فرقہ
سلفیہ سے چند آسان سوالات
سوال نمبر
1
استوی کے یہ سب معنی
ہیں
استقرار -ٹھہرنا
استیلا –غلبہ
برابر ہونا
جلوس -بیٹھنا
ان میں سے کچھ معنی
ہیں جو اللہ کی شیان شان نہیں مگر کچھ شیان شان بھی ہیں جیسے استیلا
بلا شبہ اللہ عرش پر
بھی غالب ہے اور ایسا کہنا کہ اللہ عرش پر
غالب ہے یہ اللہ کی شان کے لائق بھی ہے
مگر جب معتزلیہ نے استوئ کے اسی معنی کی تخصیص کی اور اس پر بس کیا اور کہا یہی اللہ کی مراد ہے تو وہ گمراہ کہلائے جبکہ آپ نے استوی کا ایک ایسا
معنی (استقرار ٹھہرنا) اپنایا جس میں
بہت قوی احتمال ہے کہ یہ اللہ کی
شیان شان نہیں اور آپ نے اسی پر معزلیہ کی طرح بس کی اور بقیہ کو جو کہ اللہ کی شان کے لائق بھی ہیں اس کی
تخصیص کو آپ نے غلط بھی قرار دیا۔ جب
معتزلیہ اللہ کیلئے اپنے اس معنی کی تخصیص کرکے
غلط ہو سکتے ہے تو آپ کیسے اللہ کیلئے اس معنی کی تخصیص کرکے صحیح ہو سکتے؟
جب معتزلیہ ایک معنی کا تعین کرکے صفات کے منکر کہلا سکتے ہیں تو آپ کیسے ایک معنی تعین کرکے صفات کے منکر نہیں ہو سکتے؟
سوال نمبر
2
اللہ تعالٰی قرآن
کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ
الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ
فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ
الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ
فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ
إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
(آل عمران آیت 7)
وہی ہے جس نے اتاری
تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں) وہ اصل ہیں
کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ( یعنی جنکے معنیٰ
معین نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی
پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا
سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے
اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔
ہم اور آپ دونوں اس
بات پر متفق ہیں کہ اللہ کی غیر متشابہات صفات بھی ہیں جیسے علم ، حیات ، قدرت ،
سمع ، بصر وغیرہ
اب ہم اور آپ دونوں
ان کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ اللہ کا علم ہے لیکن ہمارے علم کی طرح نہیں اللہ کی
حیات ہے لیکن ہماری حیات کی طرح نہیں۔
یہ صفات تو غیر
متشابہات تھیں۔
اب جو متشابہات ہیں
جیسے ید ، قدم ، وجہ ، استوی علی العرش ،
نزول الی سماء
ان صفات کے متعلق ہم
یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ
ہم نہیں جانتے کہ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور
اسے حق جانتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک مراد معلوم نہیں ہو گی تب تک ایمان
نہیں لایا جاسکتا۔
جب کہ آپ ان صفات متشابہات کے متعلق بھی وہی بات کہتے ہیں جو آپ
غیر متشابہات صفات کے متعلق کہتے ہیں
اللہ کا ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) استوی علی العرش سے جو
اللہ کی مراد ہے وہ آپ کو معلوم ہے جیسا
غیر متشابہات صفات کی مراد معلوم ہے اور کیسے ہے اس کی کیفیت کیا ہے وہ آپ کو معلوم
نہیں جیسا کہ غیر متشابہات صفات کی معلوم
نہیں۔
اب آپ نے صفات
متشابہات اور غیر متشابہات کا بلکل فرق ہی مٹا دیا اور دونوں کیلئے ایک ہی ضابطہ
مقرر کر دیا اگر صفات متشابہات اور غیر متشابہات ایک ہی ہیں تو ان کی تقسیم کیوں
کی گئی اور اگر ان متشابہات کو بھی غیر
متشابہات کی طرح رکھنا تھا تو اللہ نے
ایسا کیوں فرمایا کہ اس قرآن میں متشابہات بھی موجود ہیں؟
سوال نمبر
3
یہ جلیل القدر ائمہ
ہیں جنہوں نے درجہ ظنیت میں تاویل کی کی اور
معتزلیہ کی طرح قطعی طور پر نہیں کی اور متاخرین نے بھی درجہ ظن میں تاویل
کا مسئلہ انہی سے لیا جو کہ انہوں نے بوقت ضرورت کی تھی جیسا ملا علی قاریؒ فرماتے
ہیں :
وَإِنَّمَا دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ،
وَإِنَّمَا دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ،
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
ج 3 ص 923)
ترجمہ:
انہوں نے ایسا اپنے
زمانوں کی مجبوری و ضرورت کی وجہ سے کیا جو یہ تھی کہ ان کے زمانوں میں مجسمہ اور
جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں نے سر اٹھایا اور یہ عوام کی عقلوں پر غالب ہونے لگے تو تاویل کرنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ
ان کے فتنوں کو دفع کریں اور ان کی باتوں
کا توڑ کریں۔
رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ”یوم یکشف عن ساق“(جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ) میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․
رئیس المفسرین حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے سند صحیح کے ساتھ منقول ہے کہ انہوں نے ”یوم یکشف عن ساق“(جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ) میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ: ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ : قال عن شدة الأمر․
(فتح الباری لابن حجر، باب: قول الله
تعالیٰ: وجوہ یومئذٍ ناضرة إلی ربھا ناظرة ج
13 ص 428)
علامہ ابن جریری طبری
رحمہ الله (وفات 310ھ) ﴿یوم یکشف عن ساق﴾ کی تفسیر میں نقل کرتےہیں کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم اور
تابعین رحمہم الله کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری، القلم، تحت
آیة رقم:42)
حضرت عبدالله بن عباس
رضی الله عنہما (وفات 68ھ) حضرت امام
قتادہ (وفات 118ھ) ، حضرت مجاہد (وفات 104ھ) حضرت سفیان ثوری (وفات 161ھ)
رحمہم ا الله نے آیت کریمہ: ”والسماء بنینا ھا بأید وإنا لموسعون“ (آسمان کو ہم نے
اپنے دست سے بنایا )میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔
(تفسیر ابن حبریر الطبری، الذاريات تحت آیة رقم:47)
امام احمد بن حنبل
(وفات 241ھ)
وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ
عَنِ الْحَاكِمِ عَنْ أَبِي عَمْرِو بْنِ السَّمَّاكِ عَنْ حَنْبَلٍ أَنَّ
أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ تَأَوَّلَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: (وَجَاءَ رَبُّكَ)
[الفجر: 22] أَنَّهُ جَاءَ ثَوَابُهُ.
ثُمَّ قَالَ
الْبَيْهَقِيُّ: وَهَذَا إِسْنَادٌ لَا غُبَارَ عَلَيْهِ.
امام احمد بن حنبل
رحمہ الله تعالیٰ (وفات 241ھ) کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام حمدؒ نے ﴿وجاء ربک﴾
(اور آیا آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
امام بیہقی رحمہ الله
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سند پر کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔
( البداية والنهايةج 10 ص 361)
امام بخاریؒ (وفات
256 ھ) اپنی صحیح میں قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں:
{كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ} [القصص: 88] :
" إِلَّا مُلْكَهُ، وَيُقَالُ: إِلَّا مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ
" وَقَالَ مُجَاهِدٌ: " فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمْ {الأَنْبَاءُ} [القصص:
66] : الحُجَجُ "
سورہ قصص کی تفسیر!
بسم اللہ الرحمن الرحیم كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ”ہر چیز ہلاک ہونے
والے ہے سوائے اس کے منہ کے“ میں ”وجھہ“ سے اللہ کی سلطنت مراد ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ اعمال مراد ہیں‘
جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”انبائ“ سے مراد دلیلیں ہیں۔
(صحیح بخاری ج 6 ص 112 کتاب التفسیر)
اب آپ کا انکے متعلق
کیا موقف ہے کیا یہ گمراہ تھے یا نہیں تھے؟ کیا ان کا درجہ ظن میں تاویل کرنا دست
تھا یا نہیں؟
سوال نمبر
4
کیا آپ صرف اسی مسئلہ
میں سلفی ہیں یا اور مسائل میں بھی سلفی ہیں؟ جیسے طلاق ثلاثہ میں ابن تیمیہ اور
ابن قیم سلفی تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو اس مسئلہ میں انہوں نے سلف اور پوری امت کے
اجماع کو کیوں چھوڑا؟
سوال نمبر
5
آپ یہی عقیدہ رکھتے
اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ اللہ عرش کے اوپر اوپر ہے اور عرش اللہ کی ذات کے نیچے آتا ہے۔
جبکہ
اللہ تعالٰی قرآن
کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ
وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
(الحدید 3)
وہی اول وہی آخر وہی
ظاہر وہی باطن
رسول اللہﷺ اس آیت کی
تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك
شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے
تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر
کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے تیرے نیچے کچھ
نہیں۔
(صحیح مسلم)
دون کا مطلب
”علاوہ“ بھی ہوتا ہے اور ”دون“ کا مطلب
”نیچے بھی ہوتا ہے۔
المورد ص 557))
ہم
دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ ”دون“ نیچے کیلئے استعمال ہوا
ہے اور اوپر جو نبیﷺ کی حدیث ہے اگر اسے بغور دیکھا جائے تو
معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نیچے کیلئے ہی استعمال ہوا ہے۔
نبی کریمﷺ کی حدیث ہے
وَلَا الْخُفَّيْنِ
إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ تَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَمَا دُونَ
الْكَعْبَيْنِ
”اور اگر تمہارے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے
پہن لیا کرو“۔
(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)
امام بيهقي رحمہ الله
فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ
أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ
الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ
وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
(الأسماء والصفات للبيهقي ج۲ ص۲۸۷)
”ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ
کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن
یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ
نہیں تو اللہ مکان و جگہ سے پاک ہے۔ “
اب آپ بتائے کہ اللہ کے نیچے کچھ نہیں کا کیا
مطلب ہے؟ کیا ایسا عقیدہ رکھنا صحیح ہے؟
سوال نمبر
6
آسمان بھی تو مخلوق
ہے جس طرح زمین مخلوق ہے وہاں اللہ کی ذات
کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ وہ رات کے وقت آسمان دنیا پر آتی ہے اب وہاں اللہ کی ذات
آسمان میں آئے تو پھر بھی مکان
و جگہ سے پاک ا ؟ اور یہاں کوئی
موجود مانے تو حلول کہلائے؟
سوال نمبر
7
اشاعرہ ماتریدیہ قرآن و حدیث کے مخالف ہیں یا نہیں ؟ ان کی کون
سی بات قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے
خلاف ہے ان کی کتب سے دیکھائیں۔
سوال نمبر
8
اگر فرض کر لیا جائے
کوئی شخص کہتا ہے کہ میں استویٰ علی العرش کی کیفیت کو مجھول نہیں مانتا پھربتائیں
کہ وہ اسکا کون سا مطلب کرے گا اور کون سا عقیدہ اس سے نکلے گا جو آپ حضرات اب نہیں رکھتے۔
سوال نمبر
9
کیا اللہ تعالٰی کو
اوپر کی طرف سے پکارنا محض اسی لئے ہے کہ
اللہ کی ذات اوپر ہی ہے؟ اگر اللہ کو اوپر کی طرف سے پکارنے کی یہی وجہ ہے تو جس
وقت آپ دن کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں وہ طرف پھر رات کے وقت نیچے چلی جاتی ہے اور
رات کو جس وقت آپ اللہ کو اوپر کی طرف سے پکار رہے ہوتے ہیں وہ وہی طرف ہوتی ہے جو
کہ دن کو نیچے تھی ۔ اور دنیا میں کہیں ایک جیسا وقت نہیں ہوتا ایک جگہ پر دن ہوتا ہے اور اسی وقت دوسری جگہ رات بھی ہوتی ہے جو آدمی دن میں اللہ کو جس طرف سے پکار رہا
ہوتا ہے بیک وقت دوسری طرف ایک دوسرا آدمی اس کے مخالف جگہ کی طرف سے اللہ کو پکار رہا ہوتا ہے۔ اب اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات کی ذات کسی
خاص جگہ میں نہیں۔ کیا اب ایسا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی ذات کسی خاص جگہ میں نہیں؟
سوال نمبر
10
استویٰ علی العرش کے بعد جہاں اب اللہ کو مانتے
ہیں کیا استویٰ علی العرش سے پہلے اللہ وہاں نہیں تھا ؟
سوال نمبر
11
استویٰ معلوم ہونے کا
یہ معنی نہیں کہ جو ہمیں معلوم ہے وہی اللہ کی مراد ہے۔
امام جلال الدین
سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ
السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا
وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا
نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں
سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ
اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر
نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
جس پر ایک سلفی عالم
نے یہ کلام کیا ہے
مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ ثكالي الجهمية
مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ ثكالي الجهمية
امام سیوطی (رحمہ
اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر
رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
(والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية
قوله 28)
آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ
کو معلوم ہے کہ استویٰ کیا ہے مگر کیفیت کیا ہے یہ آپ کو معلوم نہیں اگر آپ کو یہ معلوم ہے کہ استویٰ کیا ہے تو پھر آپ بتاتے کیوں نہیں؟
سوال نمبر
12
کیا صفات کے ظاہری
معنی اللہ کیلئے مراد لئے بغیر صفات پر
ایمان نہیں لایا جاسکتا؟
سوال نمبر
13
کیا آپ بھی آسمانوں
کو ایسے ہی خالی مانتے ہیں یا نہیں جیسے جہمیہ مانتے ہیں؟
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ
سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ
أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح)
”سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ
فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ
آسمان میں کچھ نہیں ہے“
سوال نمبر 13
جب اللہ کے قرآن کی (یٰسؔ ، الؔر ، كؔهؔيؔعؔصؔ) وغیرہ
آیات متشابہات پر ایمان لانے کیلئے اللہ کی مراد کا معلوم ہونا ضروری نہیں تو پھر
اللہ کے کلام کی دوسری آیت ( استوي ، يد عين) جیسے متشابہات پر ایمان لانے کیلئے
اللہ کی مراد کا معلوم ہونا ضروری کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟
سوال نمبر 14
کیا اللہ کی صفات اللہ کی ذات سے جدا ہیں؟
سوال نمبر 15
سلفیوں کے شیخ ابن
العثیمین لکھتے ہیں:
واذا كان علماء اهل السنة لهم في هذا ثلاثة قول يخلو، وقول بانه لا
يخلو، وقول بالتوقف
(شرح عقیدہ الاوسطیہ
للعثیمین ص 261)
علماء اہل سنت کے
(نزول) کے بارے میں تین قول ہیں
1 : نزول کے وقت عرش خالی
ہو جاتا ہے۔
2: نزول کے وقت عرش خالی
نہیں ہوتا۔
3: اس پر توقف کیا جائے۔
ابن عثیمین نے اہلسنت پر
یہ بہتان عظیم باندھا ہے کہ اہلسنت کے نزول کے متعلق تین قول ہیں البتہ ان کے فرقے
کے اس متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے تین مختلف اقوال ہیں جن سے جان چھڑانے
کیلئے ابن عثیمین نے ان اقوال کو اہلسنت کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
اب بتایئے ان میں سے کس کا
عقیدہ صحیح ہے؟؟
پہلے قول کے مطابق نزول کے
وقت اللہ کا عرش خالی ہو جاتا ہے اور بقول ابن عثیمین یہ اہلسنت کا قول ہے کہ عرش
خالی ہوتا ہے۔ دوسرے قول کے مطابق اللہ کا عرش خالی نہیں ہوتا یہ
بھی اہلسنت کا قول ہے اور تیسرا یہ کہ اس پر توقف کیا جائے یہ بھی اہلسنت کا
قول ہے۔
اب جو نزول کے وقت
اللہ کے عرش کو خالی مانے وہ بھی اہلسنت جو عرش کو خالی نہ مانے وہ بھی
اہلسنت اور جو یہ کہے کہ اسے معلوم نہیں کہ کیا ہوتا ہے تو وہ بھی اہلسنت۔ نعوذ
باللہ من ذالک یہ عقائد ابن عثیمین نے کہاں سے لئے ہیں اسلاف میں سے کس نے کہا ہے
کہ نزول کے متعلق تین قول ہین اور تینوں اہلسنت کے ہیں اور حق ہیں؟؟
سوال نمبر16
اللہ کا علم غیر
محدود ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو آپ کیا کہتے ہیں کہ اللہ کا علم کہاں کہاں ہے؟ اور اللہ کے علم کے لیئے
حدود کس نظریے سے لازم آئیں گے؟
اللہ کی ذات غیر محدود ہے یا نہیں؟ اگر غیرمحدود ہے تو اللہ کی ذات کہاں کہاں ہے؟ اور اللہ کی ذات کیلئے
حدود کس نظریے سے لازم آئیں گے؟
اگر اللہ کی ذات کو محدود مانتے ہو تو ڈرتے کیوں ہو ذرہ
کھل کر کہو طالب الرحمن کی طرح
(جاری)