرح سے کسی ایک معنی پر متفق نہیں ہو سکے ابو یعلی کچھ کہتے ہیں اور ابن تیمیہ کچھ البتہ ثابت دونوں اللہ کی ذات کو محدود کرتے ہیں اور نعوذ اللہ اللہ کی ذات کے  ٹکڑے بھی بیان کرتے ہیں۔
لامذہبیہ سلفیہ کے ایک اور شیخ عثمان بن سعید الدارمی  جس سے  یہ لامذہبی اپنے عقیدےکو ثابت کرتے ہیں لکھتا ہے کہ
وَأَمَّا قَوْلُكَ: غَيْرُ بَائِنٍ بِاعْتِزَالٍ، وَلَا بِفُرْجَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ خَلْقِهِ، فَقَدْ كَذَبْتَ فِيهِ وَضَلَلْتَ1، عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ، بَلْ هُوَ بِائِنٌ مِنْ خَلْقِهِ فَوْقَ عَرْشِهِ بِفُرْجَةٍ بَيِّنَةٍ
(نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد (1/ 441)

يہاں الدارمی واضح طور پر كہتا ہے كہالله اپنے مخلوق سے جدا عرش كے اوپر  ہے ايك واضح شگاف اور خلاء كے ساتھ ہے۔ 
غور کیجئے کہ ان کے ہاں مخلوق سے جدائی کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی ذات کی انتہاء معلوم ہو اور اس انتہاء کے بعد خلاء ہے اور اس کے بعد عالم اور مخلوق کے ذات کی شروعات ہیں ،، تعجب ہے کہ یہ لوگ اس "خلاء اور فاصلے " کو کیا سمجھتے ہیں آیا یہ مخلوق ہے یا نہیں، اگر یہ مخلوق نہیں تو انہوں نے اللہ اور اس کے صفات کے علاوہ کسی اور چیز کا اقرار کرلیا جو موجود تو ہے لیکن اللہ کا مخلوق نہیں ، جبکہ اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں اللہ خالق کل شئیعنی اللہ ہرچیز کا خالق ہے ، اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے خود کو مشرق ومغرب کا رب کہا ہے جب اللہ مشرق ومغرب کا رب ہے تو یقینا یہ معلوم ہوا کہ اللہ تمام جہات کا خالق اور رب ہے کیونکہ مشرق ومغرب بہی جہات ہیں ، اور اگر یہ لوگ کہیں کہ ہاں یہ فاصلہ اور خلاء بہی مخلوق ہے تو سوال پیدا ہوتا ہےکہ اس فاصلے اور خلاء سے اللہ "کس چیز کے ذریعے جدا ہے " اگر اس کے لیے کوئی اور فاصلہ فرض کریں تو پہر اسی فاصلے میں بھی اسی طرح کلام ہوگا وہلم جرا الی ما لا نہایة لہ ،، تو معلوم ہوا ان کی یہ بات بالکل صریح البطلان ہے جبکہ اس فرجت اور خلاء کا کوئی نام و نشان قران وحدیث میں نہیں ہے یہ صرف انہوں نے اپنے خیال ووہم سے ثابت کیا۔

فَالشَّيْءُ أَبَدًا مَوْصُوفٌ لَا مَحَالَةَ وَلَا شَيْءٌ يُوصَفُ بِلَا حَدٍّ وَلَا غَايَةٍ وَقَوْلُكَ: لَا حَدَّ لَهُ يَعْنِي أَنَّهُ لَا شَيْءٌ.
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: وَاللَّهُ تَعَالَى لَهُ حَدٌّ7 لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ غَيره
(نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي العنيد فيما افترى على الله عز وجل من التوحيد (1/ 223)
عثمان بن سعید ایک اور جگہ کہتا ہے کہ ہر چیز کو لازما حد اور غایت یعنی انتہاء کے ساتہ موصوف کیا جاتا ہے اور جب تم کہتے ہو اللہ کے لیے حد نہیں تو اس کا مطلب ہے اللہ کوئی چیز ہی نہیں استغفراللہ 
آگے لکھتا ہے کہ ابوسعید [یعنی وہ خود ] کہتا ہے کہ اللہ کے لیے حد موجود ہے مگر وہ اس کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں۔ 
واضح رہے یہاں دو باتیں معلوم ہوئیں،،، ایک تو یہ کہ اس شخص کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے لیے حد ہے اور حد سے اس کا کیا مراد ہے وہ اس نے حد کے بعد غایة کا لفظ ذکرکرکے واضح کردیا کہ حد سے مراد اس کا انتہاء ہے جبکہ یہ عقیدہ علمائے اہل سنت کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ امام طحاوی ؒ نے العقیدة الطحاویہ میں ذکر کیا تعالی عن الحدود والغایات ولارکان والاعضاء والادوات کہ اللہ عزوجل حدود وغایات سے پاک ہے۔

کیا کتاب و سنت میں حد پر کوئی دلیل ہے ؟
عثمان بن سعید جس سے ابن تیمیہ نے جگہ  جگہ عقیدہ اخذ کیا ہے لکھتے ہیں:
فَمَنِ ادَّعَى أَنَّهُ لَيْسَ لِلَّهِ حَدٌّ فَقَدْ رَدَّ الْقُرْآنَ، 
اللہ کیلئے حد کا انکار کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے۔
(افترى على الله عز وجل من التوحيد ج 1 ص 225)
حد سے جو کچھ یہ لامذہبی ثابت کرتے ہیں اگر واقعی میں وہ حق ہوتا اور کتاب و سنت میں اس پر واقعی میں کوئی دلیل ہوتی تو یہ اللہ کی صفت ہونی چاہئے تھی مگر
فرقہ لامذہبیہ کے ایک اور شیخ صاحب جنہوں نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ حد اللہ کی صفت نہیں۔
الحد ليس صفة من صفات اللہ تعالٰي
حد اللہ تعالٰی کی صفات میں سے کوئی صفت نہیں
(اثبات الحد ص 30)

علاوہ فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کے دوسرے شیخ البانی صاحب کہتے ہیں:
وليس فيه مايشهد لذالك من الكتاب والسنة
  (فہرس مخطوطات دار الکتب الظاہریه ص 376)
کتاب و سنت میں حد پر کوئی شواہد موجود نہیں۔
دارمی کہتا ہے کہ حد کا انکار کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے اور البانی کہتا ہے کہ حد کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ افسوس ہے کہ ان کی جاہل  عوام پر جنہوں نے ایسوں کو اپنے عقائد سپرد کر رکھے ہیں۔
افسوس  کہ اس کے باوجود  غالبا ً ابن تیمیہ دارمی سے نقل کرتا ہے  یا خود ابن تیمیہ لکھتا ہے کہ
فهذا كله وما اشبهه شواهد و دلائل علي الحد  ومن لم يعترف به فقد كفر
جو شخص حد پر ان شواہد و دلائل (جن کا کوئی وجود ہی نہیں) کے بعد بھی اس کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔
(بیان تلبیش الجہمیہ ج 3 ص 689)
نعوذ باللہ من ذالک

عثمان بن سعید الدارمی  کا تعارف
موسوعة العلامة الامام مجدد العصر محمد ناصرالدین الالبانی
 نامی کتاب میں البانی کے اقوال جمع کیے ہیں جس میں ایک باب باندہا ہے
باب الدارمی مغال فی الاثبات مع امامتہ فی السنة
یعنی الدارمی صفات کے اثبات میں غلو کرنے والے ہیں اگرچہ وہ حدیث میں امام ہے۔
آگے دیکھتے ہیں کہ یہ غلو کیسی ہے آیا غلو ہے یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور چیز
ناصرالدین البانی کہتا ہے :
لاشک فی حفظ الدارمی وامامتہ فی السنة،ولکن یبدو من کتابہ "الرد علی المریسی "انہ مغال فی الاثبات فقد ذکر فیہ ما عزاہ الکوثری الیہ[ای الی الدارمی ]من القعود والحرکة
والثقل ونحوہ وذلک مما لم یرد بہ حدیث صحیح وصفاتہ تعالی توقیفیة فلا تثبت لہ صفہ بطریق اللزوم مثلا کان یقال یلزم من ثبوت مجیئہ تعالی ونزولہ ثبوت الحرکة فان ہذا
ان صح بالنسبة للمخلوق فاللہ لیس کمثلہ شئ فتامل
یعنی البانی کہتا ہے کہ :
 دارمی کے حفظ اور حدیث میں امامت بارے کوئی شک نہیں لیکن اس کے کتاب الرد علی المریسی سے لگتا ہے کہ یہ شخص اثبات [صفات باری تعالی ] میں غلو سے کرنے والا ہے کیونکہ اس نے اس کتاب میں وہی چیزیں ذکر کی ہیں جو [علامہ] کوثری نے اس کی طرف منسوب کی ہیں یعنی [اللہ
تعالی کا ] بیٹھنا ، حرکت کرنا اور ثقل وبوجہ [بھاری پن ] وغیرہ جس پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی اور اللہ کی صفات توقیفی ہیں لہذا وہ کسی لزومی طریقے سے ثابت نہیں ہوسکتے مثال کے طور کوئی کہے کہ اللہ تعالی کے آنے یا نزول کرنے سے اس کی حرکت ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ بات مخلوق کی نسبت اگرٹھیک ہے تو للہ تو کسی چیز کی طرح نہیں ہے (لہذا اللہ پر یہ جائز نہیں)
یہاں کئی چیزیں واضح ہیں الدارمی ایسے چیزوں کا اثبات اللہ کے لیے کرتا ہے جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں ہوتی ، اور یہ غلو نہیں بلکہ جھوٹ سےکام لینا ہے کیونکہ بات صفت باری تعالی میں ہورہی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ البانی دلالت التزامیہ سے کسی صفت کے اثبات کو منع بتارہا ہے۔
نوٹ:  یہ سنن  دارمی والے محدث نہیں کوئی اس مغالطے میں نہ پڑے۔

حد پر فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کے دلائل اور ان کے جوابات
جیسا کہ معلوم ہو گیا کہ کتاب و سنت میں حد پر کوئی بھی دلیل نہیں مگر اس کے باوجود لامذہبی چند مبہم اقوال کو لے کر جمہور امت کے خلاف اس سے اپنے عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔

لامذہبی سلفی اس سلسلے میں جن غیرمعصوم امتیوں کے اقوال کا سہارہ لیتے ہیں ان میں ایک قول امام عبداللہ بن مبارک ؒ کا ہے دوسرا امام اسحق بن راہویہؒ کی طرف مسائل حرب بن اسماعیل بن خلف الکرمانی نے نقل کیا ہے ، ان دو اقوال کی تحقیق آپ کی خدمت میں عرض ہے
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی طرف منسوب قول :
ان کے قول کے چند مصادر میں سے ایک الاسماء والصفات للبیہقی ، عثمان بن سعید الدارمی کی النقض اور الرد علی الجہمیہ اور السنة لعبداللہ بن الامام احمد ہیں
عثمان بن سعید کی روایات پر تو کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ان کے عقیدے میں واضح خلل ہے جس کے بارے ہم نے متعدد جگہ تفصیل سے بات کی ہے ،اسی طرح السنة لعبداللہ مسلسل دو مجہول راویوں پر اس کی سند مشتمل ہونے کی وجہ سے پوری کتاب ہی مشکوک ہے جبکہ کتاب بہت سے عجیب وغریب روایات پر مشتمل ہےجن سے انتہائی پست عقائد ثابت ہوتے ہیں
باقی رہی امام بیہقی ؒ کی کتاب تو اس میں یہ اثر دو سندوں کے ساتہ موجود ہے ایک امام حاکم ، ابراہیم بن محمد البخاری ، عبدالعزیز بن حاتم ،علی بن الحسن بن شقیق
اس سند میں محقق عبد اللہ بن محمد الحاشدی کتاب  کتاب الاسما واصفات للقبیہقی ص 335کہتا ہے کہ عبدالعزیز بن حاتم لم اقف علی ترجمتہ ،کہ عبدالعزیز بن حاتم کا ترجمہ مجہے نہیں ملا ، مگر خطیب نے اس کو ان سے پہلے کے راوی ابراہیم بن محمد کا استاد لکہا ہے
اب جب محقق کتاب کو خود ان کا ترجمہ ہی نہیں ملا تو اس کی توثیق کہاں ملی ہوگی محض یہ بات کہ خطیب نے ان کو ابراہیم کے شیوخ میں شمار کیا ہے کونسی توثیق ہے ؟ ایسی باتوں سے غیر مقلدین کے اصول کے مطابق کوئی توثیق ثابت نہیں ہوتی لہذا یہ راوی مجہول الحال ہے۔
دوسری سند میں محمد بن نعیم ہے جس کے بارے محقق کتاب نے دو احتمال ظاہر کیے ہیں ایک یہ کہ یہ شاید الجرمی ہو اگر یہ محمد بن نعیم الجرمی ہے تو ان کے بارے ابن ابی حاتم رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے ان سے لکہا ہے لیکن اس کے بارے کوئی جرح وتعدیل بیان نہیں کی تب یہ بہی مجہول ہوا
دوسرا احتمال یہ کہ شاید اس سے مراد محمد بن نعیم ابوالفضل البخاری ہو اس کو خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے لیکن اس کے بارے بہی نہ جرح ہے نہ تعدیل تو یہ بہی مجہول ہوا
تب دونوں اسناد مجہول راویوں پر مشتمل ہیں اور اس بنیاد پر اسی محقق کا باوجود ان علتوں کے اس سند کو صحیح کہنا بالکل غلط ہے۔

لامذہبی سلفی اپنے باطل عقیدے پر جو چند مبہم قول پیش کرتے ہیں
ابن مبارکؒ کا    قول
امام عبداللہ بن مبارک ؒ کا قول یہ ہے : سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہ بْنَ الْمُبَارَک قُلْتُ: کیفَ نَعْرِفُ رَبَّنَا؟ قَالَ: فِی السَّمَاءِ السَّابِعَةِ عَلَى عَرْشِہ. قُلْتُ: فَإِنَّ الْجَہمِیةَ تَقُولُ: ہوَ ہذَا. قَالَ: إِنَّا لَا نَقُولُ کمَا قَالَتِ الْجَہمِیةُ، نَقُولُ: ہوَ ہوَ. قُلْتُ: بِحَدٍّ؟ قَالَ: إِی وَاللَّہ بِحَدٍّ
راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن المبارک ؒ سے پوچھا کہ کس طرح ہم اپنے رب کو پہچانیں گے اس نے کہا کہ ساتویں آسمان پر عرش پر ، میں نے کہا کہ جہمیہ کہتے ہیں کہ وہ یہیں ہے ، انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح نہیں کہتے جس طرح جہمیہ کہتے ہیں بلکہ وہ وہ ہے میں نے کہا یہ بات حد سے ہے اس نے کہاہاں قسم خدا کی حد سے ہے امام عبداللہ بن مبارک نے بحد تو کہا لیکن حد کی نسبت اور اضافت کہیں بھی اللہ کی طرف نہیں کی کہ اللہ کے لیے حد ہے جیسا کہ دارمی نے صراحتا کیا بلکہ کہا کہ یہ بات حد کےساتھ ، آگے
 امام بیہقی ؒ اس کا  دو ٹوک جواب دیتے ہیں  جس سے تمام لامذہبیت کی کمر ٹوٹ جاتی ہے
إِنَّمَا أَرَادَ عَبْدُ اللَّہ بِالْحَدِّ حَدَّ السَّمْعِ، وَہوَ أَنَّ خَبَرَ الصَّادِقِ وَرَدَ بِأَنَّہ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى، فَہوَ عَلَى عَرْشِہ کمَا أَخْبَرَ، وَقَصَدَ بِذَلِک تَکذِیبَ الْجَہمِیةِ فِیمَا زَعَمُوا أَنَّہ بِکلِّ مَکانٍ، وَحِکایتُہ الْأُخْرَى تَدُلُّ عَلَى مُرَادِہ وَاللَّہ أَعْلَمُ
(الاسماء والصفات للبیقہی  ج 2 ص 335)
کہ حد سے ان کی مراد حد السمع ہے یعنی کیا اللہ کا عرش پر ہونا سماع پر موقوف ہے اس نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم ،،،یعنی خبر صادق اس بات پر وارد ہوئی ہے کہ اللہ عرش پر ہے ،،اور اس بات سے انہوں نے جہمیہ کی تکذیب کرنا چاہی کہ ان کے ہاں اللہ کل مکان ہے یعنی ہرجگہ ہے اور ان کی دوسری روایت اس پر دلالت کرتی ہے ۔
(ابن مبارکؒ کی طرح باقی بھی چند اقوال ایسے ہی مبہم ہیں یا  وہ سندً صحیح ثابت نہیں بس یہی کھوٹے سکے جمع ہیں لامذہبیہ کے پاس جس سے وہ جمہور اہلسنت کو کافر قرار دیتے ہیں)

یہاں مخالفین اس بات پر خوب ناچتے ہیں کہ امام بیہقی ؒ نے اللہ کو ہرجگہ کہنے کا عقیدہ جہمیہ کا کہا اور امام عبداللہ بن مبارک ؒ ان پر رد کررہے ہیں لیکن ان کی یہ خوشیاں آگے امام بیہقی کی عبارت سے ختم ہوجاتی ہے جیسا کہ آگے آرہی ہے ، امام بیہقی ؒ نے امام عبداللہ بن مبارک کی دوسری حکایت بھی پیش کی ہے جس سے ان کی مراد واضح کرنے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے
سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہ بْنَ الْمُبَارَک، یقُولُ: نَعْرِفُ رَبَّنَا فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ، عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى، بَائِنٌ مِنْ خَلْقِہ، وَلَا نَقُولُ کمَا قَالَتِ الْجَہمِیةُ بِأَنَّہ ہہنَا. وَأَشَارَ إِلَى الْأَرْضِ. قُلْتُ: قَوْلُہ: «بَائِنٌ مِنْ خَلْقِہ» . یرِیدُ بِہ مَا فَسَّرَہ بَعْدَہ مِنْ نَفْی قَوْلِ الْجَہمِیةِ لَا إِثْبَاتِ جِہةٍ مِنْ جَانِبٍ آخِرَ، یرِیدُ مَا أَطْلَقَہ الشَّرْعُ وَاللَّہ أَعْلَمُ
ترجمہ : ”میں نے ابن مبارک ؒ سے سنا کہ ہم اپنے رب کی معرفت سات آسمانوں سے اوپر ہونے پر کرتے ہیں وہ عرش پر مستوی ہے مخلوق سے جدا ہے اور ہم جہمیہ کی طرح نہیں کہتے کہ وہ یہاں ہے انہوں نے زمین کی طرف اشارہ کیا
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ وہ مخلوق سے جدا ہے اس کا مطلب وہی ہے جو انہوں نے بعد میں جہمیہ کے قول کی نفی کی صورت میں بیان کیا نہ کہ اللہ کے لیےدوسری سائیڈ“ سے جہت کا اثبات یعنی جو چیز شریعت نے مطلقا بغیر کسی تفصیل و وضاحت کے بیان کی ہے وہ مراد ہے “۔
(کتا ب الاسماء والصفات ص 336)

یہاں جو چیزیں ملحوظ ہیں وہ ہم بیان کرتے ہیں
جہمیہ اللہ کو ہر جگہ کہتے ہیں اس سے مراد مخلوق کے ساتھ اللہ کا مخلوط ہونا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ یہاں زمین پر ہے مخلوق کے ساتھ مخلوط ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ نے اس کے بعد جہم کا عقیدہ نقل کیا ہے کہ وہ اللہ کو مخوق کے ساتھ بالکل مکس اور مخلوط شدہ کہتا تھا حتی خدا کو ہوا سے تعبیر بھی کیا کرتا تھا جیسا کہ لکھا ہے ہوَ ہذَا الْہوَاءُ مَعَ کلِّ شَیءٍ وَفِی کلِّ شَیءٍ وَلَا یخْلُو مِنْ شَیءٍ،،لہذا ہم جو اللہ جل شانہ کو ہرجگہ حاضر ناظر مانتے ہیں اس میں اور ہم بہت فرق ہے لہذا کسی کو ان لافظ پر زیادہ ناچنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 نوٹ: اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔
دوسری بات : جہمیہ اللہ کو کل مکان یعنی ہر جگہ کہتے تھے لیکن زمین پر ،،، آسمان پر وہ بھی لامذہبیہ  کی طرح انکار کرتے تھے
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵۵۶۷):صحیح)
سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے
پس معلوم ہوا کہ لامذہبی بھی ادھے جہمیہ ضرور ہیں۔
امام بیہقی ؒ کا ایک اور رد  جو انہوں نے کیا  کہ
لَا إِثْبَاتِ جِہةٍ مِنْ جَانِبٍ آخِرَ
”کہ امام عبداللہ ؒ نے جو کہا کہ کہ وہ عرش پر ہے مخلوق سے جدا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دوسری سائیڈ سے اللہ کے لیے جہت ثابت کررہے ہیں“
سوال یہ ہے کہ پہلی سائیڈ کون ثابت کررہا ہے جو کہ امام عبداللہ سے دوسری سائیڈ میں جہت کے اثبات کی نفی کی جارہی ہے ؟
تو جناب پہلے جہمیہ کی بات ہوئی کہ وہ خدا کو صرف زمین پر مانتے ہیں انہوں نے اللہ کے لیے نیچے کی سمت ثابت کی ، کیونکہ آسمان وعرش پر وہ نہیں مانتے ، تو اب یہ انہوں نے کہا کہ امام عبداللہ جو کہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہمیہ کے رد میں دوسرے سائیڈ میں یعنی اوپر کی سائیڈ میں وہ خود جہت کا اثبات کررہے ہیں بلکہ وہ صرف جہمیہ پر رد کرنا چاہ رہے ہیں ۔
اس سب تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ   جہمیہ اللہ کو صرف زمین پر ہرجگہ مانتے ہیں کیونکہ اوپر کی جہت یعنی آسمان و عرش پر وہ لوگ نفی کررہے ہیں ،،،جبکہ ہم اللہ عزوجل کو کسی بہی ایک جہت میں محدود ہرگز نہیں مانتے والحمدللہ
سب سے  اہم بات یہ ہے کہ ابن مبارکؒ کا اہلسنت ہونا یقینی ہے اور اہلسنت کی متفق علیہ کتاب عقیدہ طحاویہ جس میں امام  عبد اللہ بن مبارکؒ کے استاد حضرت امام ابو حنیفہؒ  کا عقیدہ لکھا ہے میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ
وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات
اللہ عزوجل حدود و قیود اور جسمانی رکان و اعضا و آلات سے پاک ہے اور جھات ستہ (اوپر نیچے دائیں بائیں اگے پیچھے) سے پاک ہے“۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)
امام طحاویؒ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں تمام اہلسنت والجماعت کے عقائد اور تین مجتہدین جن میں سے مجتہد مطلق امام ابو حنیفہؒ ، مجتہد فی المذہب امام ابو یوسفؒ ، مجتہد فی المذہب امام محمد بن الحسن شیبانیؒ   ہیں انکے عقائد نقل کرتے ہیں۔ اور  یہ تمام اہلسنت والجماعت کی متفق علیہ کتاب ہے۔

هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين

یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان هے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 7)
اس کے علاوہ فقہ اکبر میں امام ابو حنیفہؒ کا ایک اور قول بھی موجود ہے کہ :
بِلَا جسم وَلَا جَوْهَر وَلَا عرض وَلَا حد لَهُ وَلَا ضد لَهُ وَلَا ند لَهُ وَلَا مثل لَهُ (الفقه الاكبر ص۲۶)  
اس کا کوئی جسم نہیں اور نہ ہی وہ عرض ہے اور اسی طرح اس کی کوئی حد نہیں نہ ضد ہے اور نہ ہی  کوئی اس کے برابر اور اس جیسا ہے۔
فقہ اکبر میں  شروع میں  امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
أصل التَّوْحِيد وَمَا يَصح الِاعْتِقَاد عَلَيْهِ يجب
(یہ مختصر رسالہ) توحید اور ایسے مسائل کی حقیقت  کے بیان میں ہے جن پر ایمان رکھنا لازم ہے۔
(مترجم الفقه الكبر ص 25 عبد الحمید سواتیؒ)
ان کے علاوہ دیگر تابعینؒ بھی اللہ تعالٰی کیلئے حد کا کوئی اثبات نہیں کرتے تھے اور ہم بھی نہیں کرتے الحمدللہ ۔
أَ کانَ سُفْیانُ الثَّوْرِی وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَیدٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَشَرِیک وَأَبُو [ص:335] عَوَانَةَ لَا یحِدُّونَ  
”  امام سفیان ثوری ا مام شعبہ امام حماد بن زید ، حماد بن سلمہ امام شریک اور امام ابوعوانہ رحمہم اللہ اللہ تعالٰی کی حد ثابت نہیں کرتے تھے
(الأسماء والصفات للبیہقی (2/ 334)

امام بیہقیؒ اگے فرماتے ہیں:
وَعَلَى ہذَا مَضَى أَکابِرُنَا
اسی پر ہمارے اکابر (جو کہ ان گنت ہیں) بھی گزرے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر سلف صالحین نے بھی حد کی نفی کی ہے۔
أبو عبد الله عبيد الله بن محمد بن محمد بن حمدان العُكْبَري المعروف بابن بَطَّة العكبري (المتوفى: 387هـ)
ليْسَ كمثله شَيْء كَمَا وصف نَفسه سميع بَصِير بِلَا حد وَلَا تَقْدِير
(الابانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ3/327)

عبيد الله بن سعيد بن حاتم السجزيّ الوائلي البكري، أبو نصر (المتوفى: 444هـ)
فمن العرش إلى ما تحت الثرى محدود والله سبحانه5 فوق ذلك بحيث لا مكان ولا حد، لاتفاقنا أن الله سبحانه6 كان ولا مكان
(رسالۃ السجزی الی اھل زبیدفی الرد علی من انکر الحرف والصوت1/196)


طاهر بن محمد الأسفراييني، أبو المظفر (المتوفى: 471ھ)
وَأَن تعلم أَن خَالق الْعَالم لَا يجوز عَلَيْهِ الْحَد وَالنِّهَايَة
(التبصیرفی الدین1/158)

 وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان[الثقات (1/ 1)]

وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.[مشكل الحديث (ص/ 57)]

وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ( التبصير في الدين (ص/ 161)

وقال القاضي أبو بكر بن العربي المالكي . الأندلسي (543 هـ) ما نصه
" البارى تعالى يتقدس عن ان يحد بالجهات أو تكتنفه الأقطار"
[القبس في شرح موطأ مالك بن انس (1/396)]

  وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء
(660 ص) ما نصه
"ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
[طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219)]

کیا یہ جنہوں نے حد کی نفی کی وہ سب حلولی ہوئے؟

اب ان کے پوچھا جائے کہ کیا یہ حد غیر اللہ ہے اگر غیر اللہ ہے تو اللہ اور مخلوق کے درمیان ایک اور غیر اللہ مخلوق کا وجود ہے اب اس مخلوق سے جدائی کیلئے کیا اللہ کو اور کسی حد کی ضرورت ہوگی؟
اگر ابن المبارک ؒ کے ہاں حقیقی حد کا اثبات اللہ کے لیے مراد نہیں جو ذات کے انتہاء کو مستلزم ہے اور جس سے حسی دوری ثابت ہوتی ہے تو پھر ابن لمبارک ؒ کا یہ قول اہل سنت کے ساتھ محض لفظی اختلاف ہے جو کہ مضر نہیں ہے صرف الفاظ کی غلط فہمی ہے جبکہ یہی بات لامذہبی ابن تیمیہ اور الدارمی وغیرہ کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے کیونکہ وہاں یہ خود حد کی مراد متعین کرچکے ہیں کہ اس سے مراد فاصلے کی دوری ہے لہذا یہ لامذہبی ابن المبارک ؒ  یا ان جیسا قول بھی اپنی دلیل میں پیش نہیں کرسکتے جب تک ان سے بہی وہی تشریح ثابت کرلیں۔
چونکہ  یہ لامذہبی خود ہی حد کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ حد کا معنی ہے کہ اللہ اور مخلوق کے درمیان جدائی جسے ہم بھی مانتے ہیں لیکن ایسے نہیں جیسے کہ یہ لامذہبی تو ان کو چاہئے کہ یہ لامذہبی جس سے بھی حد کا قول نقل کریں اس سے حد کی تشریح بھی نقل کریں جو لامذہبی خود کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ وہ کس حد کا قائل ہے اگر پہلے والی حد مخلوق اور اللہ کے درمیان جدائی کی بات کرتا ہے تو یہ قول مبہم ہو گا پھر ہمارا ان کے ساتھ صرف لفظ کا اختلاف رہ جائے گا کیونکہ مخلوق اور اللہ کےدرمیان جدائی کے ہم بھی قائل ہیں مگر  مضبوط اور قوی دلائل کی روشنی میں حد ہونے کا اثبات قطعاً  نہیں کرتے۔

مسافت اور اللہ کا مخلوق سے بائن ( جدا) ہونا
کیا اللہ اور مخلوق کے درمیان مسافت (فاصلہ کی دوری) ہے؟
پہلے گزر چکا کہ لامذہبی اللہ کیلئے  فاصلے کے ساتھ دوری کے قائل ہیں جبکہ  اہلسنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ
اللہ اور مخلوق کے درمیان  مسافت نہیں کہ پہلے اللہ دور تھا پھر فاصلے کے ساتھ قریب ہو گیا یا پہلے قریب تھا پھر فاصلے کے ساتھ دور ہو گیا۔

مجتہد مطلق حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
وَلَيْسَ قرب الله تَعَالَى وَلَا بعده من طَرِيق طول الْمسَافَة
اللہ تعالٰی کا قرب اور بعد مسافت کی درازی اور کوتاہی کے طریق پر نہیں
 (الفقہ الکبر باب معنى الْقرب والبعد)
امام ابو حنیفہؒ نے ان پر رد کیا ہے جو کہ ظاہری معنی لے کر گومتے ہیں کوئی بھی اللہ کے قرب کی یہ مراد لے سکتا ہے کہ پہلے اللہ فاصلے کے ساتھ دور تھا پھر قریب ہو گیا اور کوئی بھی بعد کا معنی یہ لے سکتا ہے کہ پہلے اللہ  فاصلے کے ساتھ قریب تھا پھر دور ہو گیا۔

امام ابو حنیفہؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
والله تعالى يُرى في الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة"
”االلہ تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہونگے، بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور اللہ اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہوگی“۔
 (الفقہ الاکبر باب رُؤْيَة الله فِي الْآخِرَة)

امام بيهقي ؒ الاسماء والصفات ميں علامه حليمي ؒكے حوالے سے اهل سنت كا نظريه نقل كرتے هيں كه اللہ اور  بندے کے درمیان مسافت نہیں اور الله كي ذات نهايت سے پاك هے 
وَرَوَاهُ خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَزَادَ فِيهِ «إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ» 
قَالَ الْحَلِيمِيُّ: وَمَعْنَاهُ أَنَّهُ لَا مَسَافَةَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَهُ فَلَا يَسْمَعُ دُعَاءَهُ أَوْ يَخْفَى عَلَيْهِ حَالُهُ , كَيْفَ مَا تَصَرَّفَتْ بِهِ ,
فَإِنَّ ذَلِكَ يُوجِبُ أَنْ يَكُونَ لَهُ نِهَايَةً , وَحَاشَا لَهُ مِنَ النِّهَايَةِ ,

(الأسماء والصفات للبيهقي (1/ 112)
اگر بنده اور اس كے رب كے مابين مسافت مان لي جائے تو يه الله كي ذات كے ليے انتهاء اور نهايت ثابت كرتا هے اور الله اس سے پاك جيسا كہ امام بيهقي ؒ نے اهل سنت كا مسلك نقل فرمايا ۔

کیا اللہ کا مخلوق سے بائن (جدا) ہونا فاصلے کی دور کے ساتھ ہے؟
بائن الخلقۃ کا معنی
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
اللَّهَ مُسْتَوٍ عَلَى عَرْشِهِ وَأَنَّهُ فَوْقَ الْأَشْيَاءَ بَائِنٌ مِنْهَا، بِمَعْنَى أَنَّهَا لَا تَحُلُّهُ وَلَا يَحُلُّهَا، وَلَا يَمَسُّهَا وَلَا يُشْبِهُهَا، وَلَيْسَتِ الْبَيْنُونَةُ بِالْعُزْلَةِ تَعَالَى
اللہ عرش پر مستوی ہےاور تمام چیزوں سے اوپر ان سے جدا ہے اس (قول) کا یہ مطلب ہے کہ کوئی چیز اللہ میں حلول نہیں ،اللہ کسی چیز میں حلول نہیں، نہ وہ ان کو مس کرتا ہے نہ ان کے مشابہ ہے یہ نہیں کہ اللہ کی جدائی (مخلوق سے) فاصلے کی دوری سے ہے“۔
(جیسے آج کے جاہل لامذہبی کہتے ہیں)
(الأسماء والصفات للبيهقي ج 2 ص 309)

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں  :
قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَقُهِرَ غُلِبَ. وَمَعْنَى (فَوْقَ عِبادِهِ) فَوْقِيَّةُ الِاسْتِعْلَاءِ بِالْقَهْرِ وَالْغَلَبَةِ عَلَيْهِمْ، أَيْ هُمْ تَحْتَ تَسْخِيرِهِ لَا فَوْقِيَّةَ مَكَانٍ
(تفسیر قرطبی ج 3 ص 399)
اللہ تعالٰی کا ارشاد وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ
فوق عبادہ غلبہ کے ساتھ فوقیت مراد ہے یعنی کہ تمام بندے اس کے حکم کے تحت مسخر ہیں فوقیت سے فوقیت مکانی مراد نہیں ہے“۔
امام قرطبیؒ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
وَ (الْعَلِيُّ) يُرَادُ بِهِ عُلُوُّ الْقَدْرِ وَالْمَنْزِلَةِ لَا عُلُوُّ الْمَكَانِ، لِأَنَّ اللَّهَ مُنَزَّهٌ عَنِ التَّحَيُّزِ. وَحَكَى الطَّبَرِيُّ عَنْ قَوْمٍ أَنَّهُمْ قَالُوا: هُوَ الْعَلِيُّ عَنْ خَلْقِهِ بِارْتِفَاعِ مَكَانِهِ عَنْ أَمَاكِنِ خَلْقِهِ. قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَهَذَا قَوْلُ جَهَلَةٍ مُجَسِّمِينَ
( تفسیر قرطبی ج 3 ص 278)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں
العليۙ“ اس سے مراد قدر و منزلت کی بلندی ہے نہ کہ جگہ و مکان کی بلندی کیونکہ اللہ جگہ و مکان سے پاک ہے، علامہ طبریؒ نے ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے بلند ہے کیونکہ اس کا مکان و جگہ مخلوق کی جگہ و مکان سے بلند ہے ، ابن عطیہؒ نے کہا یہ جاہل مجسمیوں کا قول ہے“۔
 کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بے عین یہی کچھ فرقہ  لامذہبیہ سلفیہ لوگوں کو بتاتا اور ثابت کرتا ہے  اور اس سے وہ انکار بھی نہیں کر سکتے کہ ہم یہ کچھ نہیں کہتے ۔
یہ بھی معلوم  ہو گیا کہ مجسمیہ اور فرقہ سلفیہ کے عقائد ایک ہیں اور فرقہ سلفیہ اس سے بھاگ نہیں سکتا ہے کہ وہ اس زمانے کے مجسمی ہیں۔

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:
وقالت المجسمة :فعلو المسافة وبعد المقدار و محاذاة الاجرام تعالي الله عن قولهم
اور مجیسمہ کہتے ہیں کہ اللہ کا علو ، علو مسافت ہے اور مقدار کی دوری ہے اور اجسام کے مقابل ہونا ہے اللہ ان کی بیان کردہ باتوں سے پاک ہے۔

(كتاب الاسني في شرح اسماء الله الحسني ص 147)