عقائد اور علم الکلام
اہلسنت ولجماعت ان عقائد میں جو ضروریات دین یا ضروریا
ت اسلام ہیں وہ قرآن و سنت کی قطعی الدلالت
اور قطعی الثبوت نصوص سے رجوع کرکے لیتے ہیں ۔ان عقائد میں کسی مجتہد کی
رائے ،اجتہاد یا قیاس کو دخل نہیں دیا
جاتا کیونکہ عقائد قیاسی یا اجتہادی نہیں ہوتے بلکہ منصوص ہوتے ہیں اور ان عقائد
اسلام میں اہلسنت ولجماعت کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہوتا ۔ اہلسنت و لجماعت میں
کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ عقائد قیاس یا اجتہاد سے ثابت کئے جائیں۔اصل مسئلہ کو
سمجھنے کیلئے چند نکا ت کا سمجھنا ضروری ہے۔ان
میں سب سے پہلے علم الکلام اور عقائد کا فرق سمجھا جائے۔
علم الکلام کیا ہے؟
عقائد کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے اب آتے ہیں علم الکلام
کی طرف ۔ آئمہ اربعہ کےا دوار میں عموما
اوراسکے بعد خصوصا امت میں عقائد کے اعتبار سے انتہائی گمراہ فرقے بلخصوص معتزلہ ، جہمیہ، کرامیہ،خوارج، مشبہ وغیرہ وجود میں آئے
اور قرآن و سنت کی گمراہ کن تشریحات اور عقلی
اعتراضات کی مدد سے سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے لگے تومتکلمین
سلف مثلا امام ابو حنیفہؒ اور بعد کے
ادوار میں دیگر اکابرین امت خصوصا ابو الحسن اشعریؒ اور ان کے بعد ابو منصور
ماتریدی حنفیؒ میدان میں آئے اور گمراہ فرقوں کے عقلی دلائل کو قرآن و سنت میں
بتائے گئے عقائد کی ایسی بہترین تشریحات اپنے اجتہاد کے ذریعے پیش کیں جس سے گمراہ
فرقوں کو اس میدان میں بدترین شکست ہوئی۔
علم الکلام کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں
1) منصوص عقائد کی ایسی بہترین تشریحات کرنا جو جمہور اہلسنت کے موافق
ہوں۔لہذا تشریحات چونکہ منصوص نہیں ہوتیں جیسا کی قرآنی تفاسیر اور کتب احادیث کی
شروحات جو ہر دور میں اہلسنت ولجماعت نے لکھی ہیں۔بلکل اسی طرح عقائد کی ایسی تفصیلات
بھی ہیں جو متکلمین اہلسنت نے تشریحات کے درجے میں بیان کی ہیں اور جنکی جمہور اہلسنت نے تائید کی ہے۔
2) عقائد پر
وارد ہونے والے عقلی اعتراضات کا قرآن و
سنت کی روشنی میں عقل و فہم کو استعمال کرتے ہوئے حتی المقدور ایسا بہترین جواب دینا کہ سائل کا اعتراض ختم
ہوجائے ۔
عقائد اور علم الکلام میں فرق
عقائد اور علم الکلام میں چند اہم اور بنیادی فرق
مندرجہ ذیل ہیں:
1) عقائد اسلام
غیر اجتہادی (یعنی قطعی الدلالت اور قطعی الثبوت )ہوتے ہیں اور ان میں اجتہاد
کی گنجائش نہیں ہوتی ۔اسکے برعکس کلامی
مسائل و تفصیلات اجتہادی ہوتی ہیں یعنی مجتہدین علم الکلام یا متکلمین اسلام کے
اجتہاد ات پر مبنی ہوتی ہیں۔
2) عقائد
اسلام قطعی ہوتےہیں جبکہ کلامی مسائل و تفصیلات ظنی ہوتی ہیں۔
3) عقائد
اسلام کا جاننااور ان پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض عین ہے جبکہ کلامی مسائل و تفصیلات کا جاننا ہر مسلمان
پر فرض عین نہیں ہے۔
علم الکلام اور تقلید مجتہد
عقائد اسلام چونکہ غیر اجتہادی یعنی منصوص ،قطعی
الدلالت اورقطعی الثبوت ہوتے ہیں تو ان میں مجتہدین کی بجائے صرف اور صرف قرآن و سنت اور اجماع کی اتباع یا
تقلید کی جاتی ہے ۔عقائد کے ماسوا تمام اجتہادی
علوم و مسائل میں غیر مجتہد ، مجتہد کی تقلید کرتے ہیں جیسا کہ علم الصرف، علم
النحو، علم الفقہ ، علم القراءت، اسماء الرجال وغیرہ وغیرہ ان تمام علوم و فنون کے
اپنے اپنے مجتہدین ہیں اور ان مجتہدین کے علاوہ باقی امت ان مجتہدین کے اجتہاد پر اعتماد
کرکے تقلید کرتی ہےبلکل اسی طرح علم الکلام کے اجتہادی مسائل میں بھی جمہور اہلسنت
و الجماعت مجتہدین علم الکلام کی تقلید کرتے ہیں۔
کیا علماء احناف دیوبند عقائد میں امام ابو حنیفہ ؒ کو
چھوڑ کر امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟
اہل بدعت کا ایک مشہور اعتراض ہے کہ دیوبندی فقہ میں تو امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں
اور عقائد میں امام ابو منصور ماتریدیؒ کے مقلد ہیں۔ اس اعتراض میں بدترین جہالت نمایاں ہے اور ہو یہ ہے کہ
مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق علماء عقائد اسلام (جو منصوص، قطعی اورغیراجتہادی ہیں)
میں تقلید مجتہد نہیں کرتے بلکہ علم الکلام یا کلامی مسائل میں تقلید کرتے ہیں ۔
دیوبندی فقہ میں حنفی ہیں اور علم الکلام
میں اپنی نسبت امام ابو منصور ماتریدیؒ کی طرف کرتے ہیں لہذا یہ کہنا بہتان
ہے کہ دیوبندی عقائد میں کسی مجتہد کی تقلید
کرتے ہیں۔
احناف دیوبند علم الکلام میں امام ابو منصور ماتریدی حنفیؒ کی
بجائے امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟
پھر یہ اعتراض کہ جب حنفی فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے
مقلد ہیں تو علم الکلام میں امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کیوں نہیں کرتے تو یہ اعتراض
بھی فضول اور محض حماقت ہے اسکے جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ جس قدر زیادہ اعتراضات امام ابو حنیفہؒ اور دیگر ائمہ مجتہدین کے
دور کے بعد گمراہ فرقوں نے کئے اتنی شدت سے پہلے اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے
لہذا پہلے امام ابو الحسن اشعری جو کہ فقہ میں امام شافعیؒ کے مقلد ہیں، وہ میدان
میں آئے اور پھر انکے بعد امام ابو منصور ماتریدیؒ جو کہ فقہ میں امام ابو حنیفہؒ
کے مقلد ہیں، میدان میں آئے ع۔لم الکلام کے ان دونوں آئمہ نے گمراہ فرقوں بلخصوص
معتزلہ ، باطنیہ ، جہمیہ، کرامیہ، مشبہہ ،شیعہ
وغیرہ کو اسلامی عقائد پرنت نئے اور بے تحاشا اعتراضات کے میدان میں بدترین شکست
سے دو چار کیا یہی وجہ ہے کہ عقائد کی جتنی تشریحات اور تفصیلات امام ابو منصور
ماتریدیؒ اور امام ابو الحسن اشعریؒ سے علم الکلام کے توسط سے منقول ہیں اتنی
تفصیل امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ سے
منقول نہیں ہیں اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ
عقائد پر اتنی شدت اور بہتات سے حملے پہلے ادوار میں نہیں ہوئے اور علم الکلام ان
نظریاتی حملوں کے مقابلے میں قرآن و سنت سے ثابت عقائد کی حفاظت کیلئے پھلا بڑھا
اور ترقی کی جیسا کہ فن حدیث کی اصطلاحات حضورﷺ کے دور کے بعد وجود میں آئیں تو
کیا اب کوئی اہل بدعت کہہ سکتا ہے کہ
اصطلاحات حدیث میں کسی کی تقلید نا جائز ہے اور یہ اصطلاحات و اصول غلط ہیں؟
2۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر فن کے مجتہدین جدا جدا ہیں
جیسا کہ اہل بدعت(وکٹورین غیرمقلدین ) ، اہلسنت کی دیکھا دیکھی میں فن قراءت کے
میدان میں قاری عاصم کوفی کی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں ۔ جس طرح وکٹورین
غیرمقلدین فن حدیث میں دیگر آئمہ حدیث کے اقوال کی اندھا دھند تقلید کرتے ہیں۔ اور
جس طرح وکٹورین غیرمقلدین فن تفسیر میں ائمہ تفسیر کی اندھا دھند تقلید کتے ہیں ۔
تو عین اسی طرح علم الکلام میں بھی ایک جدا علم و فن ہے جسکے اپنے مجتہدین اور
آئمہ ہیں تو یہ اعتراض اس لحاظ سے بھی غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔
3۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام ابو منصور
ماتریدیؒ جو فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے
مقلد ہیں تو بلواسطہ ہم علم الکلام میں
بھی امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہوئے تو معلوم ہوا کہ اہل بدعت کا یہ اعتراض محض جہالت ہے۔
المہند علی المفند کی عبارت پراہل بدعت (وکٹورین غیرمقلدین)
کا اعتراض اور اسکا جواب
المہند علی المفند کی عبارت میں حضرت مولانا خلیل احمد
سہانپوریؒ نے کہ علماء دیوبند کی نسبت لکھا
ہے"اصول و اعتقادیات میں پیرو ہیں
امام ابولحسن اشعریؒ اور امام ابومنصور ماتریدیؒ کے"۔ اس عبارت میں اہل بدعت یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں لفظ" اصول و
اعتقادیات " مذکور ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ احناف دیوبند عقائد میں ان دو
آئمہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اعتراض بھی محض جہالت اور ناسمجھی ہے ۔ یہ مسلمہ
اصول ہے کہ اہل زبان یا اہل علم وفن بعض اوقات کسی بات کو بیان کرنے میں مجازی
الفاظ اشارتا ًبیان کرتے ہیں تاکہ مافی
الضمیر بہترین انداز میں بیان ہوسکے۔لہذا یہاں اصول و اعتقادیات سے مراد علم
الکلام کے اصول و تفصیلات ہیں ۔
اگر کوئی جاہل یہ اعتراض کرے کہ اشارتاً یا مجازی الفاظ
استعمال کرنا نامناسب یا ناجائز ہے تو ان احمقوں کا یہ اعتراض
پہلے قرآن و حدیث پر وارد ہوگا بعد میں علماء احناف دیوبند پر وارد ہوگا۔
مثلا صحیح بخاری کی مشہور حدیث ہے جس میں نوافل کے ذریعے اللہ کے قرب کے
اظہار کیلئے ایسے الفاظ استعمال ہوئے جنکا مجازی معنی لئے بغیر کوئی اہلسنت تو دور کی بات ،مسلمان بھی نہیں رہ
سکتا جیسا کہ فرمایا گیا کہ ۔۔۔اللہ بندے
کا کان بن جاتا ہے جس وہ سنتا ہےاور اللہ بندے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا
ہے۔۔۔تو اب یہاں مجازی معنی لئے بغیر کوئی احمق
اسکا ایسا معنی بیان کردے کہ وہ مسلمان اور اہلسنت بھی رہے اور معنی بھی ھقیقی (یعنی غیرمجازی) ہو جو
کہ ناممکن ہے۔اسی طرح قرآن میں بھی کئی جگہوں پر مجازی معنوں میں اللہ نے کلام کیا
ہے (جسکی تفصیل کی یہ جگہ نہیں ہے)۔توثابت ہوا کہ مخاطب اپنے مافی الضمیر کے اظہار
کیلئے مجازی الفاظ استعمال کرسکتا ہے ۔