صفات باری تعالٰی کے متعلق
علماء سلف کےموقف کے متعلق علماء اہلسنت
کی شہادتیں
مفکر اسلام علامہ ابن خلدونؒ (وفات 808ھ) فرماتے ہیں:۔
اعلم أنّ الله سبحانه وصف نفسه في كتابه بأنّه عالم،
قادر، مريد، حيّ، سميع، بصير، متكلّم، جليل، كريم، جواد، منعم، عزيز، عظيم. وكذا
أثبت لنفسه اليدين والعينين والوجه والقدم واللّسان، إلى غير ذلك من الصّفات:
فمنها ما يقتضي صحّة ألوهيّة، مثل العلم والقدرة والإرادة، ثمّ الحياة الّتي هي
شرط جميعها، ومنها ما هي صفة كمال، كالسمع والبصر والكلام، ومنها ما يوهم النقص
كالاستواء والنزول والمجيءوكالوجه واليدين والعينين الّتي هي صفات المحدثات
یعنی اللہ تعالٰی کی مختلف صفات ہیں
1۔
بعض تو وہ ہیں جو ”صحت
الوہیت“ کی مقتضی ہیں جیسے علم قدرت، حیات وغیرہ
2۔بعض
وہ ہیں جو ”کمال محض“ ہیں جیسے سمع ، بصر ، کلام وغیرہ
3۔
اور بعض وہ ہیں جو ”موہم نقص“ ہیں جیسے
استویٰ ، نزول ، ہاتھ آنکھیں وغیرہ
پھر
فرماتے ہیں:
فأمّا السّلف من الصحابة والتابعين فأثبتوا له صفات
الألوهيّة والكمال وفوّضوا إليه ما يوهم النقص ساكتين عن مدلوله
”ہمارے سلف صحابہ اور تابعین نے ”صفات الوہیت“ اور ”صفت کمال“ تو اللہ کے لیے
ثابت کی ہیں اور جو موہم نقص صفات ہیں انہیں اللہ کے سپرد کیا ہے اور ان کے مدلول
بیان کرنے سے سکوت اختیار کیا ہے“۔
.( تاریخ
ابن خلدون ج 1 ص 602-603)
محدث امام نوویؒ (وفات 676ھ) فرماتے ہیں:۔
اعْلَمْ أَنَّ لِأَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَحَادِيثِ
الصِّفَاتِ وَآيَاتِ الصِّفَاتِ قَوْلَيْنِ أَحَدُهُمَا وَهُوَ مَذْهَبُ مُعْظَمِ
السَّلَفِ أَوْ كُلِّهِمْ أَنَّهُ لَا يُتَكَلَّمُ فِي مَعْنَاهَا بَلْ يَقُولُونَ
يَجِبُ عَلَيْنَا أَنْ نُؤْمِنَ بِهَا وَنَعْتَقِدَ لَهَا مَعْنًى يَلِيقُ
بِجَلَالِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَظَمَتِهِ مَعَ اعْتِقَادِنَا الْجَازِمِ أَنَّ
اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَأَنَّهُ مُنَزَّهٌ عَنِ التَّجَسُّمِ
وَالِانْتِقَالِ وَالتَّحَيُّزِ فِي جِهَةٍ وَعَنْ سَائِرِ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِ
وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ مَذْهَبُ جَمَاعَةٍ مِنَ الْمُتَكَلِّمِينَ
”جان لو اہل علم کا قرآن و حدیث میں موجود ان
صفات کے متعلق وہی مذہب ہے جو کہ جمہور سلف کا تھا کہ
معنی میں کلام نہیں کرنا بلکہ وہ یوں کہتے
ہیں کہ واجب ہے ان پر ایمان لانا، اور یہ
اعتقاد رکھنا کہ اس کا وہی معنی ہے جو اللہ کی شان کے لائق ہے ، اور یہ اعتقاد
رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی کسی چیز کی مثل نہیں وہ پاک ہے جسم سے ، اور کہیں منتقل
ہونے سے ، اور جھت میں ہونے سے اور کسی بھی مخلوق کی صفات سے
یہی
قول ہے علماء متکلمین کا اور محققین اسلام کا“۔
(شرح صحیح مسلم للنووي ج 3 ص 19)
امام نوویؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ وطائفة من
المتكلمين أنه لايتكلم فِي تَأْوِيلِهَا بَلْ نُؤْمِنُ أَنَّهَا حَقٌّ عَلَى مَا
أَرَادَ اللَّهُ وَلَهَا مَعْنَى يَلِيقُ بِهَا وَظَاهِرُهَا غَيْرُ مُرَادٍ
”جمہور سلف اور متکلمین کی جماعت کا کہنا ہے کہ تاویل میں کلام نہیں کرنا
بلکہ ایمان لانا ہے کہ وہی حق ہے جو اللہ
کا ارادہ ہے اور معنی وہی ہے جو کہ اللہ کی شان کے لائق ہے اور (ان صفات) کا ظاہر
مراد نہیں“۔
اگے فرماتے ہیں:
وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ الْمُتَكَلِّمِينَ أَنَّهَا
تُتَأَوَّلُ بِحَسَبِ مَا يَلِيقُ بِهَا
”اور جمہور متکلمین کا یہ کہنا ہے کہ حسب
موقع تاویل کرکے وہ معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں“۔
(شرح صحیح مسلم للنوي ج 17 ص 182-183)
امام نوویؒ اسی بات کو ذرہ وضاحت سے اس طرح سے لکھتے ہیں کہ
:
وَهُوَ مَذْهَبُ جُمْهُورِ السَّلَفِ وَبَعْضِ
الْمُتَكَلِّمِينَ أَنَّهُ يُؤْمِنُ بِأَنَّهَا حَقٌّ عَلَى مَا يَلِيقُ بِاللَّهِ
تَعَالَى وَأَنَّ ظَاهِرَهَا الْمُتَعَارَفُ فِي حَقِّنَا غَيْرُ مُرَادٍ وَلَا
يَتَكَلَّمُ فِي تَأْوِيلِهَا مَعَ اعْتِقَادِ تَنْزِيهِ اللَّهِ تَعَالَى عَنْ
صِفَاتِ الْمَخْلُوقِ وَعَنِ الِانْتِقَالِ والحركات وسائر سمات الخلق والثاني
مذهب أكثرالمتكلمين وَجَمَاعَاتٍ مِنَ السَّلَفِ وَهُوَ مَحْكِيٌّ هُنَا عَنْ
مَالِكٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ أَنَّهَا تُتَأَوَّلُ عَلَى مَا يَلِيقُ بهابِحَسَبِ
مَوَاطِنِهَا فَعَلَى
(شرح النووی علی مسلم ج 6 ص 36)
1) )”جمہور
سلف اور بعض متکلمین کا مذہب یہ ہے کہ ان صفات کی جو حقیقت اللہ تعالٰی کے شایان
شان ہے ہمارا اس پر ایمان ہے اور جو ان صفات کا ظاہری معنی ہیں وہ مراد نہیں ہے
اور یہ ایمان رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالٰی مخلوق کی صفات سے پاک ہے، اور کہیں منتقل
ہونے سے اور حرکت کرنے سے اور دوسری مخلوق کی صفات سے۔
2)) اکثر متکلمین اور بعض سلف کا مذہب جو
کہ امام مالکؒ اور امام اوزاعیؒ سے بھی منقول ہے یہ ہے کہ حسب موقع تاویل کرکے وہ
معنی لیئے جائیں جو اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہوں“۔
ملا علی
قاریؒ امام نوویؒ کا یہ قول نقل کرنے کے
بعد فرماتے ہیں:۔
وَبِكَلَامِهِ وَبِكَلَامِ الشَّيْخِ الرَّبَّانِيِّ أَبِي إِسْحَاقَ الشِّيرَازِيِّ، وَإِمَامِ الْحَرَمَيْنِ،
وَالْغَزَالِيِّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَئِمَّتِنَا وَغَيْرِهِمْ يُعْلَمُ أَنَّ الْمَذْهَبَيْنِ مُتَّفِقَانِ عَلَى صَرْفِ تِلْكَ الظَّوَاهِرِ، كَالْمَجِيءِ، وَالصُّورَةِ، وَالشَّخْصِ، وَالرِّجْلِ، وَالْقَدَمِ، وَالْيَدِ، وَالْوَجْهِ، وَالْغَضَبِ، وَالرَّحْمَةِ، وَالِاسْتِوَاءِ عَلَى الْعَرْشِ، وَالْكَوْنِ فِي السَّمَاءِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يُفْهِمُهُ ظَاهِرُهَا لِمَا يَلْزَمُ عَلَيْهِ مِنْ مَجَالَاتٍ قَطْعِيَّةِ الْبُطْلَانِ تَسْتَلْزِمُ أَشْيَاءَ يُحْكَمُ بِكُفْرِهَا بِالْإِجْمَاعِ، فَاضْطَرَّ ذَلِكَ جَمِيعَ الْخَلَفِ وَالسَّلَفِ إِلَى صَرْفِ اللَّفْظِ عَنْ ظَاهِرِهِ، وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا هَلْ نَصْرِفُهُ عَنْ ظَاهِرِهِ مُعْتَقِدِينَ اتِّصَافَهُ سُبْحَانَهُ بِمَا يَلِيقُ بِجَلَالِهِ وَعَظَمَتِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ نُئَوِّلَهُ بِشَيْءٍ آخَرَ، وَهُوَ مَذْهَبُ أَكْثَرِ أَهْلِ السَّلَفِ، وَفِيهِ تَأْوِيلٌ إِجْمَالِيٌّ أَوْ مَعَ تَأْوِيلِهِ بِشَيْءٍ آخَرَ، وَهُوَ مَذْهَبُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْخَلَفِ وَهُوَ تَأْوِيلٌ تَفْصِيلِيٌّ، وَلَمْ يُرِيدُوا بِذَلِكَ مُخَالَفَةَ السَّلَفِ الصَّالِحِ، مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ ذَلِكَ، وَإِنَّمَا دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ، وَمِنْ ثَمَّ اعْتَذَرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ وَقَالُوا: لَوْ كُنَّا عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ السَّلَفُ الصَّالِحُ مِنْ صَفَاءِ الْعَقَائِدِ وَعَدَمِ الْمُبْطِلِينَ فِي زَمَنِهِمْ لَمْ نَخُضْ فِي تَأْوِيلِ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ مَالِكًا وَالْأَوْزَاعِيَّ، وَهُمَا مِنْ كِبَارِ السَّلَفِ أَوَّلَا الْحَدِيثَ تَأْوِيلًا تَفْصِيلِيًّا، وَكَذَلِكَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ أَوَّلَ الِاسْتِوَاءَ عَلَى الْعَرْشِ بِقَصْدِ أَمْرِهِ، وَنَظِيرُهُ {ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ} [البقرة: 29] ، أَيْ: قَصَدَ إِلَيْهَا، وَمِنْهُمُ الْإِمَامُ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ، بَلْ قَالَ جَمْعٌ مِنْهُمْ وَمِنَ الْخَلَفِ: إِنَّ مُعْتَقِدَ الْجِهَةِ كَافِرٌ، كَمَا صَرَّحَ بِهِ الْعِرَاقِيُّ، وَقَالَ: إِنَّهُ قَوْلٌ لِأَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَالْأَشْعَرِيِّ وَالْبَاقِلَّانِيِّ.
وَبِكَلَامِهِ وَبِكَلَامِ الشَّيْخِ الرَّبَّانِيِّ أَبِي إِسْحَاقَ الشِّيرَازِيِّ، وَإِمَامِ الْحَرَمَيْنِ،
وَالْغَزَالِيِّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَئِمَّتِنَا وَغَيْرِهِمْ يُعْلَمُ أَنَّ الْمَذْهَبَيْنِ مُتَّفِقَانِ عَلَى صَرْفِ تِلْكَ الظَّوَاهِرِ، كَالْمَجِيءِ، وَالصُّورَةِ، وَالشَّخْصِ، وَالرِّجْلِ، وَالْقَدَمِ، وَالْيَدِ، وَالْوَجْهِ، وَالْغَضَبِ، وَالرَّحْمَةِ، وَالِاسْتِوَاءِ عَلَى الْعَرْشِ، وَالْكَوْنِ فِي السَّمَاءِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يُفْهِمُهُ ظَاهِرُهَا لِمَا يَلْزَمُ عَلَيْهِ مِنْ مَجَالَاتٍ قَطْعِيَّةِ الْبُطْلَانِ تَسْتَلْزِمُ أَشْيَاءَ يُحْكَمُ بِكُفْرِهَا بِالْإِجْمَاعِ، فَاضْطَرَّ ذَلِكَ جَمِيعَ الْخَلَفِ وَالسَّلَفِ إِلَى صَرْفِ اللَّفْظِ عَنْ ظَاهِرِهِ، وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا هَلْ نَصْرِفُهُ عَنْ ظَاهِرِهِ مُعْتَقِدِينَ اتِّصَافَهُ سُبْحَانَهُ بِمَا يَلِيقُ بِجَلَالِهِ وَعَظَمَتِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ نُئَوِّلَهُ بِشَيْءٍ آخَرَ، وَهُوَ مَذْهَبُ أَكْثَرِ أَهْلِ السَّلَفِ، وَفِيهِ تَأْوِيلٌ إِجْمَالِيٌّ أَوْ مَعَ تَأْوِيلِهِ بِشَيْءٍ آخَرَ، وَهُوَ مَذْهَبُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْخَلَفِ وَهُوَ تَأْوِيلٌ تَفْصِيلِيٌّ، وَلَمْ يُرِيدُوا بِذَلِكَ مُخَالَفَةَ السَّلَفِ الصَّالِحِ، مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يُظَنَّ بِهِمْ ذَلِكَ، وَإِنَّمَا دَعَتِ الضَّرُورَةُ فِي أَزْمِنَتِهِمْ لِذَلِكَ ; لِكَثْرَةِ الْمُجَسِّمَةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَغَيْرِهَا مِنْ فِرَقِ الضَّلَالَةِ، وَاسْتِيلَائِهِمْ عَلَى عُقُولِ الْعَامَّةِ، فَقَصَدُوا بِذَلِكَ رَدْعَهُمْ وَبُطْلَانَ قَوْلِهِمْ، وَمِنْ ثَمَّ اعْتَذَرَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ وَقَالُوا: لَوْ كُنَّا عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ السَّلَفُ الصَّالِحُ مِنْ صَفَاءِ الْعَقَائِدِ وَعَدَمِ الْمُبْطِلِينَ فِي زَمَنِهِمْ لَمْ نَخُضْ فِي تَأْوِيلِ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ مَالِكًا وَالْأَوْزَاعِيَّ، وَهُمَا مِنْ كِبَارِ السَّلَفِ أَوَّلَا الْحَدِيثَ تَأْوِيلًا تَفْصِيلِيًّا، وَكَذَلِكَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ أَوَّلَ الِاسْتِوَاءَ عَلَى الْعَرْشِ بِقَصْدِ أَمْرِهِ، وَنَظِيرُهُ {ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ} [البقرة: 29] ، أَيْ: قَصَدَ إِلَيْهَا، وَمِنْهُمُ الْإِمَامُ جَعْفَرٌ الصَّادِقُ، بَلْ قَالَ جَمْعٌ مِنْهُمْ وَمِنَ الْخَلَفِ: إِنَّ مُعْتَقِدَ الْجِهَةِ كَافِرٌ، كَمَا صَرَّحَ بِهِ الْعِرَاقِيُّ، وَقَالَ: إِنَّهُ قَوْلٌ لِأَبِي حَنِيفَةَ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَالْأَشْعَرِيِّ وَالْبَاقِلَّانِيِّ.
”اس کے مطابق نص میں وارد صفات کی دو تاویلیں ہوئیں ۔ ایک تفویض اور دوسری تاویل اور شیخ
ربانیؒ ابو اسحاق شیرازی، امام الحرمین ، غزالی اور ہمارے دیگر ائمہ کے کلام سے
معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں مذہب اس بارے میں متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی کی
صفات مجئی (آنا، صورت شخص رجل (ٹانگ) قدم (پاؤں) ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) ، غضب ،
رحمت استواء علی العرش ، کون فی السما٭
(آسمان میں ہونا) وغیرہ میں ظاہری معنی مراد نہیں ہیں کیونکہ ظاہری معنی لینے میں
وہ محال لازم آتے ہیں جو قطعی طور پر باطل ہیں اور جو ایسے امور کو مستلزم ہیں جو
کہ بالاتفاق کفر ہیں۔ اسی وجہ سے تمام سلف و خلف مجبور ہوئے کہ ان صفات کے ظاہری
معنی کو ترک کر دیں۔ پھر ان کا آپس میں اختلاف ہوا کہ :
1) ظاہری معنی کو
چھوڑ کر یا تاویل کئے بغیر ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تعالٰی میں یہ صفات ان معنی
میں ہیں جو اللہ کے جلال و عظمت کے لائق ہیں۔ اکثر سلف کا یہی مذہب ہے اس میں
اجمالی تاویل ہے (یعنی ظاہری معنی کا ترک ہے اور دوسرا نا معلوم معنی مراد ہے جو
اللہ کے شایان شان ہے)
2) یا ظاہری معنی کو
چھوڑ کر ہم ان کا کوئی اور معنی لیں۔ یہ اکثر خلف اور متاخرین کا مذہب ہے اور اس
میں تفصیلی تاویل ہے ۔ دوسرا معنی لینے سے متاخرین کی یہ مراد نہیں تھی کہ وہ
اسلاف کی مخالفت کریں۔ معاذ اللہ ان کے بارے میں ایسی بدگمانی کرنا جائز نہیں۔
انہوں نے ایسا اپنے زمانوں کی مجبوری و ضرورت کی
وجہ سے کیا جو یہ تھی کہ ان کے زمانوں میں مجسمہ اور جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں نے
سر اٹھایا اور یہ عوام کی عقلوں پر غالب
ہونے لگے تو تاویل کرنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ ان کے فتنوں کو دفع کریں
اور ان کی باتوں کا توڑ کریں۔ اسی وجہ سے
بہت سوں نے یہ معذرت بھی کی کہ اگر ہمارے دور میں بھی عقائد کی وہی صفائی ہوتی جو
سلف صالحین کے دور میں تھی اور ہمارے دور میں گمراہ اور باطل لوگ نہ ہوتے تو ہم
بھی ان صفات کی تاویل میں ن نہ پڑتے۔
اور تم جانتے ہو کہ
امام مالک اور امام اوزاعی جو کہ کبار سلف میں سے تھے انہوں نے حدیث کی تفصیلی
تاویل کی اور اسی طرح سفیان ثوریؒ نے استواء علی العرش کی یہ تاویل کی کہ اللہ نے
اپنے امر کا قصد کیا اور اس کی نظیر قرآن پاک کے یہ الفاظ ہیں ثم استویٰ الي
السماء جن کا ترجمہ ہے کہ اللہ نے آسمان کا قصد کیا ۔ ان ہی لوگوں میں سے امام
جعفر صادقؒ بھی ہیں (جنہوں نے تفصیلی تاویل کی) بلکہ سلف و خلف میں سے بہت سے
لوگوں کا قول ہے کہ اللہ کیلئے جھت کا اعتقاد رکھنے والا کافر ہے جیسا کہ علامہ
عراقی نے اس کی تصریح کی اور کہا کہ یہ ابو حنیفہؒ ، مالکؒ، شافعیؒ ، اشعریؒ اور
باقلانیؒ کا قول ہے“۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج 3 ص 923)
الحمدللہ یہی مذہب اشعریہ اور ماتریدیہ کا ہے جو کہ سلف
کا تھا اور یہی آج وہ کہتے ہیں۔
جبکہ اس کے خلاف فرقہ لامذہبیہ سلفیہ کا یہ کہنا ہے کہ
ان صفات کا ظاہری معنی ہی اللہ کی مراد ہے، اور اللہ حرکت کرتا ہے اور منتقل ہوتا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ
وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ
مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ
حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
”جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث
(محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے
معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان
کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
اس پر تبصرہ
کرتے ہوئے ایک لامذہبی سلفی لکھتا ہے:
وثانياً قوله : مع تنزيھنا
لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ
ثكالي الجهمية
ترجمہ:
”امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی
سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر
تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی
ہوں“۔
(والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
ان قول اهل التفويض الذين يزعمون انهم متبعون للسنة
والسلف من شر اقول اهل البدع والالحاد
(تعارض العقل والنقل ج 1 ص 205)
”اہل تفویض (یعنی اللہ کی مراد کو اسی کے
سپرد کرنے والوں کا) یہ کہنا کہ وہ سلف اور سنت کے پیروکار ہیں ان کا ایسا کہنا
بدعتی اور ملحدوں کا بدترین قول ہے“۔
(نعوذباللہ من ذالك)
لامذہبیہ سلفیہ کے نزدیک اللہ حرکت بھی کرتا ہے۔
محمد بن عثیمین لکھتے
ہیں۔
الحرکة لله تعالي فالحرکة له حق
)الجواب
المختار ص 22(
”اللہ حرکت کرتا ہے یہ حق ہے“۔
لامذہبیہ سلفیہ کے نزدیک اللہ منتقل بھی ہوتا ہے۔
سلفیہ کے شیخ خليل
هراس امام ابن حزيمه كي التوحيد ر اپني
تعليق ميں اللہ کے نزول کے قول کے تحت لكهتے ہيں:
(ص126) :
«يعني
أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه : انتقال من علو إلى سفل!».
ترجمه :
”يعنی الله كا آسمان دنيا پر نزول اس بات
كا تقاضا كرتي ہے كہ الله اس كے اوپر ہو كيونكہ نزول اوپر سے نيچے
منتقل ہونے كو كهتے ہيں“۔
نعوذبالله
بالفرض اگر وہ ایسا نہ بھی لکھتے تب بھی لامذہبی سلفیوں
کے اصول
و ضوابط کے مطابق یہی بات لازم آتی ہے۔
امام عدي بن مسافر (وفات 557ھ) فرماتے ہیں:
امام عدي بن مسافر (وفات 557ھ) فرماتے ہیں:
وتقرير مذهب السلف كما جاء من غير تمثيل ولا تكيف ولا تشبيه ولا حمل الظاهر
”سلف کا مذہب یہ تھا کہ وہ ان (صفات متشابہ) کی کسی کے ساتھ تشبیہ نہیں دیتے تھے نہ ہی انہیں ظاہر پر محمول کرتے تھے“۔
(اعتقاد أهل السنة ص 26 – أهل السنة اشاعرة ص 149)
الحمدللہ سلف کا وہی وقف ہے جو کہ ہمارا ہے۔
(جاری)