غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Tuesday 30 June 2015

استوی معلوم کیف مجھول سے غلط استدلال کا ردّ Istawa Maloom

استوی معلوم کیف مجھول  سے غلط استدلال کا ردّ
فرقہ لامذہبیہ کا امام مالک رحمہ الله کے قول سے غلط استدلال
فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کا کہنا ہے کہ امام مالک رحمہ الله صفات متشابہات کو حقیقی معنوں پر محمول کرکے اس کی کیفیت مجہول قرار دیتے تھے ، چناں چہ ایک بار ان سے جب ”استویٰ“ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا”الاستواء غیر مجہول“ یعنی لفظ ”استویٰ“ کی دلالت اپنے معنی ومراد (استقرار) پر واضح ہے۔ یعنی الله تعالیٰ عرش پر مستقِر ہیں البتہ اس استقرار کی کیفیت مجہول ہے۔
جبکہ استویٰ معلوم کیف مجھول کا یہی معنی ہے کہ جو اللہ نے ہمیں خبر دی وہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن اس کی حقیقت کیا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں
اگر  لامذہبی سلفیہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہماری بات درست نہیں اور ان کی بات درست ہے تو پھر  ہمارا ان سے سوال ہے کہ اگر آپ لوگوں کو استوی  معلوم ہے تو پھر بتاتے کیوں نہیں  جو آپ کو معلوم ہے؟
مفسر قرآن علامہ  شهاب الدين محمودآلوسی رحمہ الله تعالیٰ نے اس فریب استدلال سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ:
ليس نصا في هذا المذهب لاحتمال أن يكون المراد من قوله: غير مجهول أنه ثابت معلوم الثبوت لا أن معناه وهو الاستقرار غير مجهول
” الاستواء غیر مجہول“ کا مطلب یہ ہے الله تعالیٰ کی صفت استوا (قرآن وحدیث) میں مذکور ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کا معنی ومراد ”استقرار“ معلوم ہے“
 (روح المعانی، الاعراف، تحت آیة رقم:54)

نیز امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا استوا کے متعلق صحیح قول وہ ہے جو سند صحیح کے ساتھ علامہ ابن حجر رحمہ الله نے فتح الباری
(واخرج البیہقی بسند جید عن عبدالله بن وھب، قال: کنا عند مالک، فدخل رجل فقال: یا أبا عبدالله ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ کیف استوی؟ فاطرق مالک فأخذتہ الرحضاء ثم رفع راسہ، فقال: الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ، ولایقال کیف وکیف عنہ مرفوعفتح الباری لابن حجر، باب وکان عرشہ علی الماء:494/20) اور علامہ بیہقی رحمہ الله تعالیٰ نے کتاب الاسماء والصفات(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، ص:408) میں نقل کیا ہے کہ ” الله تعالیٰ عرش پر ایسا ہی مستوی ہے جیسے خود آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے ﴿الرحمن علی العرش استوی﴾ یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت کرکے اسے متشابہہ المعنی قرار دیا۔

لہٰذا امام مالک رحمہ الله کے ایک معروف او رمستند قول کو نظر انداز کرکے ایک غیر معروف اور مبہم قول سے اپنے مطلب کا مفہوم اخذ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
کیا سلف صالحین  ان صفات کو  ظاہر پر محمول کرتے تھے؟
قال الإمام عدي بن مسافرؒ (وفات 557ھ)
وتقرير مذهب السلف كما جاء من غير تمثيل ولا تكيف ولا تشبيه ولا حمل الظاهر
امام عدي بن مسافرؒ فرماتے ہیں
”سلف کا مذہب یہ تھا کہ وہ ان (صفات متشابہ) کی کسی کے ساتھ تشبیہ نہیں دیتے تھے نہ ہی انہیں ظاہر پر محمول کرتے تھے“۔
(اعتقاد أهل السنة ص 26 – أهل السنة اشاعرة ص 149)

الحمدللہ سلف کا وہی وقف ہے جو کہ ہمارا ہے۔


آل وکٹوریہ کے شیخ ابو محمد  امجد صاحب نے
استواء معلوم سے مراد صفت کا معلوم ہونا  لکھا ہے۔ دیکھئے (عقائد علماء دیوبند   از طالب الرحمن وکٹورین صفحہ 66)


جبکہ آج  کل وکٹورین امام مالکؒ کے اس قول ”الاستواء معلوم“ کا سہارا لیتے ہوئے اس کا پورا پورا معنی اور تشریح کرتے ہیں
(ترجمہ شرح واستطیہ ابن العثیمین ص 69)


استوي ، عالي ، علو ، فوق سے غلط استدلال پر جاہل مجسمیوں پر رد Istiwa


استوي ، عالي ، علو ، فوق سے غلط استدلال پر جاہل مجسمیوں پر رد
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات 310ھ) فرماتے ہیں:
كلام العرب في تأويل قول الله:"ثم استوى إلى السماء"
علا عليها علوّ مُلْك وسُلْطان، لا علوّ انتقال وزَوال
(تفسیر الطبري ج1 ص 430)
ترجمہ:۔
”استواء کلامِ عرب میں بہت سی صورتوں میں استعمال ہوا ہے ان میں سے "الاحتیاز" اور "استیلاء" کے معنی میں بھی ہیں،  پھر فرماتے ہیں ہیں:
 الله تعالي كي علو بادشاهي اور غلبے والي علو هے اتنقال اور زوال والي علو نهيں“۔

علو "اونچا هونا " دو معنوں ميں مستعمل هے ايك طاقت اور مرتبے والي اونچائي جيسا كه بادشاه عالي هے اپنے رعايا پر چاہے وه زمين پر بيٹها ہو اور رعايا پهاڑ پر ہو ،، دوسرا جهت والي علو جس ميں انتقال اور زوال كا معني موجودہے كيونكہ آپ اوپر كي جهت ميں تب جائيں گے جب آپ نيچے كي جهت سے منتقل ہوجائيں اور نيچے كي جهت سے زائل هوجائيں يهي معني غيرمقلدين ليتے ہيں اور اسي كي نفي امام ابن جرير  طبریؒ نے كي ہے۔

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں  :
قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَقُهِرَ غُلِبَ. وَمَعْنَى (فَوْقَ عِبادِهِ) فَوْقِيَّةُ الِاسْتِعْلَاءِ بِالْقَهْرِ وَالْغَلَبَةِ عَلَيْهِمْ، أَيْ هُمْ تَحْتَ تَسْخِيرِهِ لَا فَوْقِيَّةَ مَكَانٍ
(تفسیر قرطبی ج 3 ص 399)
اللہ تعالٰی کا ارشاد وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ
”فوق عبادہ غلبہ کے ساتھ فوقیت مراد ہے یعنی کہ تمام بندے اس کے حکم کے تحت مسخر ہیں۔ فوقیت سے فوقیت مکانی مراد نہیں ہے“۔
امام قرطبیؒ دوسری جگہ فرماتے ہیں:
وَ (الْعَلِيُّ) يُرَادُ بِهِ عُلُوُّ الْقَدْرِ وَالْمَنْزِلَةِ لَا عُلُوُّ الْمَكَانِ، لِأَنَّ اللَّهَ مُنَزَّهٌ عَنِ التَّحَيُّزِ. وَحَكَى الطَّبَرِيُّ عَنْ قَوْمٍ أَنَّهُمْ قَالُوا: هُوَ الْعَلِيُّ عَنْ خَلْقِهِ بِارْتِفَاعِ مَكَانِهِ عَنْ أَمَاكِنِ خَلْقِهِ. قَالَ ابْنُ عَطِيَّةَ: وَهَذَا قَوْلُ جَهَلَةٍ مُجَسِّمِينَ
( تفسیر قرطبی ج 3 ص 278)
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں
”العليۙ“ اس سے مراد قدر و منزلت کی بلندی ہے نہ کہ جگہ و مکان کی بلندی کیونکہ اللہ جگہ و مکان سے پاک ہے، علامہ طبریؒ نے ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے بلند ہے کیونکہ اس کا مکان و جگہ مخلوق کی جگہ و مکان سے بلند ہے ، ابن عطیہؒ نے کہا یہ جاہل مجسمیوں کا قول ہے“۔
 کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بے عین یہی کچھ فرقہ  لامذہبیہ سلفیہ لوگوں کو بتاتا اور ثابت کرتا ہے  اور اس سے وہ انکار بھی نہیں کر سکتے کہ ہم یہ کچھ نہیں کہتے ۔
یہ بھی معلوم  ہو گیا کہ مجسمیہ اور فرقہ سلفیہ کے عقائد ایک ہیں اور فرقہ سلفیہ اس سے بھاگ نہیں سکتا ہے کہ وہ اس زمانے کے مجسمی ہیں۔

(جاری)


آیات متشابہات پر ایمان کیسے لایا جائے؟ Mutashabihat


آیات متشابہات پر ایمان کیسے لایا جائے؟
قرآن کریم میں دو قسم کی آیات ہیں ایک آیات محکمات (یعنی جن کے معنی واضح ہیں)
 اور دوسری آیات متشابہات (یعنی جن کے معنی معلوم یا معین نہیں)
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿آل عمران ۷
ترجمہ:”وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی 
طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے“۔

اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ كهيعص ، يٰس ، حٰم ، ن ، يد ، عين ، استويٰ علي العرش
وغیرہ آیات  کی اصل مراد اللہ کے سوائے کوئی نہیں جانتا اور یہ آیات ِمتشابہات میں سے ہیں  جس  طرح سے كهيعص وغیرہ (حروف مقطعات) کی مراد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اسی طرح استویٰ ، يد ، عين  
وغیرہ   بلا شبہ متشابہات میں سے ہیں اور انکی مراد بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
لہذا ان پر ایمان  لانے کیلئے پہلے ان کی مراد بھی معلوم ہو والی بات قطعاً غلط ہے۔  اللہ کی مراد کو اسی کے سپرد کرکے بھی ایمان لایا جاسکتا ہے اور ایسا لانا ہی  اللہ کا حکم ہے جیسا دوسرے متشابہات پر لایا جاتا ہے۔ حروف مقطعات کے متعلق کوئی بیوقوف نہیں  کہتا ہے کہ اگر تمہیں  ان کی اصل مراد کا علم نہیں تو تم ان پر ایمان نہیں لاسکتے۔ اگر ایمان 
لانے کیلئے اللہ کی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہوتا تو اللہ تعالٰی پھر اپنی کتاب قرآن مجید میں ان کو تقسیم ہی کیوں کرتا ؟

امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)

آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
 کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو قرآن شریف کی متشابہ آیات کی ٹٹول میں لگے رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انہی کا ذکر فرمایا ہے لہٰذا ان کی صحبت سے پرہیز کرتے رہو۔ (بخاری ج 6 ص 33)
اللہ جانے اگر  یہ لامذہبی وہی نہیں جن کے متعلق اللہ اور رسول نے خبر دی ہے تو پھر  اور کون ہیں۔


عقائد میں فرقہ سلفیہ کا اختلاف حق پر کون ؟


عقائد میں فرقہ سلفیہ کا اختلاف حق پر کون ؟
فرقہ سلفیہ کے ایک مولوی صاحب ابن عثیمین اشاعرہ اور ماتریدیہ کو اہلسنت سے خارج قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
نقول كيف يكون الجميع اهل سنة وهم مختلفون ؟ فماذا بعد الحق الا الضلال وكيف يكونون اهل سنة وكل واحد يرد علي الاخر؟ هذا لا يمكن الا اذا امكن الجمع بين الضدين
ترجمہ:
ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ، ماتریدی ، سلفی) اہلسنت میں سے کیسے ہو سکتے ہیں حالانکہ ان میں اختلافف ہیں اور حق کے سوا جو کچھ ہے وہ گمراہی ہے اور یہ تینوں اہلسنت کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ایسی دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
(شرح عقیدہ وسطیہ ص 22)
جبکہ یہ بات قطعا درست نہیں اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،چند فروعی مسائل میں اختلاف ہے جوکہ مضرنہیں ہے یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ هونے سے نکل جائے ،لہذا الإمام الأشعري اورالإمام الماتريدي کے مابین بعض جزئی اجتهادی مسائل میں خلاف ہے ، اور علماء امت نے ان مسائل کوبھی جمع کیا ہے ،الإمام تاج الدين السبكي رحمه الله نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل هیں ، 
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خلاف فيها ثلاث عشرة مسائل منها معنوي ست مسائل والباقي لفظي وتلك الست المعنوية لا تقتضي مخالفتهم لنا ولا مخالفتنا لهم تكفيراً ولا تبديعاً، صرّح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم طبقات الشافعية ج 3 ص 38 ( 
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا تومیں نے صرف تیره مسائل کوپایا جن میں همارا اختلاف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف ہے اور باقی (سات ) مسائل میں محض لفظی اختلاف ہے ، اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختلاف کا مطلب هرگزیہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے هم ایک دوسرے کی تکفیر اور تبدیع ( بدعت کا حکم ) کریں ، استاذ أبو منصور البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔ 

اس کے برعکس فرقہ  سلفیہ  میں  ان کی   غیر اجتہادی مسائل میں خؤد اجتہادی  اور لامذہبیت کی بدولت   عقائد میں  سخت اختلاف موجود ہے۔ اب  لامذہبی اسے پڑھیں اور بتائیں کہ ان میں سے کس کا مسئلہ ٹھیک ہے اور کون حق پر ہے اور کون گمراہی پر۔

از  قلم : حافظ جمشید

عقیدہ نمبر 1
فناء نار کا مسئلہ


ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم آخرکار ختم ہوجائے گی اوراس کو وہ رحمت الہی کا تقاضامانتے ہیں ۔اس کی صراحت حافظ ابن قیم نے حادی الارواح فی بلادالافراح (2/168-228)میں پوری تفصیل کے ساتھ کی ہے اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مشہور اصولی اورفقیہہ محمدبن اسماعیل الامیرالصنعانی نے ابن تیمیہ کی تردیدمیں ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام رکھا ہے۔


رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النار
اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یاغیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔


فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ، عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ، حتىوقعت عيني على رسالة للأمام الصنعاني ، تحت اسم (رفع الأستار لابطال أدلة القائلينبفناء النار) . في مجموع رقم الرسالة فيه (2619) ، فطلبته ، فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها . فدرستها دراسة دقيقة واعية ، لان مؤلفها الإمام الصنعاني رحمهالله تعالى رد فيها على شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهما الى القولبفناء النار ، بأسلوب علمي رصين دقيق ، (من غير عصبية مذهبية . ولا متابعة اشعريةولا معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه الله تعالى في آخرها . وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة الأحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص 71 - 75) بمناسبة تخريجي فيه بعض الأحاديث المرفوعة ، والآثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ، وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان لابن القيم قولا آخر ، وهو أن النار لا تفنى أبدا ، وان لابن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة والنار .
وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله الأخر ، فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ، ان الردالمشار إليه ، انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه - اعني ابن تيمية - يقول : بفنائها ، وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها الأنهار !
وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثلاثة التي عقدها ابن القيم لهذه المسالة الخطيرة في كتابه (حادي الأرواحإلى بلاد الأفراح) (2 / 167 - 228) ، وقد حشد فيها (من خيل الأدلة ورجلها ، وكثيرهاوقلها ، ودقها وجلها ، واجري فيها قلمه ، ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ، واستنفر كل قبيل وجيل) كما قال المؤلف رحمه الله ، ولكنه أضفى بهذاالوصف على ابن تيمية ، وابن القيم أولي به وأحرى لأننا من طريقه عرفنا راي ابنتيمية ، في هذه المسالة ، وبعض أقواله فيها ، وأما حشد الأدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ، وان كان ذلك لا ينفي انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارص ۳)
البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کتاب میں ان دونوں پر علمی تنقید کی گئی ہےاوریہ کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔


ابن تیمیہ کے تمام دلائل چاہے وہ قوی ہویاکمزور،چھوٹے ہوں یابڑے،تھوڑاہویازیادہ یعنی دلیل کے نام پر جوکچھ بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی بلاد الافراح میں نقل کردیاہے۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختلاف ضرور ہے لیکن ہمیں سردست ابن تیمیہ سے بحث ہے۔


امید محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔
اعلم أن هذه المسألة اشار إليها الإمام الرازي في مفاتيح الغيب ولم يتكلم عليها بدليل نفي ولا إثبات ولا نسبها إلى قائل معين ولكنه استوفى المقال فيها العلامة ابن القيم في كتابه حادي الأرواح إلى ديار الأفراح نقلا عن شيخه العلامة شيخ الإسلام أبي العباس ابن تيمية فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل الأدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كلامه تلميذه ابن القيم (رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)


جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں اشارہ کیاہے لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیااورنہ ہی اس قول کو اس کے قائل کی جانب منسوب کیا۔لیکن اس بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی دیارالافراح میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کے فرمودات کی روشنی میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دلائل وبراہین ذکر کرنے والے ہیں اورابن تیمیہ کے کلام کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔
ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''القول المختار لبیان فناء النار''جس میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فناء ہوجائے گی اسی کی تائید کی ہے چنانچہ یہ صاحب البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نے دیکھاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن قیم کی کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع الاستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چل گیا۔یہ کتاب جو الالبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کلام کیاہے اورکہاہے کہ انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ البانی نے یہاں تک کہاکہ


معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں بھی انہوں نے عقل کی دخل اندازی سے کام لینے کی کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں البانی نے اسی پر بس نہیں کیابلکہ یہ تک کہاکہ معتزلہ اوراشاعرہ نے جن صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاویل کی ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ 13-14)
اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف الاستار لابطال ادعاء فنار النار''اور اس میں کوشش کی ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کردیاجائے کہ فناء نار کے ابن تیمیہ قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوشش سعی لاحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہاں کہیں وہ کسی ایسی بات یاکوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں جوان کے مزعومات کے خلاف ہو تو فوراًاس کا انکار کردیتے ہیں بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ علمی اصول تحقیق کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حافظ ذہبی نے اس میں ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حافظ ذہبی کی تصنفیات کی فہرست سے یہ کتاب نکال دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔


حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بالآخر فناہوجائے گی پر ان کے ایک معاصر مشہور فقیہہ اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار"جس میں انہوں نے ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔


ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف
حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار"کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو آپ بھی دیکھیں اورپرکھیں۔
حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا قول ایساہے کہ اس بارے مین سلف اورخلف میں دوآراء رہی ہیں۔


واماالقول بفناء النار ففیھاقولان معروفان عن السلف والخلف ،والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع الاستار ص9)
فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوقول رہے ہیں اوراس بارے میں تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں نزاع رہاہے۔


والرابع : ان النار قیدھابقولھا (لابثین فیہااحقابا)وقولہ (خالدین فیہا الاماشاء اللہ)وقولہ (خالدین فیہامادامت السماوات والارض الاماشاء ربک ) فھذہ ثلاث آیات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقۃ علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت ولامعلق۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں نار کو مذکورہ تین آیتوں سے مقید کیاگیاہے۔ یہ تینوں آیتیں نار کے موقت اورشرط پر معلق ہونے کا تقاضاکرتی ہیں اورجس کی صفت دوام اورمطلق کی ہوتی ہے وہ موقت اورمعلق نہیں ہوتی ہے۔
السادس:ان الجنۃ من مقتضی رحمتہ ومغفرتہ والنار من عذابہ، وقد قال: (نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) وقال تعالیٰ اعلموا ان اللہ شدید العقاب وان اللہ غفوررحیم)وقال تعالیٰ تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )
فالنعیم من موجب اسمائہ التی ھی من لوازم ذاتہ ،فیجب دوامہ بدوامعانی اسمائہ وصفاتہ واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاتہ والمخلوق قد یکون لہ انتھاء مثل الدنیا وغیرھا ،لاسیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔
چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت اللہ کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔اوراس کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد آیتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اسماء کے موجبات میں سے ہے جواس کی ذات کو لازم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحقق ہوسکتاہے جہاں تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہاء بھی ہوتی ہے جیسے کہ دنیا اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔


الوجہ السابع: انہ قد اخبر ان رحمتہ وسعت کل شی وانہ "کتب علی نفسہ الرحمۃ"وقال"سبقت رحمتی غضبی "و"غلبت رحمتی غضبی"وھذا عموم واطلاق فاذا قدرعذاب لاآخرلہ ،لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ(مقدمہ رفع الاستار ۱۳)
ساتویں دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لئے ہوئے ہے اورمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطلاق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی عذاب ایساہو جس کی کوئی انتہاء نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔


البانی کا موقف


البانی نے ابن تیمیہ پر اس مسئلہ پر تنقید کرتے ہوئے رفع الاستار میں جوکچھ بھی لکھاہے وہ پیش خدمت ہے۔ابن تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرلانہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگا۔ اس پر البانی صاحب فرماتے ہیں 


فکیف یقول ابن تیمیۃ :ولوقدرعذاب لاآخر لہ لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ فکان الرحمۃ عندہ لاتتحقق الابشمولھا للکفار المعاندین الطاغین !الیس ھذا من اکبرالادلۃ علی خطا ابن تیمیۃ وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللھم !
کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگا۔گویاکہ رحمت کا ثبوت جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاجائے اورکیایہ ابن تیمیہ اوراس مسئلہ میں ان کی پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرناک مسئلہ میں ان کی پیروی کررہے ہیں۔اس کے بعد البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھا جب کہ ان مطالعہ کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھا اورادلہ شرعیہ میں انہیں مہارت حاصل نہیں تھی (بعض لوگ اسی عمر مین انہیں مجتہد ماننے پر بضد ہیں)


ولعل ذلک کان منہ ابان طلبہ للعلم،وقبل توسعہ فی دراسۃ الکتاب والسنۃ،وتضلعہ بمعرفۃ الادلۃ الشرعیۃ ۔(مقدمہ رفع الاستارص25
یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔


یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور ہے۔تو اب بعض صفات میں تاویل کی وجہ سے احناف کو جہمی کہنے والے ابن تیمیہ کو اس مسئلہ کی وجہ سے کیاکہیں گے وہ خود فیصلہ کرلیں ۔ہم یہ فیصلہ انہی پر چھوڑتے ہیں۔


اس سے بھی بڑاسوال یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ اورحضرت ابن قیم کی ایک رائے ہے اوردوسری رائے البانی صاحب کی ہے ۔ان دونوں میں برحق کون ہے اورمدعیان سلف کی زبان میں بات کریں توگمراہ کون ہے؟

عقیدہ نمبر 2
مسئلہ استقرار علی العرش
قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کاارشاد ہے الرحمن علی العرش استویٰ ،اس آیت پر ہماراایمان ہے سلف سے اس تعلق سے جوکچھ مروی ہے وہ یہ کہ استواء معلوم ہے،اس کی کیفیت مجہول اوراس تعلق سے سوال کرنا بدعت ہے۔اہلسنت سلف میں کسی نے بھی استواء کی تفسیر استقرار کے ساتھ نہیں کی ہے۔لیکن حضرت ابن تیمیہ اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ہیں۔اوریہ کہ اللہ مچھر کی پیٹھ پر بھی مستقر ہوسکتاہے اورالبانی صاحب اس عقیدہ کو بدعت مانتے ہیں۔چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں۔


ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض وكيف تنكر أيها النفاخ أن عرشه يُقِلُّه والعرش أكبر من السموات السبع والأرضين السبع ولو كان العرش في السموات والأرضين ما وسعته ولكنه فوق السماء السابعة
(بیان تلبیس الجھمیۃ فی تاسیس بدعھم الکلامیۃ3/243)
اوراگراللہ چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرسکتاہے اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورآسمان سے بھی زیادہ بڑاہے تواس پر اللہ استقرارکیوں نہیں کرسکتا۔توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو اللہ کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔


البانی کا موقف 

دیکھئے اس بارے میں البانی صاحب کاکیاموقف ہے؟البانی صاحب اس سلسلے میں مجاہد کا اثر ذکر کرنے کے بعد کہ جس مین عرش پر اللہ کے قعود کی صراحت ہے اس کومنکر بتاتے ہوئے استقرار کی نفی کی ہے۔


ولست ادری ماالذی منع المصنف-عفااللہ عنہ-من الاستقرار علی ھذاالقول علی جزمہ بان ھذاالاثر منکر کماتقدم عنہ فانہ یتضمن نسبۃ القعود علی العرش للہ عزوجل ،وھذایستلزم نسبۃ الاستقرار علیہ للہ تعالیٰ وھذا ممالم یرد بہ ،فلایجوز اعتقادہ ونسبتہ الی اللہ عزوجل (مختصر العلو للعلی العظیم 1/16)
اورمیں نہیں جانتا کہ مصنف(حافظ ذہبی )کو اس قول پر جمنے سے کس چیز نے منع کیاہے باوجود اس کے کہ یہ اثر منکر ہے جیساکہ گذرچکاکیونکہ اس اثر کو اختیار کرنے کا مطلب اللہ عزوجل کیلئے عرش پر قعود کو تسلیم کرناہوگا۔اوراس کی وجہ سے عرش پر اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے استقرارلازم آئے گا جب کہ اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے لہذا اللہ عزوجل کی جناب مین ایسااعتقاد اورایسی باتوں کی نسبت جائز نہیں ہے۔

عقیدہ نمبر 3
اللہ تبارک وتعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ معیت کے بارے میں سلفیوں کا تضاد


ابن تیمیہ اوران کے بعض مقلدین کا قول یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مخلوق سے جداہے اوراس کی صفات میں سے ایک صفت جو علو کی ہے وہ اپنے حقیقی معنوں میں مراد ہے اوراللہ کی مخلوق کے ساتھ جو معیت ہے تووہ علم کے اعتبار سے ہے۔چنانچہ حضرت ابن تیمیہ ''الرد علی اساس التقدیس1/11)میں کہتے ہیں۔


والباری سبحانہ وتعالی فوق العالم فوقیة حقیقة لیست فوقیة الرتبة''
اس کے برخلاف ابن عثیمین اپنی کتاب ''عقیدة اہل السنةوالجماعةص9''میں کہتے ہیں۔


ومن کان ھذا شانہ کان مع خلقہ حقیقة وان کان فوقھم علی عرشہ حقیقة''لیس کمثلہ شیء وھوالسمیع البصیر''
علاوہ ازیں ابن عثمین اپنے فتاوی میں جس کی تاریخ 24/6/1403میں کہتے ہیں۔
فعقیدتنا ان للہ معیة حقیقة ذاتیة تلیق بہ وتقتضی احاطتہ بکل شیء علماوقدرة وبصراوسلطاناًوتدبیراً۔
ابن عثیمین کی اس بات پرعلی بن عبداللہ الحواس نے اپنے رسالہ ''النقول الصحیحة الواضحة الجلیة عن السلف الصالح فی معنی المعیة الالھیة الحقیقیة میں اورسی طرح ابن عثیمین پر عبداللہ بن ابراہیم القرعاوی نے اپنے رسالہ ''الاقوال السلفیة النقیہ ترد علی من قال ان معیة اللہ ذاتیہ''میں تردید کی ہے۔
البانی کابھی کہنایہی ہے کہ اللہ کے بندوں کے ساتھ معیت ذاتیہ کا قول معطلہ کاہے۔چنانچہ وہ پر عقیدةا لطحاوی ص28پرلکھتے ہیں۔


المعطلة الذین ینفون علوہ تعالیٰ علی خلقہ وانہ بائن من خلقہ بل یصرح بعضھم بانہ موجود بذاتہ فی کل الوجود
اب غورکیاجائے ان نام نہاد سلفیوں کی تضادبیانی کا ۔کوئی معیت حقیقہ ذاتیہ ثابت کررہاہے اورکوئی اس کا انکار کررہاہے۔اس میں جادہ حق پر گامزن کون ہے اورگمراہی کے راستے پر کون چل رہاہے؟کیاوہ لوگ جوالمہند علی المفند اورالفقہ الاکبر کی عبارت یابعض علماء کی عبارت کو لے کر احناف کوجہمی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورایسے عنوان لگاتے ہیں کہ دورحاضر کے احناف جہمیہ ہیں۔ ان کوخود سے یہ پوچھناچاہئے کہ ابن عثیمین معطلہ میں شامل ہیں یانہیں۔



عقیدہ نمبر 4
اثبات الحد للہ تعالی

حافظ ذہبی ابتداء عمر میں حافظ ابن تیمیہ سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن بڑھتی عمر اوروسعت مطالعہ کے بعد ابن تیمیہ سے ان کا تاثر کم ہوتاگیا اورپہلے جہاں بعض باتوں میں وہ ان کی موافقت کرتے تھے بعد میں ان کے خلاف اپنی رائے رکھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیر اعلام النبلاء کے بعد جو ذیل سیر اعلام النبلاء لکھاجس مین اپنے مشائخ اوراپنے دور کے علماء کا ترجمہ لکھااس مین یہ صاف صاف وضاحت کردی کہ وہ بہت سے اصولی مسائل اورفروعی مسائل میں ابن تیمیہ کے مخالف ہیں اوران کو تیمیوں نے اورابن تیمیہ کے مخالفین دونوں سے اذیت پہنچی ہے۔(ملاحظہ ہو ذیل سیر اعلام النبلاء ترجمہ ابن تیمیہ)

حافظ ابن تیمیہ اللہ کے لئے حد کا اقرار کرتے ہیں اورصرف اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو اس کا منکر ہو اسے کافر تک قراردینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ان کی صراحت ملاحظہ ہو۔
فهذا كله وما أشبهه شواهد ودلائل على الحد ومن لم يعترف به فقد كفر بتنزيل الله تعالى وجحد آيات الله تعالى وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله فوق عرشه فوق سمواته (بیان تلبیس الجھمیہ فی تاسیس بدعھم الکلامیہ 3/689)
تویہ اورجیسے شواہد اوردلائل جواللہ کیلئے حد کو واضح کرتے ہیں کہ جو اس کامعترف نہ ہو تواس نے اللہ کی تنزیل کا انکار کیا اوراللہ کی آیات کے اعتراف سے منہ موڑا
جب کہ اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ذہبی نے سیراعلام النبلاء میں جو ان کی آخری کتابوں میں سے ایک ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں۔
وتعالی اللہ ان یحد اویوصف الابماوصف بہ نفسہ ،اوعلمہ رسلہ بالمعنی الذی اراد بلامثل ولاکیف (لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر''(سیراعلام النبلاء 16/97)
اللہ کی ذات اس سے بلند ہے کہ اس کو حد میں محصورکیاجائے اورکسی ایسے وصف کوبیان کیاجائے جس سے اس نے اپنے آپ کو متصف نہ کیاہو یاجس معنی کا اس نے ارادہ کیاہے اس کا علم اپنے رسولوں کونہ دیاہو بغیر کسی مثال اورکیف کے۔
لیکن شاید البانی صاحب کی سمجھ میں یہ مسئلہ (حد کا)سمجھ میں نہیں آسکا اورشرح عقیدة الطحاویہ میں اس پر خاموشی سے گزرگئے ہیں اوران کا خاموشی سے گزرنابھی بتایاکہ وہ شاید اس مسئلہ میں امام طحاوی کے ہی موید وموافق ہیں جیسے کہ انہوں نے اللہ کیلئے کسی حد ونہایت کا انکار کیاہے۔
جب کہ اللہ کیلئے حد نہ ہونے کی بات صرف حافظ ذہبی کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر اجلہ اورکبار علماء نے بھی یہی لکھاہے کہ اللہ کو کسی حد سے موصوف سے نہیں کیاجاسکتا۔
بِلَا جسم وَلَا جَوْهَر وَلَا عرض وَلَا حد لَهُ وَلَا ضد لَهُ وَلَا ند لَهُ وَلَا مثل لَهُ
(
الفقہ الاکبرص26)
وَلَا يُوصف الله بِأَكْثَرَ مِمَّا وصف بِهِ نَفسه بِلَا حد وَلَا غَايَة {لَيْسَ كمثله شَيْء وَهُوَ السَّمِيع الْبَصِير}
(
العقیدۃ روایۃا بی بکر الخلال1/127)
وَتَعَالَى عَنِ الْحُدُودِ وَالْغَايَاتِ وَالْأَرْكَانِ وَالْأَعْضَاءِ وَالْأَدَوَاتِ لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات
(
متن الطحاویہ ص45)
ليْسَ كمثله شَيْء كَمَا وصف نَفسه سميع بَصِير بِلَا حد وَلَا تَقْدِير(الابانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ3/327)
فمن العرش إلى ما تحت الثرى محدود والله سبحانه5 فوق ذلك بحيث لا مكان ولا حد، لاتفاقنا أن الله سبحانه6 كان ولا مكان 
(
رسالۃ السجزی الی اھل زبیدفی الرد علی من انکر الحرف والصوت1/196)
وَأَن تعلم أَن خَالق الْعَالم لَا يجوز عَلَيْهِ الْحَد وَالنِّهَايَة
(
التبصیرفی الدین1/158)
اس سلسلے میں یہ واقعہ بڑادلچسپ ہے جو حافظ ذہبی نے محمد بن حبان ابوحاتم البستی کے ترجمہ میں نقل کیاہے کہ ابواسماعیل الھروی نے یحیی بن عمار سے ابوحاتم ابن حبان کے بارے میں دریافت کیاتواس نے کہا۔ہاں میں نے اس کو دیکھا لیکن ہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔ان کے پاس علم توبہت تھا لیکن دینداری زیادہ نہیں تھی۔وہ ہمارے پاس آئے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے حد کا انکار کیا۔توہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔
اس پر حافظ ذہبی اپنی رائے دیتے ہیں کہ 
کسی کا اللہ کیلئے حد کو ثابت کرنا اورکسی کا اللہ کیلئے حد سے انکار کرنا دونوں فضولیات مین سے ہیں۔ کیونکہ اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے۔اس سلسلے میں خاموشی اورسکوت ہی سلف صالحین کا طریقہ کار رہاہے۔
1 قال الحافظ الذهبي في ترجمة الحافظ محمد بن حبان أبي حاتم البستي من الميزان ما نصه: قال أبو إسماعيل الهروي شيخ الإسلام، سألت يحيى بن عمار عن أبي حاتم بن حبان، فقال: رأيته ونحن أخرجناه من سجستان كان له علم كثير، ولم يكن له كبير دين: قدم علينا فأنكر الحد لله، فأخرجناه. قلت: إنكاره الحد وإثباتكم للحد نوع من فضول الكلام والسكوت عن الطرفين أولى، إذ لم يأت نص ينفي ذلك ولا إثباته، والله تعالى: {لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ} فمن أثبته، قال له خصم: جعلت لله حداً برأيك ولا نص معك بالحد. والمحدود مخلوق، تعالى الله عن ذلك. وقال هو للنافي: ساويت ربك بالشيء المعدوم، إذ المعدوم لا حد له. فمن نزه الله وسكت سلم وتابع السلف.
اب اس بارے میں ہمار ی گزارش یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ بڑے شدومد کے ساتھ اللہ کیلئے حد کا اثبات کرتے ہیں۔ اورحافظ ذہبی اس کو فضول کلام بتاتے ہیں۔صرف ابن تیمیہ پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سلسلے مین سب سے پہلے حافظ ابوسعید دارمی نے اپنی کتاب النقض میں اللہ کیلئے حد کی بات مفصل طورپر لکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ کو اس کتاب سے خاص لگاؤ تھا اوروہ اس کو پڑھنے کی اپنے عقیدتمندوں کو ترغیب دیاکرتے تھے۔
اللہ کیلئے حد ،عرش پر قعود کی تصریح اوردیگر ایسے ہی امور ہیں جس کی وجہ سے شیخ زاہد الکوثری اس کتاب کے سخت خلاف تھے اوراس کتاب سے انتہائی بیزاری برتتے تھے ۔ولکل وجہۃ ھومولیہا ۔

عقیدہ نمبر 5
حوادث لااول لہ

یہ مسئلہ ذرافلسفیانہ اورمتکلمانہ بحث ہے لہذا اس کی تشریح میں جائے بغیر کہ اس کا سمجھنابہت سے افراد کیلئے دشوار ہے۔ اس تعلق سے حضرت ابن تیمیہ کا موقف ،البانی کا موف اوردیگر سلفیوں کاموقف سامنے رکھ دیتے ہین قارئین خود غورکریں کہ دوسروں کے عقائد میں تضاد ڈھونڈنے والے خود عقائد مین کیسے مضطرب الاقوال ہیں۔
ابن تیمیہ کاموقف 

حضرت ابن تیمیہ نے اپنی کئی تصانیف میں اس کے اثبات پر بحث کی ہے جس میں بطور خاص درء تعارض العقل والنقل ،منہاج السنۃ،اورتلبیس کلام الجھمیۃ وغیرہ شامل ہیں۔ متکلمین اسلام حضرات حوادث لااول لہ کونہیں مانتے ہیں جب کہ ابن تیمیہ نہ صرف اسے مانتے ہیں بلکہ اس کے ماننے پر زوردیتے ہیں۔ان کے چند اقوال ملاحظہ ہوں۔
ھذامن نمط الذی قبلہ،فان الازلی الازم ھونوع الحادث لاعین الحادث 
(
درء تعارض العقل والنقل 1/388)
اس کے علاوہ حضرت ابن تیمیہ "شرح حدیث عمران بن حصین ص193میں کہتے ہیں
"وان قدران نوعھا لم یزل معہ فھذہ المعیۃ لم ینفھا شرع ولاعقل بل ھی من کمالہ "
حضرت ابن تیمیہ نے یہ بات "موافقۃ صحیح منقولہ لصریح معقولہ 2/75میں بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
"وامااکثر اھل الحدیث ومن وافقھم فانہم لایجعلون النوع حادثابل قدیما"
اس کے علاوہ دیکھئے "نقدمراتب الاجماع "میں حضرت ابن تیمیہ ابن حزم پر تنقید کرتے ہوئے کیاکہہ رہے ہیں۔
وأعجب من ذلك حكايته الإجماع على كفر من نازع أنه سبحانهلم يزل وحده، ولا شيء غيره معه، ثم خلق الأشياء كما شاء ".ومعلوم أن هذه العبارة ليست في كتاب الله، ولا تنسب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم
(
نقد مراتب الاجماع1/304)
صرف حضرت ابن تیمیہ کی ہی بات نہیں ہے بلکہ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری میں اس قول کو ابن تیمیہ کی جانب منسوب ماناہے۔چنانچہ وہ حضرت ابن تیمیہ کے موقف پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وھواصرح فی الرد علی من اثبت حوادث لااول لھا من روایۃ الباب،وھی من مستشنع المسائل المنسوبۃ لابن تیمیہ ،ووقفت فی کلام لہ علی ھذاالحدیث یرجح الروایۃ التی فی ھذاالباب علی غیرھامع ان قضیۃ الجمع بین الروایتیں تقتضی حمل ھذہ علی التی فی بدء الخلق لاالعکس،والجمع یقدم علی الترجیح بالاتفاق
(
فتح الباری 13/410)
حضرت ابن تیمیہ کی اس بات پر مشہور مالکی شافعی فقیہہ اورمحدث ابن دقیق العید نے بھی تنقید کی ہے چنانچہ وہ اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وقع ھنا من یدعی الحذق فی المعقولات ویمیل الی الفلسفۃ ،فظن ان المخالف فی حدوث العالم لایکفر لانہ من قبیل مخالفۃ الاجماع ،وتمسک بقولناان منکر الاجماع لایکفر علی الاطلاق حتی یثبت النقل بذلک متواترا عن صاحب الشرع،قال: ھوتمسک ساقط اماعن عمی فی البصیرۃ اوتعام ،لان حدوث العالم من قبیل مااجتمع فیہ الاجماع والتواتربالنقل
(
فتح الباری 12/202)
حضرت ابن تیمیہ کے کلامی اورفلسفیانہ مباحث میں دخل اندازی کوخود ان کے سب سے بڑے محب حافظ ذہبی نے ناپسند کیا ۔چنانچہ وہ زغل العلم میں اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
ما أظنك في ذلك تبلغ رتبة ابن تيمية ولا والله تقربها، وقد رأيت ما آل أمره إليه من الحط عليه، والهجر والتضليل والتكفير والتكذيب بحق وبباطل، فقدكان قبل أن يدخل في هذه الصناعة منورا مضيئا، على محياه سيما السلف، ثم صار مظلما مكسوفا، عليه قتمة عند خلائق من الناس، ودجالا أفاكا كافرا عند أعدائه، ومبتدعا فاضلا محققا بارعا عند طوائف من عقلاء الفضلاء، وحامل راية الإسلام وحامي حوزة الدين ومحيى السنة عند عوام أصحابه، هو ما أقول لك.

(
زغل العلم 43)
حوادث لااول لہ کے مسئلہ میں خود البانی نے حضرت ابن تیمیہ پرتنقید کی ہے ۔چنانچہ البانی صاحب اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

وفيه رد أيضا على من يقول بحوادث لا أول لها، وأنه ما من مخلوق، إلاومسبوق بمخلوق قبله، وهكذا إلى مالا بداية له، بحيث لا يمكن أن يقال:
هذا أول مخلوق.فالحديث يبطل هذا القول ويعين أن القلم هو أول مخلوق، فليس قبله قطعا أي مخلوق. ولقد أطال ابن تيمية رحمه الله الكلام في رده على الفلاسفة محاولاإثبات حوادث لا أول لها، وجاء في أثناء ذلك بما تحار فيه العقول،ولا تقبله أكثر القلوب، حتى اتهمه خصومه بأنه يقول بأن المخلوقات قديمة لاأول لها، مع أنه يقول ويصرح بأن ما من مخلوق إلا وهو مسبوق بالعدم، ولكنه مع ذلك يقول بتسلسل الحوادث إلى ما لا بداية له. كما يقول هو وغيره بتسلسل الحوادث إلى ما لا نهاية، فذلك القول منه غير مقبول، بل هو مرفوض بهذا الحديث
وكم كنا نود أن لا يلج ابن تيمية رحمه الله هذا المولج، لأن الكلام فيه شبيه بالفلسفة وعلم الكلام الذي تعلمنا منه التحذير والتنفير منه، ولكن صدق
الإمام مالك رحمه الله حين قال: " ما منا من أحد إلا رد ورد عليه إلا صاحب هذا القبر صلى الله عليه وسلم ".
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 1/258)


ایک دوسری جگہ وہ اس سلسلے میں مختصر شرح عقیدۃ طحاویہ جوکہ المکتب الاسلامی سے شائع ہوئی ہے اس میں وہ کہتے ہیں۔


فانی اقول الآن:سواء کان الراجح ھذاام ذاک،فالاختلاف المذکور یدل بمفھومہ علی ان العلماء اتفقوا علی ان ھناک اول مخلوق،والقائلون بحوادث لااول لھا مخالفون لھذاالاتفاق،لانہم یصرحون بان مامن مخلوق الاوقبلہ مخلوق،وھکذا الامالااول لہ، کماصرح بذلک ابن تیمیۃ فی بعض کتبہ،فان قالوا العرش اول مخلوق ،کماہوظاہر کلام الشارح نقضوا قولھم بحوادث لااول لھا،وان لم یقولوابذلک خالفواالاتفاق،فتامل ھذا فانہ مہم۔واللہ الموفق۔
(
العقیدۃ الطحاویہ بشرح المختصر للالبانی طبع المکتب الاسلامی طبع الاولی1978،ص35)







عقیدہ نمبر 6
اثبات الصورۃ

ایک مشہور حدیث ہے۔(مشہور بمعنی اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی۔)ان اللہ خلق آدم علی صورۃ الرحمن اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر اوربعض روایات کے مطابق اپنی صورت پر پیداکیاہے۔

اس حدیث کا ابن تیمیہ نے بیان تلبیس الجھمیہ فی تاسیس بدعھم الکلامیہ میں اثبات کیاہے ۔اس تعلق سے وہ کہتے ہیں۔

وقد ذكر أبو بكر الخلال في كتاب السنة ما ذكره
إسحاق بن منصور الكوسج في مسائله لمشهورة عن أحمد وإسحاق أنه قال لأحمد لا تقبحوا الوجه فإن الله خلق آدم على صورته أليس تقول بهذه الأحاديث قال أحمد صحيح وقال إسحاق صحيح ولا يدعه إلا مبتدع أو ضعيف الرأي 
نے بیان تلبیس الجھمیہ فی تاسیس بدعھم الکلامیہ6/413
جب کہ اس کے بالمقابل البانی صاحب نہ صرف یہ کہ
اس روایت کو درست نہیں مانتے بلکہ اس کے متن کو منکر بھی کہتے ہیں۔چنانچہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد کہتے ہیں۔

وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين ولكن له أربع علل، ذكر ابن خزيمة ثلاثة
منها فقال:إحداها: أن الثوري قد خالف الأعمش في إسناده فأرسله الثوري ولم يقل: " عن ابن عمر ".والثانية: أن الأعمش مدلس لم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت.والثالثة: أن حبيب بن أبي ثابت أيضا مدلس لم يعلم أنه سمعه من عطاء ثم قال:" فمعنى الخبر - إن صح من طريق النقل مسندا - أن ابن آدم خلق على الصورة التي خلقها الرحمن حين صور آدم ثم نفخ فيه الروح ".قلت: والعلة الرابعة: هي جرير بن عبد الحميد فإنه وإن كان ثقة كما تقدم فقد
ذكر الذهبي في ترجمته من " الميزان " أن البيهقي ذكر في " سننه " في ثلاثين حديثا لجرير بن عبد الحميد قال " قد نسب في آخر عمره إلى سوء الحفظ ".
سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ 3/317

البانی صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی چار علتیں بیان کی ہیں بلکہ اس حدیث کوضعیف قراردیتے ہوئے اس کو دیگر احادیث صحیحہ کے مخالف بتایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں

وخلاصة القول: إن الحديث ضعيف بلفظيه وطريقيه، وأنه إلى ذلك مخالف للأحاديث الصحيحة بألفاظ متقاربة، منها قوله صلى الله عليه وسلم:
"
خلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا ". المصدرالسابق3/319
اسی حدیث پر بحث کرتے ہوئے وہ اس کے متن کو منکر بھی کہتے ہیں۔

ولهذا كنت أود للشيخ الأنصاري أن لا يصحح الحديث، وهو ضعيف من طريقيه
، ومتنه منكر لمخالفته للأحاديث الصحيحة.(المصدرالسابق )

اب سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں بات صرف صحت اورضعف کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ یہ حدیث صفات الہی سے بھی تعلق رکھتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ اس کے ماننے پر اورکیفیت کے پیچھے نہ پڑکر اس کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ البانی صاحب اس کو ضعیف اورمنکر بتاتے ہیں۔اب چونکہ بات ایمان کی ہے کس کی مانی جائے اورکس کی ترک کی جائے بالخصوص ایک عامی اس میں کس کی پیروی کرے۔

مزید لطف اس سارے قضیہ میں یہ ہے کہ سعودی کے ایک سلفی نے اس حدیث کے ضعیف اورمنکر قراردینے پر البانی پر تنقید کی ہے اورانکااصرار ہے کہ یہ حدیث صحیح اورثابت ہے۔

موصوف کااسم گرامی حمود التویجری ہے۔ان کی اس سلسلے کی تالیف کانام یہ ہے ۔"عقیدۃ اھل الایمان فی خلق آدم علی صورۃ الرحمن"اس کتاب پر تقریظ عبدالعزیز بن باز نے لکھی ہے۔

البانی پر تنقید کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں۔

وقد ادعی الالبانی فی تعلقیہ علی کتاب السنۃ لابن ابی عاصم ان ھذاالمرسل اصح من الموصول وھذہ دعویٰ لادلیل علیھا فلاتقبل ص21
دوسری جگہ وہ البانی کے بیان کردہ علل پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

والجواب عن ھذاالتعلیل من وجوہ احدھا ان یقال:ان العلل التی ذکرھاابن خزیمہ والالبانی واھیۃ جداص22
موصوف مزید فرماتے ہیں۔
فلاینبغی ان یلتفت الی تضعیف ابن خزیمۃ لہ فضلاعن تضعیف الالبانی لہ تقلیدالابن خزیمہ ص25

ہمیں موصوف کی اس بات سے پتہ چلاکہ البانی صاحب بھی تقلید کرتے ہیں جب کہ البانی صاحب کی پوری زندگی ردتقلید میں گزری ہے۔

اب دیکھئے عقیدہ میں ایک نیاابہام پیداہوگیاہے جولوگ اب تک البانی صاحب کی تحقیق پر مطمئن تھے ان کو حمودالتویجری صاحب نے نیاٹینشن دے دیاہے کہ اس حدیث کو مانوہی مانو اورصرف مانوہی نہیں بلکہ اس پرایمان بھی لاؤ۔
حمیدی اورابن خزیمہ

اس حدیث پر بات صرف البانی ، ابن تیمیہ اورحمودالتویجری تک محدود نہیں ہے بلکہ کچھ متقدمین بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔

وسمعت أبا عبد الله يقول لقد سمعت الحميدي يحضره سفيان بن عيينة فذكر هذا الحديث خلق الله آدم على صورته فقال من لا يقول بهذا فهو كذا وكذا يعني من الشتم وسفيان ساكت لا يرد عليه شيئاً(بیان تلبیس الجھمیہ 6/416)

اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حمیدی نے سفیان بن عیینہ کی موجودگی میں خلق اللہ آدم علی صورتہ کاذکر کیاپھرکہاکہ جواس کا قائل نہ ہو توایساویساہے اس کے سلسلے میں سب وشتم سے کام لیا ۔حضرت سفیان بن عیینہ خاموش رہے انہوں نے کوئی تردید نہیں کی۔

اس کے بالمقابل سفیان بن عیینہ کے عہد سے تھوڑاہی متاخر حضرت امام ابن خزیمہ کااس حدیث کے سلسلے میں یہ قول دیکھئے۔

قال ابن خزيمة توهم بعض من لم يتبحر العلم أن قوله على صو رته يريد صورة الرحمن عز وجل عن أن يكون هذا معنى الخبر بل معنى قوله خلق آدم على صورته الهاء في هذا الموضع كناية عن اسم المضروب والمشتوم أراد أن الله خلق آدم على صورة هذا المضروب الذي أمر الضارب باجتناب وجهه بالضرب والذي قبح وجهه فزجر صلى الله عليه وسلم أن يقول ووجه من أشبه وجهك لأن وجه آدم شبيه وجوه بنيه فإذا قال الشاتم لبعض بني آدم قبح الله وجهك ووجه من أشبه وجهك كان مقيحاً وجه آدم صلوات الله عليه الذي وجوه بنية شبيهة بوجه أبيهم فتفهموا رحمكم الله معنى الخبر لا تغلطوا ولا تغالطوا فتضلوا عن سواء السبيل وتحملوا على القول بالتشبيه لذي هو ضلال(بیان تلبیس الجھمیہ 6/384)

اس میں حضرت ابن خزیمہ نے بڑی وضاحت سے بتادیاکہ جولوگ خلق اللہ آدمی علی صورتہ میں ہ کی ضمیر کامرجع الرحمن یااللہ کی جانب کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جن کو علم میں رسوخ اورتبحر حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس کی تاویل کی ہے پھر اپنے بھائیوں اوربرداران کو نصیحت کرےت ہوئے کہاہے کہ حدیث کے معنی کو سمجھو۔نہ خود غلطی میں پڑو نہ ہی دوسرے کو مغالطہ دو کہ کوئی دوسرا بہک کرسیدھے راستے سے دورجاپڑے۔اوربات تشبیہ تک جاپہنچے جوکہ گمراہی ہے۔
دونوں حضرات کبارمحدثین میں سے ہیں۔ حمیدی اورابن خزیمہ۔ایک اثبات کررہے ہیں اوردوسرااس کی نفی۔
کیایہ عقیدہ کا مسئلہ ہوسکتاہے اوراگرواقعتاعقیدہ کا مسئلہ ہے تواس پر حق پر کون ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ گئے ہوں گے خالی جگہ کا مطلب۔

عقیدہ نمبر 7
اللہ کیلئے حرکت کااثبات ونفی

حضرت ابن تیمیہ اللہ کیلئے حرکت کو نہ صرف ثابت مانتے ہین بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے اسے ائمہ محدثین کا قول بھی قراردیتے ہیں اوربرضاورغبت ان لوگوں کا کلام کرتے ہیں کہ جواللہ کی ذات سے حرکت کی نفی کرتاہے وہ جہمی ہے اورجمہیوں کی گمراہی پر امت کا اتفاق ہے۔

وأئمة السنة والحديث على إثبات النوعين، وهو الذي ذكره عنهم من نقل مذهبهم، كـ حرب الكرماني وعثمان بن سعيد الدارمي وغيرهما، بل صرح هؤلاء بلفظ الحركة، وأن ذلك هو مذهب أئمة السنة والحديث من المتقدمين والمتأخرين، وذكر حرب الكرماني أنه قول من لقيه من أئمة السنة كـ أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وعبد الله بن الزبير الحميدي وسعيد ين منصور.وقال عثمان بن سعيد وغيره: إن الحركة من لوازم الحياة، فكل حي متحرك، وجعلوا نفي هذا من أقوال الجهمية نفاة الصفات، الذين اتفق السلف والأئمة على تضليلهم وتبديعهم.
درء تعارض العقل والنقل2/8)
اس کے بعد وہ کہتے ہیں

وطائفة أخرى من السلفية كـ نعيم بن حماد الخزاعي والبخاري صاحب الصحيح وأبي بكر بن خزيمة، وغيرهم كـ أبي عمر بن عبد البر وأمثاله: يثبتون المعنى الذي يثبته هؤلاء، ويسمون ذلك فعلاً ونحوه، ومن هؤلاء من يمتنع عن إطلاق لفظ الحركة لكونه غير مأثور.
(
المصدرالسابق)

حضرت ابن تیمیہ کا رجحان پہلے گروہ کی طرف ہے کہ اللہ کیلئے حرکت کا استعمال کیاجاسکتاہے اوراسی پر انہوں نے زوربھی دیاہے۔
البانی کا موقف

جب کہ اس کے بالمقابل البانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ محدثین کے دوسری جماعت کے طرز پر اللہ کیلئے حرکت یاکوئی ایسی بات نہ کہی جائے جوکتاب وسنت میں وارد نہیں ہوئی ہے۔

(
تفصیل کیلئے دیکھئے مختصرالعلو العلی العظیم کا مقدمہ )

عقیدہ نمبر 8
توسل کے بارے میں ابن تیمیہ،البانی اورشوکانی کا اختلاف


توسل بالذات کا مسئلہ بڑامعرکۃ الآراء مسئلہ رہاہے۔ مقلدین اورغیرمقلدین کے درمیان تویہ اختلاف ہے ہی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختلاف موجود ہے۔

ابن تیمیہ کا موقف

حضرت ابن تیمیہ توسل کے قائل نہیں تھے جس کی تفصیل "قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ میں دیکھی جاسکتی ہے۔بعد میں جب علماء سے ان کا قاضی کے سامنے مناظر ہوا توانہوں نے توسل کی بات مان لی۔ جیساکہ ان کے شاگرداورمشہور مورخ ابن کثیر نے لکھاہے۔

وقال البرزالی :وفی شوال منہاشکی الصوفیۃ بالقاہرۃ علی الشیخ تقی الدین وکلموہ فی ابن عربی وغیرہ الی الدولۃ،فردوالامر فی ذلک الی القاضی الشافعی ،فعقد لہ مجلس وادعی علیہ ابن عطاء باشیاء فلم یثبت علیہ منہاشیء،لکنہ قال: لایستغاث الاباللہ لایستغاث بالنبی استغاثۃ بمعنی العبار-ولعلھا العبادۃولکن یتوسل بہ ویتشفع بہ الی اللہفبعض الحاضرین قال لیس علیہ فی ھذا شیء ورای القاضی بدرالدین بن جماعۃ ان ھذا فیہ قلۃ ادب (البدایہ والنہایہ14/35)

شوکانی کا موقف

شوکانی صاحب توسل کے قائل ہیں اوراس بات کو انہوں نے اپنی کئی تصنیفات میں بیان بھی کیاہے۔ 

(
يتَوَضَّأ وَيُصلي رَكْعَتَيْنِ ثمَّ يَدْعُو اللَّهُمَّ إِنِّي أَسأَلك وأتوجه إِلَيْك بنبيك مُحَمَّد نَبِي الرَّحْمَة يَا مُحَمَّد إِنِّي أتوجه بك إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتي هَذِه لتقضى لي اللَّهُمَّ فشفعه فِي (ت. س. مس)) // الحَدِيث أخرجه التِّرْمِذِيّ وَالْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك وَالنَّسَائِيّ كَمَا قَالَ المُصَنّف رَحمَه الله وَهُوَ من حَدِيث عُثْمَان بن حنيف رَضِي الله عَنهُ قَالَ جَاءَ أعمى إِلَى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ يَا رَسُول الله ادْع الله لي أَن يعافيني قَالَ إِن شِئْت دَعَوْت وَإِن شِئْت صبرت فَهُوَ خير لَك قَالَ فَادعه قَالَ فَأمره أَن يتَوَضَّأ وَيحسن وضوءه وَزَاد النَّسَائِيّ فِي بعض طرقه فَتَوَضَّأ فصلى رَكْعَتَيْنِ ثمَّ ذكر فِي التِّرْمِذِيّ مَا ذكره المُصَنّف من قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم اللَّهُمَّ إِنِّي أَسأَلك الخ وَأخرجه من حَدِيثه أَيْضا ابْن مَاجَه وَالْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك وَقَالَ صَحِيح على شَرط الشَّيْخَيْنِ وَزَاد فِيهِ فَدَعَا بِهَذَا الدُّعَاء فَقَامَ وَقد أبْصر وَقَالَ التِّرْمِذِيّ حسن صَحِيح غَرِيب لَا نعرفه إِلَّا من هَذَا الْوَجْه من حَدِيث أبي جَعْفَر وَهُوَ غير الخطمي وَقَالَ وَأخرجه الطَّبَرَانِيّ بعد ذكر طرقه الَّتِي روى بهَا والْحَدِيث صَحِيح وَصَححهُ أَيْضا ابْن خُزَيْمَة فقد صحّح الحَدِيث هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّة وَقد تفرد النَّسَائِيّ بِذكر الصَّلَاة وَوَافَقَهُ الطَّبَرَانِيّ فِي بعض الطّرق الَّتِي رَوَاهَا
وَفِي الحَدِيث دَلِيل على جَوَاز التوسل برَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِلَى الله عز وَجل مَعَ اعْتِقَاد أَن الْفَاعِل هُوَ الله سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَأَنه الْمُعْطِي الْمَانِع مَا شَاءَ كَانَ وَمَا يَشَأْ لم يكن //
(
تحفۃ الذاکرین211)

وَأما التوسل بالصالحين فَمِنْهُ مَا ثَبت فِي الصَّحِيح أَن الصَّحَابَة استسقوا بِالْعَبَّاسِ رَضِي الله عَنهُ عَم رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَقَالَ عمر رَضِي الله عَنهُ اللَّهُمَّ إِنَّا نتوسل إِلَيْك بعم نَبينَا
(
المصدرالسابق60)

علاوہ ازیں شوکانی صاحب نے الدرالنضید فی اخلاص کلمۃ التوحید میں بھی توسل کا اعتراف واقرار کیاہے۔
البانی کا موقف

البانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ توسل گمراہی اورزیغ ہے جیساکہ ان کی کتاب" التوسل وانواعہ واحکامہ "میں دیکھاجاسکتاہے اورجس کی تصریح انہوں نے شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی کی ہے۔

أن هناك ثلاثة أنواع للتوسل شرعها الله تعالى، وحث عليها، وَرَدَ بعضها في القرآن، واستعملها الرسول صلى الله عليه وسلم وحض عليها، وليس في هذه الأنواع التوسل بالذوات أو الجاهات أو الحقوق أو المقامات، فدل ذلك على عدم مشروعيته وعدم دخوله في عموم
(
االتوسل وانواعہ واحکامہ30)

اس کے علاوہ البانی صاحب کی یہ تصریح شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
نوٹ:اس موضوع کے سلسلہ میں حسن بن علی السقاف کی کتاب" البشارۃ والاتحاف بمابین ابن تیمیہ والالبانی فی العقیدۃ من الاختلاف " سے مدد لی گئی ہے بلکہ یہ اس کا اختصار ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ تمام کتب کے حوالے کو بذات خود بھی دیکھ لیاجائے۔اوراس کے مالہ وماعلیہ پر نظردوڑالی جائے۔ 

یہ چند موٹے موٹے عقائد تھے جن میں ان کا اختلاف تھا  ،  اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ہیں چونکہ ان کا کوئی مذہب معین نہیں اسلئے   انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے عوام کو بھی گمراہی میں مبتلا کر رکھا ہے اور دین کو مذاق بنا رکھا ہے۔