غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Saturday 11 July 2015

بری جگہوں پر اللہ کی ذات و صفات کا تصور Har Jagha

بری جگہوں پر اللہ کی ذات و صفات کا تصور
فرقہ سلفیہ لامذہبیہ ایک عقلی ڈھکوسلہ ضرور دیتے ہیں کہ
اگر اللہ ہر جگہ ہے تو پھر کیا اللہ گندی جگہوں پر بھی ہے بیت الخلا میں بھی ہے؟
حالانکہ یہ اعتراض تب  بنے جب کوئی اللہ کی ذات  کیلئے حلول (مکس) یا اتحاد (جڑ) کا قائل ہو جیسا کہ جہمیہ ہیں جو کہ حلول اور اتحاد کے قائل ہیں انہیں تو ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں مگر جو اس کا قائل نہیں  اس پر یہ اعتراض نہیں پڑتا اب ہم تو یہ کہتے نہیں کہ اللہ مخلوق میں مکس ہو گیا ہے یا اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔کیونکہ اللہ اس سے پاک ہے اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔
 لیکن یہ فرقہ چونکہ اللہ کی ذات  کو ایسا ہی حقیر سمجھتا ہے کہ اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد ہو جائے گا اس لئے یہ اعتراض پھر ہم پر  کرتے ہیں لیکن یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ انہی پر جاتا ہے نزول الی السماء کے وقت اللہ کی ذات کا سب سے نچلے آسمان پر مانتے ہیں ساتھ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی ذات مخلوق کے پاس ہو تو حلول اور اتحاد کے سوا کوئی راستہ نہیں اسلئے یہ فرقہ یہاں حلولی جہمی ہوجاتا ہے۔
یاد رہے  دنیا کی چاہے  گندی اور بری سے بری جگہ ہی کیوں نہ ہو وہ جہنم  کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اور جہنم کے متعلق خود نبیﷺ فرماتے ہیں وہاں اللہ تعالٰی قیامت کے روز اپنا قدم اس میں رکھیں گے۔
حدثنا أنس بن مالک أن نبي الله (صلی اللہ علیہ وسلم) قال لا تزال جهنم تقول هل من مزيد حتی يضع فيها رب العزة تبارک وتعالی قدمه فتقول قط قط وعزتک ويزوی بعضها إلی بعض

حضرت انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی نے فرمایا دوزخ لگاتار یہی کہتی رہے گی ھل من مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھر دوزخ کہے گی تیری عزت کی قسم بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2676 )
لامذہبیہ اللہ کی ان صفات کو اللہ کی شان کے لائق نہیں چھوڑتے بلکہ وہ انہیں اس کی ذات کے جز  اعضا تصور کرتے ہیں۔
 اور ان لامذہبیہ کے نزدیک اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد لازم آئے گا۔
اب ان کے اس عقیدے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ یہ اس وقت جہنم میں اللہ کی ذات کو حلول  کے ساتھ مانیں یا اتحاد کے ساتھ اب یہ بتائیں کہ جہنم میں یہ کس کے ساتھ مانیں گے حلول کے ساتھ یا اتحاد کے ساتھ؟
ہمارا ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ یہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا علم ہر جگہ ہے اب ہم ان سے پوچھتے ہیں اگر اللہ کی صفت علم ہر جگہ ہے تو کیا اللہ کی یہ صفت بیت الخلا میں بھی ہے؟
کلام اللہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے جو کہ حافظ کے دل میں محفوظ ہوتی ہے کیا  جب حافظ بیت الخلا جاتا ہے تو کیا وہ اللہ کی صفت کو ساتھ لے کر جاتا ہے؟
بنی آدم کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
«مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ»
ہر دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے چاہیں تو اسے سیدھا فرما دیں اور چاہیں تو ٹیڑھا کر دیں
(سنن ابن ماجہ ج 1 حدیث نمبر 199)
ایک اور حدیث ہے
«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ»
تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔
(صحیح مسلم ج 4 حدیث نمبر 2249)
سلفیوں کے ایک مولوی خلیل ہراس نے لکھا ہے کہ اللہ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کا جز ہیں۔
 خليل هراس كتاب التوحيد لابن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں
ص63 :
 القبض إنما يكون باليد حقيقة لا بالنعمة
فإن قالوا : إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته الإنعام .
قلنا لهم : وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فلا مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم .. )) اهـ !
خليل هراس الله كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے :
”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ، اگر كوئي  کہے کہ باء سبب كے  لیئے ، يعني الله نے نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں : كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خلاصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو الله سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ، يهاں الله كے پكڑنے كو بهي كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس ان
كے هاں الله كي صفت يد الله تعالي كے ليے پكڑنے كا آله هے اور الله كا پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذبالله ،، الله الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اسي التوحيد كے تعليقات ميں :
ويقول 89 :
(( ومن أثبت الأصابع لله فكيف ينفي عنه اليد والأصابع جزء من اليد ؟؟!! )) اهـ
ترجمه : اور جس نے الله كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح الله سے هاته كي نفي كرتا هے حالانكه انگلياں هاته هي كا جزء هے (نعوذبالله)
يهاں الله تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ، كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه الله كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔ 

اب یمارا  ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ کیا  آدمی جب بیت الخلا جاتا ہے تو کیا اللہ کی انگلیوں کو باہر چھوڑ کر جاتا ہے؟ دوسرا یہ کہ اللہ کی ذات کو  آپ  لوگ صرف عرش کے اوپر ٹھہراتے ہیں اب اللہ کی ذات اوپر اور اس کا ہاتھ اور انگلیں نیچے ؟
یہ اعتراض خود فرقہ اہل حدیث پر جاتا ہے۔
1
فرقہ اہل حدیث کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی
لکھتے ہیں
 ”ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لاشریک لہ باری تعالٰی کے واسطے ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 6)

2
فرقہ اہلحدیث کے شیخ السلام ثناء اللہ امرتسری  الجہمی
لکھتے ہیں
 ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے“۔
(تفسیر ثنائی ص 347 )

3
محقق اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی
 لکھتے ہیں
وكما نقول هذا الاستواء والكون في تلك الجهة فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ ولا نتكلف بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوك‍ن العلم و عليتهفان هزا شعبة من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف و تبائن ماكان عليهه الصحابة و تابعوهم رضوان اللہ عليهم اجمعين
ترجمہ
”جیسا ہم استواء اور جہت فوق کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں ویسا ہی ان اقوال خدا وندی هو معكم وغيرہ ”وہ تمہارے ساتھ“ ہے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ ہم اس کی تاویل علم کے ساتھ یا نصرت کے ساتھ کرنے میں تکلف نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے غیر  کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ ساتھ ہونے سے اس کا علم مراد ہے کیونکہ یہ بھی تاویل کی ایک شاخ ہے جو مذہب صحابہ ؓ و تابعین وغیرہ سلف کے خلاف ہے “
(التحف ص 16  بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 202)

ان کے بارے میں کیا خیال ہے آج کے لامذہبوں کا ؟

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی چاہے اچھے سے اچھی  یا  بری سے بری تمام مخلوقات کا خالق ہے لیکن  یہ گواہی دینے کے بعد اس کی شان گھٹانے کی غرض سے اس کی ہر ہر مخلوق کے متعلق یہ پوچھے  کہ کیا اس کا بھی اللہ خالق ہے اس کا بھی اللہ خالق ہے درست نہیں۔
یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ”اللہ اکبر“ اللہ سب سے بڑا ہے مگر یہ اقرار کرنے کے بعد  کوئی احمق کہے کہ کیا اللہ میرے ہاتھ سے بڑا ہے میری انگلیوں سے بڑا ہے کیا  فلاں چیز سے فلاں جانور سے بھی بڑا ہے قطعاً درست نہیں۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہہ دو کہ اللہ  سب سے بڑا ہے بس۔
بعض چیزوں کو اجمالاً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے،اگر تفصیلات بیان کریں تو خلافِ ادب ہے۔ مثلاً سسر اپنے داماد کو کہے: ’’میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘،تو اجمالاً قول ہونے کی وجہ سے یہ ادب ہے لیکن اگر وہ تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا خالق اللہ ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک عضو کا نام لے کر یہی بات کہی جائے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے‘‘یہ اجمالاً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درست اور ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک جگہ کا جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں، نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگا۔لہذا ایسا سوال کرنا ہی غلط، نامناسب اور ناجائز ہے۔
یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے قرآن کریم کو بیت الخلاء میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حالانکہ ہر حافظ جب بیت الخلاء جاتا ہے تو قرآن اس کے سینے میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ، کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم اللہ تعالیٰ کا جسم ہی ثابت نہیں کرتے تو بے ادبی لازم نہیں آتی ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخلاء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں، اگر ہے تو بیت الخلاء میں بابرکت کیسے ؟ تو اس کا یہ سوال لغو ہوگا کیونکہ جب رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں ۔اللہ کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔
نوٹ :
اللہ کو ہر جگہ کہنے سے ہماری مراد اللہ کیلئے کسی جگہ کا اثبات کرنا نہیں بلکہ کسی بھی جگہ کے مقرر کرنے کی نفی کرنی ہے۔
اللہ کی ذات کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو کہ تمام اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات موجود بلا مکان و جگہ ہے جیسا تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تھی اب بھی ویسے ہی ہے (ملاحظہ ہو اشعریہ ماتریدیہ کا منہج اور فرقہ سلفیہ سے ان کا اختلاف اختلاف نمبر 2) اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔