امام ابو حنیفہؒ، کی کتاب الفقہ الاکبر
،الابسط کے راوی اور ان کے شاگرد امام ابو مطیع بلخیؒ
1۔عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں
: أَبُو مطيع له المنة على جميع أَهْل الدنيا.(تاریخ بغداد ج 8 ص 220)
ابو مطيعؒ کا ساری دنیا کے لوگوں پر بہت احسان ہے۔
2۔خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں
وكان فقيها بصيرا بالرأي
آپ فقهاء تھے اور اہل بصیرت میں بڑے صاحب بصیرت تھے۔
(تاریخ بغداد ت بشار ج1 ص121)
3۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وكان ابن المبارك يعظمه ويجله لدينه وعلمه
عبد اللہ بن مبارکؒ ان کی دین اور علم کی وجہ سے ان کی تعظیم اور بڑائی کے قائل تھے۔ (لسان المیزان ج2 ص334)
4۔ابن حجر عسقلانیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
وكان بصيرا بالرأي علامة كبير الشأ
اہل رائے میں آپ بڑے صاحب بصیرت تھے اور بڑی شان والے علامہ تھے۔(لسان المیزان ج 2 ص334)
5۔امام مالک نے کسی آدمی سے پوچھا کہاں سے آئے ہو اس نے جواب دیا بلیخ سے آیا ہوں جس کے جواب میں امام مالک نے فرمایا:
قَالَ مَالِك بْن أَنَس لرجل: من أين أنت؟ قَالَ: من بلخ، قَالَ:قاضيكم أَبُو مطيع قام مقام الأنبياء.
تمہارے قاضی ابو مطیع انبیاء کے قائم مقام ہیں۔ (تاریخ بغداد ج8 ص220)
6۔علامہ ذہبی کتاب العبرمیں فرماتے ہیں کہ ابو داؤد کہا کرتے تھے۔
عن كتاب العبر للذهبي عن أبي داود وبلغنا أنه من كبار الأمارين بالمعروف والناهين عن المنكر
ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ابو مطیع امر معروف اور نہی منکر کرنے کے بہت اعلٰی درجے پر فائز تھے۔(حاشیہ لسان المیزان ج2 ص335)
ی7۔علامہ خلیلؒ امام ابو مطیع بلخی کے ساتھ علماء کی ناراضگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال الخليلي في الإرشاد كان على قضاء بلخ وكان الحفاظ من أهل العراق وبلخ
ابو مطیع بلخی کے منصب قضا پر فائز تھے اور عراق و بلخ کے حفاظ حدیث آپ سے راضی نہ تھے۔(لسان المیزان ج2 ص336)
جو شخص امر معروف اور نہی منکر کا عادی ہو اور اس میں وہ حاکم وقت کی بھی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہو بھی حنفی اس کو برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا اس لئے لوگوں نے ان کے بارے میں رنگا رنگ باتیں پھیلا نا شروع کر دیں، یہ عادت اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ ایسا ہوتا رہا ہے۔
8۔شوذب ؒ کے نزدیک ابو مطیع ؒ کا مقام
دخلت مع حمويه بن خليد العابد على شوذب بن جعفر سنة الرجفة، فقال شوذب لحمويه: رأيت الليلة أبا مطيع في المنام، فكأني قلت: ما فعل بك؟ فسكت حتى ألححت عليه، فقال: إن الله قد غفر لي وفوق المغفرة.
شوذبؒ اپنے ساتھی حمویہ سے کہتے ہیں ایک رات میں نے خواب میں ابو مطیع کو دیکھا گویا کہ میں ان سے پوچھ رہا ہوں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے کیسا معاملہ ہوا؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے اصرار کیا تو آپ نے جواب دیا
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت فرمادی ہے اور بہت اونچی بخشش فرمائی ہے۔ (تاریخ بغداد ج8 ص219)
ابو مطیع بلیخ ؒ پر محدثین نے کچھ جرحیں بھی نقل کی ہیں جو کہ مبہم اور غیر مفسر ہیں اور یہ جرح اصول حدیث کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہوتیں (الکافیہ فی علم الروایہ للخطیب ص 101، صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح ص96 ، توجیہ النظرج2 ص550)
اما م احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ابو مطیع سے روایت کرنا مناسب نہیں کیونکہ ان کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے ”جنت اور دوزخ دونوں پیدا کئے گئے ہیں اور عنقریب دونوں فنا ہو جائیں گے“۔(تاریخ بغداد ج8 ص235)
جواب:
یہ الزام سنی سنائی بات پر مبنی ہے اور ہے بھی سرا سر غلطے کاش امام احمد بن حنبلؒ تک ابو مطیعؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کردہ کتاب پہنچی ہوتی جس میں وہ اس عقیدہ کا خود رد کرتے ہیں اور ایسے شخص کو کافر کہتے ہیں۔
قَالَ إنَّهُمَا تفنيان بعد دُخُول اهلهما فيهمَا فقد كفر بِاللَّه تَعَالَى لِأَنَّهُ انكر الخلود فيهمَا
(الفقه الابسط ص157:حکم من كذب بالخلق او انكر معلوما من الدین بالضرورۃ)
نوٹ: یہ عقیدہ جہمیہ کا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں جتنی اور جہنم میں جہنمی ایک وقت تک رہیں گے پھر یہ فنا ہو جائیں گی۔
یہ امام ابو مطیع پر جہمیہ ہونے کے الزام کا جواب ہے۔
: أَبُو مطيع له المنة على جميع أَهْل الدنيا.(تاریخ بغداد ج 8 ص 220)
ابو مطيعؒ کا ساری دنیا کے لوگوں پر بہت احسان ہے۔
2۔خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں
وكان فقيها بصيرا بالرأي
آپ فقهاء تھے اور اہل بصیرت میں بڑے صاحب بصیرت تھے۔
(تاریخ بغداد ت بشار ج1 ص121)
3۔ علامہ ذہبیؒ اور ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وكان ابن المبارك يعظمه ويجله لدينه وعلمه
عبد اللہ بن مبارکؒ ان کی دین اور علم کی وجہ سے ان کی تعظیم اور بڑائی کے قائل تھے۔ (لسان المیزان ج2 ص334)
4۔ابن حجر عسقلانیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
وكان بصيرا بالرأي علامة كبير الشأ
اہل رائے میں آپ بڑے صاحب بصیرت تھے اور بڑی شان والے علامہ تھے۔(لسان المیزان ج 2 ص334)
5۔امام مالک نے کسی آدمی سے پوچھا کہاں سے آئے ہو اس نے جواب دیا بلیخ سے آیا ہوں جس کے جواب میں امام مالک نے فرمایا:
قَالَ مَالِك بْن أَنَس لرجل: من أين أنت؟ قَالَ: من بلخ، قَالَ:قاضيكم أَبُو مطيع قام مقام الأنبياء.
تمہارے قاضی ابو مطیع انبیاء کے قائم مقام ہیں۔ (تاریخ بغداد ج8 ص220)
6۔علامہ ذہبی کتاب العبرمیں فرماتے ہیں کہ ابو داؤد کہا کرتے تھے۔
عن كتاب العبر للذهبي عن أبي داود وبلغنا أنه من كبار الأمارين بالمعروف والناهين عن المنكر
ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ابو مطیع امر معروف اور نہی منکر کرنے کے بہت اعلٰی درجے پر فائز تھے۔(حاشیہ لسان المیزان ج2 ص335)
ی7۔علامہ خلیلؒ امام ابو مطیع بلخی کے ساتھ علماء کی ناراضگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال الخليلي في الإرشاد كان على قضاء بلخ وكان الحفاظ من أهل العراق وبلخ
ابو مطیع بلخی کے منصب قضا پر فائز تھے اور عراق و بلخ کے حفاظ حدیث آپ سے راضی نہ تھے۔(لسان المیزان ج2 ص336)
جو شخص امر معروف اور نہی منکر کا عادی ہو اور اس میں وہ حاکم وقت کی بھی پرواہ نہ کرتا ہو اور ہو بھی حنفی اس کو برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا اس لئے لوگوں نے ان کے بارے میں رنگا رنگ باتیں پھیلا نا شروع کر دیں، یہ عادت اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ ایسا ہوتا رہا ہے۔
8۔شوذب ؒ کے نزدیک ابو مطیع ؒ کا مقام
دخلت مع حمويه بن خليد العابد على شوذب بن جعفر سنة الرجفة، فقال شوذب لحمويه: رأيت الليلة أبا مطيع في المنام، فكأني قلت: ما فعل بك؟ فسكت حتى ألححت عليه، فقال: إن الله قد غفر لي وفوق المغفرة.
شوذبؒ اپنے ساتھی حمویہ سے کہتے ہیں ایک رات میں نے خواب میں ابو مطیع کو دیکھا گویا کہ میں ان سے پوچھ رہا ہوں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالٰی کی طرف سے کیسا معاملہ ہوا؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں نے اصرار کیا تو آپ نے جواب دیا
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری مغفرت فرمادی ہے اور بہت اونچی بخشش فرمائی ہے۔ (تاریخ بغداد ج8 ص219)
ابو مطیع بلیخ ؒ پر محدثین نے کچھ جرحیں بھی نقل کی ہیں جو کہ مبہم اور غیر مفسر ہیں اور یہ جرح اصول حدیث کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہوتیں (الکافیہ فی علم الروایہ للخطیب ص 101، صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح ص96 ، توجیہ النظرج2 ص550)
اما م احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں ابو مطیع سے روایت کرنا مناسب نہیں کیونکہ ان کے بارے میں یوں کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے ”جنت اور دوزخ دونوں پیدا کئے گئے ہیں اور عنقریب دونوں فنا ہو جائیں گے“۔(تاریخ بغداد ج8 ص235)
جواب:
یہ الزام سنی سنائی بات پر مبنی ہے اور ہے بھی سرا سر غلطے کاش امام احمد بن حنبلؒ تک ابو مطیعؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے روایت کردہ کتاب پہنچی ہوتی جس میں وہ اس عقیدہ کا خود رد کرتے ہیں اور ایسے شخص کو کافر کہتے ہیں۔
قَالَ إنَّهُمَا تفنيان بعد دُخُول اهلهما فيهمَا فقد كفر بِاللَّه تَعَالَى لِأَنَّهُ انكر الخلود فيهمَا
(الفقه الابسط ص157:حکم من كذب بالخلق او انكر معلوما من الدین بالضرورۃ)
نوٹ: یہ عقیدہ جہمیہ کا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں جتنی اور جہنم میں جہنمی ایک وقت تک رہیں گے پھر یہ فنا ہو جائیں گی۔
یہ امام ابو مطیع پر جہمیہ ہونے کے الزام کا جواب ہے۔