غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday, 6 December 2015

Hadees e Jariya Allah Kahan Ha Ki Sahih Tashreh


حدیث جاریہ (این اللہ) کی صحیح تشریح

قَالَ وَکَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَی غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ لَکِنِّي صَکَکْتُهَا صَکَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا قَالَ ائْتِنِي بِهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ
راوی معاویہ کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا ہے آخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1194 )

فر قہ  اہل حدیث جو اپنے آپ کو سلفی  بھی کہتے ہیں ان کا موقف ہے کہ یہ لفظ (اين الله) اللہ کے مکان اور جہت کے متعلق سوال تھا  سننے خود فرقہ اہل حدیث کے  موجودہ دور میں ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن کی زبانی جس اس کا فرقہ فضلۃ الشیخ اور  اللہ جانے  کیا کیا کہتا ہے۔
اگر یوٹیوب نہ کھلے تو اس لنک میں جائیں

فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب  بھی اللہ کیلئے جہت کے قائل ہیں۔
(مجموعہ رسائل عقائد ج 3 ص 147)

نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور س کا مکان عرش ہے۔
(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)

امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ عقائد میں پوری طرح سے سلفی تھے
تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء ص 385))

رئیس ندوی جنہیں فرقہ اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)

داؤد ارشد صاحب غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں
”بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید ص 162)

اور غیرمقلدین اپنے آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل  بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ  وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیرمقلد تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث   سے جان چھڑانے کیلئے  اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ  ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 صفحہ 77)

اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ  لامذہب فرقہ اللہ کیلئے جھت کا اثبات کرتا ہے  اور جھت کا اثبات  اسی طریقے سے ہوتا ہے جو یہ استعمال کرتے ہیں یا  کوئی سپیشل طریقہ ہوتا ہے جہت کا اثبات کرنے کا؟ اب ان میں سے کوئی زبان سے یہ کہتا بھی رہے کہ میں جھت نہیں مانتا میں جھت نہیں مانتے اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ کوئی اگر اندر سے پکا مشرک ہو اور   عمل بھی واضح طور پر شرکیہ کرتا رہے اور زبان سے کہتا رہے میں مشرک نہیں میں مشرک نہیں تو آپ اسے موحد کہیں گے؟

عقیدہ اہلسنت
امام طحاویؒ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں تمام اہلسنت والجماعت کے عقائد اور تین مجتہدین جن میں سے مجتہد مطلق امام ابو حنیفہؒ ، مجتہد فی المذہب امام ابو یوسفؒ ، مجتہد فی المذہب امام محمد بن الحسن شیبانیؒ   ہیں انکے عقائد نقل کرتے ہیں۔

هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين

یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے ہیں اس کا ذکروبیان ہے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 7)

پھر اسی کتاب میں اگے فرماتے ہیں
 وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات
اللہ عزوجل حدود و قیود اور جسمانی رکان و اعضا و آلات سے پاک ہے اور جھات ستہ (اوپر نیچے دائیں بائیں اگے پیچھے) سے پاک ہے“۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)

این اللہ کی صحیح تشریح

شارح صحیح مسلم امام نوویؒ (المتوفٰی 676ھ) فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ تَقَدَّمَ ذِكْرُهُمَا مَرَّاتٍ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ بِهِ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهِهِ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقَاتِ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ امْتِحَانَهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ أَوْ هِيَ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ الْعَابِدِينَ لِلْأَوْثَانِ الَّتِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمَّا قَالَتْ فِي السَّمَاءِ عَلِمَ أَنَّهَا مُوَحِّدَةٌ وَلَيْسَتْ عَابِدَةً لِلْأَوْثَانِ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهُهُمْ وَمُحَدِّثُهُمْ وَمُتَكَلِّمُهُمْ وَنُظَّارُهُمْ وَمُقَلِّدُهُمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء أن يخسف بكم الأرض وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةِ فَوْقُ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ
أَيْ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ مِنْ دَهْمَاءِ النُّظَّارِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَأَصْحَابِ التَّنْزِيهِ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج5 ص 24-25 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
ترجمہ:
”اسے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ کہاں ہے؟ کہنے لگی آسمان میں
یہ صفات والی احادیث میں سے ہے اور اس میں دو مذہب ہیں
 ایک یہ کہ اعتقاد رکھنا اسکے معنی میں غور کئے بغیر کہ اللہ تعالٰی جیسا کوئی بھی نہیں اور وہ مخلوق کی صفات سے پاک ہے
 اور دوسرا یہ کہ اسکی کوئی تاویل پیش کی جائے جو اللہ کی شان کے لائق ہو
 پس جو یہ کہتے ہیں انکے نزدیک یہ اس عورت کے امتحان کیلئے تھا کہ یہ موحد ہے اقرار کرتی ہے کہ خالق مدبر فعال صرف اللہ اکیلا ہے، اور وہ یہ کہ جب دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف چہرہ کرتا ہے جیسا کہ نماز پڑھتا ہے تو کعبہ کی طرف منہ کرتا ہے، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالٰی اسی میں منحصر ہے(جیسا آج کا جاہل فرقہ سلفیہ کہتا ہے) بلکہ جیسے آسمان مانگنے والوں کا قبلۃ ہے کعبہ نمازیوں کا قبلۃ ہے
 قاضی عیاض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بڑوں یعنی فقہاء محدثین متکلمین انہی جیسے اور انکے مقلدین میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس طرح کی ظاہر نصوص جن میں اللہ تعالٰی کا آسمان میں ہونے کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء  اور اسی طرح کی نصوص اپنے ظاہر پر نہیں ہیں بلکہ ان میں تاویل ہوتی ہے سب کے نزدیک
 پس محدثین فقہاء اور متکلمین میں سے جنہوں نے اوپر کی جہت کو مانا ہے متعین کرنے اور کیفیت کے بغیر، انہوں نے آسمان پر آسمان کے ساتھ تاویل کی ہے
اور جس نے متعین کرنے کی نفی کی اور جہت کا محال ہونا بتایا ہے اس نے سبحان وتعالى کے بارے میں“۔

امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی امام نوویؒ کی یہ بات نقل کی ہے۔

فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ النَّوَوِيُّ هَذَا مِنْ أَحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهُهُ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقِينَ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ بِهَذَا امْتِحَانُهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى لَهُ الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهِهِمْ وَمُحَدِّثِهِمْ وَمُتَكلِّمِهِمْ وَنُظَّارِهِمْ وَمُقَلِّدِهِمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْمُتَوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أأمنتم من فِي السَّمَاء وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ هِيَ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةَ فَوْقٍ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقه سُبْحَانَهُ
(حاشية السيوطي علي سنن النسائي ج3 ص 18)

امام نور الدين السنديؒ (المتوفى: 1138هـ) فرماتے ہیں
أَيْن الله قيل مَعْنَاهُ فِي أَي جِهَة يتَوَجَّه المتوجهون إِلَى الله تَعَالَى وَقَوْلها فِي السَّمَاء أَي فِي جِهَة السَّمَاء يتوجهون وَالْمَطْلُوب معرفَة أَن تعترف بِوُجُودِهِ تَعَالَى لَا اثبات الْجِهَة
ترجمہ
پوچھا گیا "این اللہ" (یعنی اللہ کہاں ہے) اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے والے کس جہت کی طرف متوجہ ہوں، اور (باندی کا جواب میں )کہنا "فی السماء" ( آسمان میں) یعنی آسمان کی جہت میں وہ لوگ متوجہ ہوں گے اور (اس سوال سے )مطلوب یہ جاننا ہے کہ وہ یعنی باندی اللہ تعالیٰ کے وجود کو جانتی ہے ، اِس سے (اللہ کی ذات کی) جھت کا اثبات کرنا نہیں“۔
(حاشية السندي على سنن النسائي ج3 ص18-19)

ہزاروں شاگردوں کے استاد اور  امام اہلسنت حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں
وَقوم نقصت عُقُولهمْ كأكثر الصّبيان والمعتوهين والفلاحين والأرقاء، وَكثير يزعمهم النَّاس أَنهم لَا بَأْس بهم، وَإِذا نقح حَالهم عَن الرسوم بقوا لَا عقل لَهُم، فَأُولَئِك يَكْتَفِي من إِيمَانهم بِمثل مَا اكْتفى رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من الْجَارِيَة السَّوْدَاء سَأَلَهَا " أَيْن الله " فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاء، إِنَّمَا يُرَاد مِنْهُم أَن يتشبهوا بِالْمُسْلِمين لِئَلَّا تتفرق الْكَلِمَة.
ترجمہ
”کچھ لوگ کم عقل ہیں جیسے اکثر بچے اور کم عقل لوگ اور کسان اور  باندی غلام ان میں سے بہت سوں کے بارے میں یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہیں لیک جب ان لوگوں  کے حال کی تحقیق کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رسول و رواج سے ہٹ کر یہ لوگ عقل سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایمان پر اس طرح سے اکتفا کیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے جب حبشن باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے  تو اس کے اس جواب پر کہ اللہ آسمان میں ہے اکتفا کیا“۔
(حجة الله البالغة ج1 ص 205 الناشر: دار الجيل، بيروت - لبنان)

 آپ کا مقصد اس لونڈی سے یہ معلوم کروانا تھا کہ وہ  ایک اکیلے اللہ کو  مانتی ہے یا نہیں اسلئے اللہ کے نبی نے اس لونڈی کے فہم کے مطابق ہی اس سے سوال کیا کیونکہ ہزاروں لاکھوں صحابہ نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا لیکن کہیں ثابت نہیں کہ آپ نے کسی ایک سے بھی یہ سوال کیا ہو۔

مزے کی بات یہ ہے کہ   ان یہ دلیل کیسے بن جبکہ   یہ فرقہ حقیقت میں اللہ کو تو آسمانوں میں مانتا ہی نہیں ہے آسمانوں کو ایسے ہی خالی مانتا ہے جیسا کہ جہمیہ مانتے ہیں

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
ترجمہ
سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح)

اگر اللہ صرف عرش پر ہی تھے تو اللہ کے نبی کبھی اتنی اہم بات سے اس لونڈی کو بےخبر نہ رکھتے اس لونڈی کو ضرور سمجھاتے کہ اللہ آسمانوں میں نہیں  صرف عرش پر ہے۔

اب انصاف کے ساتھ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ اگر یہ سوال جھت اور مکان کے متعلق تھا  جیسا کہ فرقہ لامذہبیہ کہتا ہے  تو ان اسلاف  کا کیا بنے گا جو  تقریباً 95 ٪ سے زیادہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ مکان و جھت سے پاک ہے۔
ملاحظہ ہو