غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Monday 8 June 2015

امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب ایک تحریف شدہ قول اور اس کی حقیقت

امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب ایک تحریف شدہ قول اور اس کی حقیقت
 کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ   سے پوچھا گیا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ آسمان میں ہے یا زمین میں تو امام صاحبؒ نے فرمایا وہ شخص کافر ہے   اللہ تعالٰی فرماتے ہیں  اللہ عرش پر مستوی ہوا۔۔۔۔ الخ
حالانکہ امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب یہ قول تحریف شدہ  ہے اور صریح  طور پر ان پر جھوٹ ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اصل قول یہ ہے کہ :
قَالَ ابو حنيفَة من قَالَ لَا اعرف رَبِّي فِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض فقد كفر وَكَذَا من قَالَ إِنَّه على الْعَرْش وَلَا ادري الْعَرْش أَفِي السَّمَاء اَوْ فِي الأَرْض
   فقہ الابسط، شرح الفقه الأكبر ص: 135 وغیرہ))
ابومطيع بلخي کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ اللہ نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا، اسي طرح جو کہتا ہے کہ اللہ عرش پر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھي کافر ہے۔
 ملاحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ اللہ کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں، اللہ تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي، پھر اگر وہ شخص کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر کيا،، اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں کافر ہے،تو امام بياضي اور فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم اللہ دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي بات کي طرف ہے کيونکہ جب وہ اللہ کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين پر تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت کا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے يا زمين پر تب ايسے شخص نے اللہ کے ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور اللہ کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔
،اور ايسا کہنے والا اللہ کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پر مانتا ہے تو آسمان پر نفي کرتا ہے اور يہ بات اللہ کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے
اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ ملا علي قاري رحمہ اللہ حل الرموز ميں ملک العلماءشيخ عزالدين بن عبدالسلام الشافعي رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ يہ قول اللہ جل جلالہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديتا ہے تو اس بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا
يعني اللہ سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر اللہ کے وجود کے ليےمکان لازم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
اور امام ابو حنیفہؒ کا جو قول تھا  اس  سے کچھ اگے چل  کے ہی وہ خود ہی اس بات کا جواب دیتے ہیں:
الإمام الأعظم أبو حنیفة ؒ(150ھ)فرماتے ہیں کہ
أَيْن الله تَعَالَى فَقَالَ يُقَال لَهُ كَانَ الله تَعَالَى وَلَا مَكَان قبل ان يخلق الْخلق وَكَانَ الله تَعَالَى وَلم يكن أَيْن وَلَا خلق كل شَيْء . ( الفقه الأبسط ملحقه العالم والمتعالم (ص/57))

” جب تم سے کوئی پوچھے  کہ اللہ (کی ذات )کہاں ہے تو اسے کہو کہ (اللہ وہیں ہے جہاں)  مخلوق کی تخلیق سے پہلے جب کوئی جگہ و مکان نہیں تھا صرف اللہ  موجود تھا۔ اوروہی  اس وقت موجود تھا جب    مکان مخلوق نا م کی کوئی شے ہی نہیں تھی“۔


لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے ملاوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف کرکے اس کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غلط اور امام صاحب کي اپني تصريحات کے خلاف ہےاور جس ملاوٹ اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں
اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے ساتھ مروي ہے اور اس کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالسلام کے ارشادات کے مطابق بلا غبار واضح نظر آتي ہے ليکن غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ الاسلام ابواسماعيل الھروي الانصار ي صاحب الفاروق کے نام سے جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکلام شامل ہيں جن ميں يہ جناب اشاعرہ کومسلم بلکہ اہل کتاب بھي نہيں سمجھتے اور ان کے ذبيحے حرام اور ان سے نکاح بھي حرام کہلاتے ہيں اور يہ فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمہ اللہ کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ چاہے اپني طرف سے بڑھاديئے حتي کہ ساري بات کا مفہوم ہي بگاڑديا اور کلام کا رخ اپني مطلب کي طرف پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا
قَالَ سَأَلت أَبَا حنيفَة عَمَّن يَقُول لَا أعرف رَبِّي فِي السَّمَاء أَوفِي الأَرْض
فَقَالَ قد كفر لِأَن الله تَعَالَى يَقُول {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} وعرشه فَوق سمواته
فَقلت إِنَّه يَقُول أَقُول على الْعَرْش اسْتَوَى وَلَكِن قَالَ لَا يدْرِي الْعَرْش فِي السَّمَاء أَو فِي الأَرْض
قَالَ إِذا أنكر أَنه فِي السَّمَاء فقد كفر
کيا،،، اس عبارت ميں انہوں نے لان اللہ يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [عني چونکہ اللہ تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا، اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الفاظ فاذا انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھاديں جس کي وجہ سے مفھوم بظاہر تجسيمي معني کي طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حالانکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب کا مسلک اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے، تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ تو الھروي نے اپني طرف سے بڑھاديے اور ان الفاظ کا کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں، اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسلام نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات اللہ کے ليے مکان و جگہ ثابت کررہا ہے اس ليے يہ کفر ہے
اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت بڑے پايے کے ہيں جبکہ ان کے اپنے ہي شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کلام الہي کے بارے ميں يہ نقل کرتے ہيں کہ ان کے ہاں اللہ کا کلام نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباللہ اور ساتھ ميں جناب کي يہ عجيب منطق بھي نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے، مجموع الفتاوى (12/ 294)
وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي - الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ - وَغَيْرِهِ وَقَالُوا: لَيْسَ هَذَا هُوَ الْحُلُولُ الْمَحْذُورُ الَّذِي نَفَيْنَاهُ. بَلْ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ الْكَلَامَ فِي الصَّحِيفَةِ وَلَا يُقَالُ بِأَنَّ اللَّهَ فِي الصَّحِيفَةِ أَوْ فِي صَدْرِ الْإِنْسَانِ كَذَلِكَ نُطْلِقُ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَهُ حَالٌّ فِي ذَلِكَ دُونَ حُلُولِ ذَاتِهِ،
 ابن تيميہ کہتے ہيں کہ ايک گروہ نے يہ بات بھي کہي ہے کہ اللہ کا کلام مصحف ميں حلول ہوگيا ہے جيسا کہ ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ، يہ لوگ کہتے ہيں کہ يہ وہ حلول نہيں ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہتے ہيں کہ اللہ کا کلام اللہ صحيفہ ميں ہے اور يہ نہيں کہا جائے گا کہ اللہ صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کلام اس ميں [يعني مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن اللہ کي ذات حلول نہيں ہوئي
سبحان اللہ اگر يہي کلام کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ الاسلام کے لقب سے ملقب کرتا؟ تو خلاصہ کلام يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام صاحب کي اس بات کي روايت کو اگر ابواسماعيل الھروي کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کلام کا مفھوم مکان کي نفي ميں واضح ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں

اور اسي کلام کو  ابن قيم  ان الفاظ کي زيادتي سے نقل کيا ہے،لانہ انکر ان يکون في السماء لانہ تعالي في اعلي عليين، يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے اللہ کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا، کيونکہ اللہ اعلي عليين ميں ہے حالانکہ قران وسنت ميں کہيں بھي اللہ کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تصرفات جناب ابواسماعيل الھروي کي تحریف کرد ہ ہيں اور ان سے امام ذہبي رحمہ اللہ نے العلو ميں اور امام ابن قيم  نے اجتماع الجيوش الاسلاميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کر لیا۔







فرقہ اہلحدیث   اللہ  کی ذات کو محدود مانتا ہے اور اللہ کیلئے مکان اور جہت کا قائل ہے۔
ملاحظہ فرمائے فرقہ اہلحدیث  کے ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن  صاحب   کی ایک ویڈیو کلپ
https://vimeo.com/137039911
نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور س کا مکان عرش ہے۔
(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)
نوٹ : نواب وحید الزمان صاحب کو خود ان کے ایک بڑے جید عالم نے امام اہلحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
فرقہ اہل حدیث کو مبارک ہو اپنی کم فہمی کم عقلی میں جو فتوی ہمارے خلاف لئے پھرتے تھے وہ انہی پر لگ  گیا۔