غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday, 6 December 2015

Hadees e Jariya Allah Kahan Ha Ki Sahih Tashreh


حدیث جاریہ (این اللہ) کی صحیح تشریح

قَالَ وَکَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَی غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ لَکِنِّي صَکَکْتُهَا صَکَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا قَالَ ائْتِنِي بِهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ
راوی معاویہ کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا ہے آخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1194 )

فر قہ  اہل حدیث جو اپنے آپ کو سلفی  بھی کہتے ہیں ان کا موقف ہے کہ یہ لفظ (اين الله) اللہ کے مکان اور جہت کے متعلق سوال تھا  سننے خود فرقہ اہل حدیث کے  موجودہ دور میں ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن کی زبانی جس اس کا فرقہ فضلۃ الشیخ اور  اللہ جانے  کیا کیا کہتا ہے۔
اگر یوٹیوب نہ کھلے تو اس لنک میں جائیں

فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب  بھی اللہ کیلئے جہت کے قائل ہیں۔
(مجموعہ رسائل عقائد ج 3 ص 147)

نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور س کا مکان عرش ہے۔
(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)

امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ عقائد میں پوری طرح سے سلفی تھے
تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء ص 385))

رئیس ندوی جنہیں فرقہ اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)

داؤد ارشد صاحب غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں
”بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید ص 162)

اور غیرمقلدین اپنے آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل  بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ  وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیرمقلد تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث   سے جان چھڑانے کیلئے  اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ  ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 صفحہ 77)

اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ  لامذہب فرقہ اللہ کیلئے جھت کا اثبات کرتا ہے  اور جھت کا اثبات  اسی طریقے سے ہوتا ہے جو یہ استعمال کرتے ہیں یا  کوئی سپیشل طریقہ ہوتا ہے جہت کا اثبات کرنے کا؟ اب ان میں سے کوئی زبان سے یہ کہتا بھی رہے کہ میں جھت نہیں مانتا میں جھت نہیں مانتے اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ کوئی اگر اندر سے پکا مشرک ہو اور   عمل بھی واضح طور پر شرکیہ کرتا رہے اور زبان سے کہتا رہے میں مشرک نہیں میں مشرک نہیں تو آپ اسے موحد کہیں گے؟

عقیدہ اہلسنت
امام طحاویؒ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں تمام اہلسنت والجماعت کے عقائد اور تین مجتہدین جن میں سے مجتہد مطلق امام ابو حنیفہؒ ، مجتہد فی المذہب امام ابو یوسفؒ ، مجتہد فی المذہب امام محمد بن الحسن شیبانیؒ   ہیں انکے عقائد نقل کرتے ہیں۔

هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين

یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ النعمانِ ابن ثابت الكوفي،اورأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاريّ،اور أبي عبد الله محمد ابن الحسن الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ،کے مذهب کے مطابق اور أصول الدينِ میں اورالله ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے ہیں اس کا ذکروبیان ہے۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 7)

پھر اسی کتاب میں اگے فرماتے ہیں
 وتعالى عن الحدودِ والغاياتِ والأركانِ والأعضاءِ والأدوات، لا تحويهِ الجهاتُ الستُّ كسائرِ المبتدعات
اللہ عزوجل حدود و قیود اور جسمانی رکان و اعضا و آلات سے پاک ہے اور جھات ستہ (اوپر نیچے دائیں بائیں اگے پیچھے) سے پاک ہے“۔
(متن عقیدہ طحاویہ ص 15)

این اللہ کی صحیح تشریح

شارح صحیح مسلم امام نوویؒ (المتوفٰی 676ھ) فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ تَقَدَّمَ ذِكْرُهُمَا مَرَّاتٍ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ بِهِ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهِهِ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقَاتِ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ امْتِحَانَهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ أَوْ هِيَ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ الْعَابِدِينَ لِلْأَوْثَانِ الَّتِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمَّا قَالَتْ فِي السَّمَاءِ عَلِمَ أَنَّهَا مُوَحِّدَةٌ وَلَيْسَتْ عَابِدَةً لِلْأَوْثَانِ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهُهُمْ وَمُحَدِّثُهُمْ وَمُتَكَلِّمُهُمْ وَنُظَّارُهُمْ وَمُقَلِّدُهُمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء أن يخسف بكم الأرض وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةِ فَوْقُ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ
أَيْ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ مِنْ دَهْمَاءِ النُّظَّارِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَأَصْحَابِ التَّنْزِيهِ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج5 ص 24-25 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
ترجمہ:
”اسے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ کہاں ہے؟ کہنے لگی آسمان میں
یہ صفات والی احادیث میں سے ہے اور اس میں دو مذہب ہیں
 ایک یہ کہ اعتقاد رکھنا اسکے معنی میں غور کئے بغیر کہ اللہ تعالٰی جیسا کوئی بھی نہیں اور وہ مخلوق کی صفات سے پاک ہے
 اور دوسرا یہ کہ اسکی کوئی تاویل پیش کی جائے جو اللہ کی شان کے لائق ہو
 پس جو یہ کہتے ہیں انکے نزدیک یہ اس عورت کے امتحان کیلئے تھا کہ یہ موحد ہے اقرار کرتی ہے کہ خالق مدبر فعال صرف اللہ اکیلا ہے، اور وہ یہ کہ جب دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف چہرہ کرتا ہے جیسا کہ نماز پڑھتا ہے تو کعبہ کی طرف منہ کرتا ہے، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالٰی اسی میں منحصر ہے(جیسا آج کا جاہل فرقہ سلفیہ کہتا ہے) بلکہ جیسے آسمان مانگنے والوں کا قبلۃ ہے کعبہ نمازیوں کا قبلۃ ہے
 قاضی عیاض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بڑوں یعنی فقہاء محدثین متکلمین انہی جیسے اور انکے مقلدین میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس طرح کی ظاہر نصوص جن میں اللہ تعالٰی کا آسمان میں ہونے کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء  اور اسی طرح کی نصوص اپنے ظاہر پر نہیں ہیں بلکہ ان میں تاویل ہوتی ہے سب کے نزدیک
 پس محدثین فقہاء اور متکلمین میں سے جنہوں نے اوپر کی جہت کو مانا ہے متعین کرنے اور کیفیت کے بغیر، انہوں نے آسمان پر آسمان کے ساتھ تاویل کی ہے
اور جس نے متعین کرنے کی نفی کی اور جہت کا محال ہونا بتایا ہے اس نے سبحان وتعالى کے بارے میں“۔

امام جلال الدین سیوطیؒ نے بھی امام نوویؒ کی یہ بات نقل کی ہے۔

فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ النَّوَوِيُّ هَذَا مِنْ أَحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهُهُ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقِينَ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ بِهَذَا امْتِحَانُهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى لَهُ الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهِهِمْ وَمُحَدِّثِهِمْ وَمُتَكلِّمِهِمْ وَنُظَّارِهِمْ وَمُقَلِّدِهِمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْمُتَوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أأمنتم من فِي السَّمَاء وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ هِيَ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةَ فَوْقٍ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقه سُبْحَانَهُ
(حاشية السيوطي علي سنن النسائي ج3 ص 18)

امام نور الدين السنديؒ (المتوفى: 1138هـ) فرماتے ہیں
أَيْن الله قيل مَعْنَاهُ فِي أَي جِهَة يتَوَجَّه المتوجهون إِلَى الله تَعَالَى وَقَوْلها فِي السَّمَاء أَي فِي جِهَة السَّمَاء يتوجهون وَالْمَطْلُوب معرفَة أَن تعترف بِوُجُودِهِ تَعَالَى لَا اثبات الْجِهَة
ترجمہ
پوچھا گیا "این اللہ" (یعنی اللہ کہاں ہے) اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے والے کس جہت کی طرف متوجہ ہوں، اور (باندی کا جواب میں )کہنا "فی السماء" ( آسمان میں) یعنی آسمان کی جہت میں وہ لوگ متوجہ ہوں گے اور (اس سوال سے )مطلوب یہ جاننا ہے کہ وہ یعنی باندی اللہ تعالیٰ کے وجود کو جانتی ہے ، اِس سے (اللہ کی ذات کی) جھت کا اثبات کرنا نہیں“۔
(حاشية السندي على سنن النسائي ج3 ص18-19)

ہزاروں شاگردوں کے استاد اور  امام اہلسنت حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں
وَقوم نقصت عُقُولهمْ كأكثر الصّبيان والمعتوهين والفلاحين والأرقاء، وَكثير يزعمهم النَّاس أَنهم لَا بَأْس بهم، وَإِذا نقح حَالهم عَن الرسوم بقوا لَا عقل لَهُم، فَأُولَئِك يَكْتَفِي من إِيمَانهم بِمثل مَا اكْتفى رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من الْجَارِيَة السَّوْدَاء سَأَلَهَا " أَيْن الله " فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاء، إِنَّمَا يُرَاد مِنْهُم أَن يتشبهوا بِالْمُسْلِمين لِئَلَّا تتفرق الْكَلِمَة.
ترجمہ
”کچھ لوگ کم عقل ہیں جیسے اکثر بچے اور کم عقل لوگ اور کسان اور  باندی غلام ان میں سے بہت سوں کے بارے میں یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہیں لیک جب ان لوگوں  کے حال کی تحقیق کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رسول و رواج سے ہٹ کر یہ لوگ عقل سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایمان پر اس طرح سے اکتفا کیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے جب حبشن باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے  تو اس کے اس جواب پر کہ اللہ آسمان میں ہے اکتفا کیا“۔
(حجة الله البالغة ج1 ص 205 الناشر: دار الجيل، بيروت - لبنان)

 آپ کا مقصد اس لونڈی سے یہ معلوم کروانا تھا کہ وہ  ایک اکیلے اللہ کو  مانتی ہے یا نہیں اسلئے اللہ کے نبی نے اس لونڈی کے فہم کے مطابق ہی اس سے سوال کیا کیونکہ ہزاروں لاکھوں صحابہ نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا لیکن کہیں ثابت نہیں کہ آپ نے کسی ایک سے بھی یہ سوال کیا ہو۔

مزے کی بات یہ ہے کہ   ان یہ دلیل کیسے بن جبکہ   یہ فرقہ حقیقت میں اللہ کو تو آسمانوں میں مانتا ہی نہیں ہے آسمانوں کو ایسے ہی خالی مانتا ہے جیسا کہ جہمیہ مانتے ہیں

حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ وَذَكَرَ الْجَهْمِيَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا يُحَاوِلُونَ أَنْ لَيْسَ فِي السَّمَاءِ شَيْءٌ
ترجمہ
سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن زیدؒ(محدث و فقیہ)نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے
(مسند الإمام أحمد بن حنبل(ج۴۵/ص۵۶۷):صحیح)

اگر اللہ صرف عرش پر ہی تھے تو اللہ کے نبی کبھی اتنی اہم بات سے اس لونڈی کو بےخبر نہ رکھتے اس لونڈی کو ضرور سمجھاتے کہ اللہ آسمانوں میں نہیں  صرف عرش پر ہے۔

اب انصاف کے ساتھ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ اگر یہ سوال جھت اور مکان کے متعلق تھا  جیسا کہ فرقہ لامذہبیہ کہتا ہے  تو ان اسلاف  کا کیا بنے گا جو  تقریباً 95 ٪ سے زیادہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ مکان و جھت سے پاک ہے۔
ملاحظہ ہو

Saturday, 5 December 2015

ALLAH Makkan O Jehat Say Pak Ha



الله تعالى " مَـكــان وَجـِـهـَـة " سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا ہے
پہلے وکٹورین عقیدہ ملاحظہ کیجئے
اگر ویڈیو play نہ ہو تو یہاں ملاحظہ کیجئے



اب میں سلف صالحین وائمہ اسلام کی صرف اصل عبارات کا تذکره کروں گا اوران تمام عبارات کا معنی ومفہوم مشترک یہی ہے کہ الله تـعـالی مـكـان وجــِـهـَــة سے پاک ومُنزه ومُبَرَّا ہے ، اس لیئے مستقل ترجمہ کرنے سے بات بہت طویل هوجائے گی ، لہذا اصل عبارات کے ذکرپراکتفاء کرتا هوں ٠
1.    قال الصحابي الجليل والخليفة الراشد سيدنا علي رضي الله عنه ما نصه 
كان الله ولا مكان ، وهو الان على ماعليه كان اهـ. أي بلا مكان.
( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333]) 
2.     وقال أيضا : "إن الله تعالى خلق العرش إظهارًا لقدرته لا مكانا لذاته" أ هـ
( الفرق بين الفرق لأبي منصور البغدادي [ ص / 333 ] ) 
سيدنا علي رضي الله عنه کا ارشاد ہے کہ الله تعالی نے عرش کو اپنی قدرت کی اظہار کے لیئے پیدا کیا ہے اپنی ذات کے لیئےمکان نہیں بنایا ۔
نوٹ : اس روایت کی سند اگر چہ موجود نہیں لیکن اس روایت کو امام عبد القاہر البغدادیؒ (المتوفیٰ 429ھ) نے بطور دلیل پیش کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس عقیدے کے قائل تھے اور بقیہ تمام علماء اہلسنت بھی اسی عقیدے کے قائل تھے جو اگے آئیں گے اگر کوئی اس پر  اعتراض کرتا ہے تو اسے تقیہ کئے بغیر پہلے اس بات کو ماننا پڑے گا کہ وہ اللہ کیلئے مکان و جھت کا قائل ہے۔

3.    وقال التابعي الجليل الإمام زين العابدين علي بن الحسين بن علي رضي الله عنهم ما نصه 
أنت الله الذي لا يحويك مكان" أ هـ[إتحاف السادة المتقين (4/ 380) ] ۔
4.     قال الإمام الأعظم المجتهد الأكبرأبو حنيفة النعمان بن ثابت رضي الله عنه
" والله تعالى يُرى الآخرة، ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بلا تشبيه ولا كميّة، ولا يكون بينه وبين خلقه مسافة " اهـ
[ ذكره في الفقه الاكبر، انظر شرح الفقه الاكبر لملا علي القاري (ص/ 136ء 137) ].
5.    وقال أيضا في كتابه الوصية : "
 ولقاء الله تعالى لأهل الجنة بلا كيف ولا تشبيه ولا جهة حق " اهـ
 [ الوصية: (ص/ 4)، ونقله ملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/138)] 
6.    وقال أيضا : " قلت: أرأيت لو قيل أين الله تعالى؟ فقال أي أبو حنيفة: يقال له كان الله تعالى ولا مكان قبل أن يخلق الخلق، وكان الله تعالى ولم يكن أين ولا خلق ولا شىء، وهو خالق كل شىء" اهـ. [ الفقه الأبسط ضمن مجموعة رسانل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 25)]
7.     وقال أيضا : "ونقر بأن الله سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه، وهو حافظ العرش وغير العرش من غير احتياج، فلو كان محتاجا لما قدر على إيجاد العالم وتدبيره كالمخلوقين، ولو كان محتاجا إلى الجلوس والقرار فقبل خلق العرش أين كان الله، تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اهـ.
[ كتاب الوصية، ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص/ 2) ، وملا علي القاري في شرح الفقه الاكبر (ص/ 75) عند شرح قول الامام: ولكن يده صفته بلا كيف"] .
الإمام الأعظم أبو حنيفة رحمہ الله کا ارشاد ہے کہ هم یہ اقرار کرتے هیں کہ الله سبحانه وتعالى عرش پرمُستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اورنہ اس نےعرش پرقرار پکڑا ہے ، اوروه عرش کا بھی مُحافظ ہے اورعرش کے علاوه هرچیزکا محافظ ہے بغیرمحتاجی کے ، اگر وه محتاج هوتا توکائنات کے ایجاد وتدبیر پرقادرنہ هوتا جیسا کہ مخلوق محتاج هوتی ہے ،اور اگر وه جلوس ( کسی جگہ بیٹھنے ) کا اور قرار (کسی جگہ ٹھہرنے ) کا محتاج هوتا توپھرعرش کی پیدائش سے پہلے الله سبحانه وتعالى کہاں تھا ؟اور الله سبحانه وتعالى اس بات سے بلند وبرتر ہے 
8.     وقال الإمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي الله عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه :
 " إنه تعالى كان ولا مكان فخلق المكان وهو على صفة الأزلية كما كان قبل خلقه المكان لا يجوز عليه التغيير في ذاته ولا التبديل في صفاته " اهـ[إتحاف السادة المتقين (2/ 24 )]
9.     وأما الإمام المجتهد الجليل أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني إمام المذهب الحنبلي فقد ذكر الشيخ ابن حجر الهيتمي أنه كان من المنزهين لله تعالى عن الجهة والجسمية، ثم قال ابن حجر ما نصه : " وما اشتهر بين جهلة المنسوبين إلى هذا الإمام الأعظم المجتهد من أنه قائل بشىء من الجهة أو نحوها فكذب وبهتان وافتراء عليه " اهـ
( الفتاوي الحديثية / 144)
10.                      شيخ المحدثين الإمام أبو عبد الله محمد ابن إسماعيل البخاري صاحب الصحيح 
کا بھی یہی عقیده ہے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے
جیسا کہ بخاري شريف کے شُراح فرماتے هيں۔
قال الشيخ علي بن خلف المالكي المشهور بابن بطال أحد شراح البخاري (449هـ)ما نصه
 "غرض البخاري في هذا الباب الرد على الجهمية المجسمة في تعلقها بهذه الظواهر، وقد تقرر أن الله ليس بجسم فلا يحتاج إلى مكان يستقر فيه، فقد كان ولا مكان، وانما أضاف المعارج اليه إضافة تشريف، ومعنى الارتفاع إليه اعتلاؤهء أي تعاليهء مع تنزيهه عن المكان " اهـ.[فتح الباري (13/416)]
11.                       وقال الشيخ ابن المنيِّر المالكي (695 هـ ) ما نصه:
"جميع الأحاديث في هذه الترجمة مطابقة لها إلا حديث ابن عباس فليس فيه إلا قوله "رب العرش" ومطابقته، والله أعلم من جهة أنه نبه على بطلان قول من أثبت الجهة أخذا من قوله (ذِى المَعَارِجِ) (سورة المعارج/3) ، ففهم أن العلو الفوقي مضاف إلى الله تعالى، فبيَّن المصنفء يعني البخاريء أن الجهة التي يصدق عليها أنها سماء والجهة التي يصدق عليها أنها عرش، كل منهما مخلوق مربوب محدث، وقد كان الله قبل ذلك وغيره، فحدثت هذه الأمكنة، وقدمه يحيل وصفه بالتحيز فيها" اهـ، نقله عنه الحافظ ابن حجر وأقره عليه .[ فتح الباري (13/ 418ء 419)]
بخاری شریف کے شارح الشيخ العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله فرماتے هیں کہ امام بخاری نے اس ترجمہ کے تحت جتنی احادیث نقل کی هیں سب ترجمہ کے مطابق هیں ، صرف ابن عباس رضی الله عنہ کی حدیث میں وارد یہ قول "رب العرش" اس قول کی ترجمہ کے ساتھ مطابقت یہ ہے کہ امام بخاری اس سے تنبیہ کر رہے هیں ان لوگوں کے قول کے باطل هونے پر جنهوں نے ( الله تعالی کے لیئے ) جهت کوثابت کیا ، اورالله تعالی کے فرمان (ذِى المَعَارِجِ) سے استدلال کیا ، اوراس سے یہ جانا کہ عُلو فَوقِي (اوپرکی بلندی ) منسوب ہے الله تعالی کی طرف ، تو مصنف يعني امام بخاري نے یہ بیان کیا کہ وه جهت جس پربلندی صادق آتی ہے اوروه جهت جس پریہ صادق آتاہے کہ وه عرش ہے لہذا یہ دونوں جہتیں مخلوق هیں اورالله تعالی ان دونوں سے اوران کے علاوه دیگرمخلوقات سے پہلے بھی موجود تھا ، پھر یہ سب جگہیں الله تعالی نے پیدا کیئے ، اورالله تعالی قدیم ذات ہے لہذا اس کوکسی جہت میں رهنے کے ساتھ موصوف کرنا محال وناممکن ہے ۔
العلامہ ابن المنيِّر المالكي رحمہ الله کی یہ تصریح حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (فتح الباري شرح بخاری ) میں نقل کی اوران کے اس کلام وتصریح کی تائید بھی کی۔ 
12.                      وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 هـ) في رسالته  (العقيدة الطحاوية) ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے هیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رہے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے ، اور الله تعالی کی شان ہے کہ آج پوری دنیا کے مدارس ومکاتب ومعاهد ومساجد میں (العقيدة الطحاوية) هی کی تعلیم دی جاتی ہے ، حتی کہ عرب کے اندر تمام سلفی مدارس وکلیات میں (العقيدة الطحاوية) کی تعلیم دی جاتی ہے ، اور عرب کے تمام سلفی علماء نے اس کے شروحات لکھے هیں ، اور تمام نے (العقيدة الطحاوية) کو اهل سنت والجماعت کی عقائد کی مستند ومعتبرکتاب قرار دیا ہے ،
اور (العقيدة الطحاوية) پڑھنے والے تمام لوگ کتاب کو کھولتے هی یہ اعلان کرتے هیں
هذا ذِكرُ بيانِ عقيدةِ أهلِ السنّةِ والجماعةِ على مذهبِ فُقهاءِ المِلّةِ: أبي حنيفةَ النعمانِ ابنِ ثابتٍ الكوفيّ، وأبي يوسفَ يعقوبَ بنِ إبراهيمَ الأنصاريّ، وأبي عبدِ الله محمدِ ابنِ الحسنِ الشيْبانيّ، رِضوانُ اللهِ عليهم أجمعينَ، وما يعتقدونَ من أصولِ الدينِ، ويَدينون بهِ لربِّ العالمين.
(ذالك فضل الله يؤتيه من يشاء)
13.                      وقال إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري (324 هـ)ما نصه : " كان الله ولا مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان، وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بلا مكان ومن غير احتياج إلى العرش والكرسي. نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقلا عن القاضي أبي المعالي الجويني[تبيين كذب المفتري (ص/ 150)]
إمام أهل السنة أبو الحسن الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوالله تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان کا محتاج نہیں ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا هی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا ـ یعنی الله تعالی بلامکان موجود ہے عرش وكرسي وغیره کا محتاج نہیں ہے ۔
14.                       وقال إمام أهل السنة أبو منصور الماتريدي (333 هـ) ما نصه : "إن الله سبحانه كان ولا مكان، وجائز ارتفاع الأمكنة وبقاؤه على ما كان، فهو على ما كان، وكان على ما عليه الان، جل عن التغير والزوال والاستحالة" اهـ. يعني بالاستحالة التحول والتطور والتغير من حال إلى حال وهذا منفي عن الله ومستحيل عليه سبحانه وتعالى [كتاب التوحيد (ص/ 69)]
15.       وقال الحافظ محمد بن حبان (354 هـ) صاحب الصحيح المشهور بصحيح ابن حبان ما نصه : "الحمد لله الذي ليس له حد محدود فيحتوى، ولا له أجل معدود فيفنى، ولا يحيط به جوامع المكان ولا يشتمل عليه تواتر الزمان[الثقات (1/ 1)]
16.                      وقال أيضا ما نصه : "كان الله ولا زمان ولا مكان" اهـ.[صحيح ابن حبان، أنظر الإحسان بترتيب۔[صحيح ابن حبان (8/ 4)]
17.                       وقال الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي (388 هـ) صاحب "معالم السنن" ما نصه
 "وليس معنى قول المسلمين إن الله على العرش هو أنه تعالى مماس له أو متمكن فيه أو متحيز في جهة من جهاته، لكنه بائن من جميع خلقه، وإنما هو خبر جاء به التوقيف فقلنا به ونفينا عنه التكييف إذ (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ)ا هـ.[أعلام الحديث: كتاب بدء الخلق، باب ما جاء في قوله تعالى: (هُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ) [(سورة الروم/27) (2/،147)]
الشيخ أبو سليمان حمد بن محمد الخطابي الشافعي صاحب "مَعَالِمُ السُنَن" رحمہ الله فرماتے هیں کہ مسلمانوں کا یہ قول کہ الله تعالی عرش پر ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وه عرش کے ساتھ مِلاہوا ہے یا عرش میں رهتا ہے یا جِهات میں سے کسی جهت میں رهتا ہے ، لیکن وه اپنی تمام مخلوق سے جدا ہے الخ۔
18.                      وقال القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري (403) ما نصه :
 "ولا نقول إن العرش لهء أي اللهء قرار ولا مكان، لأن الله تعالى كان ولا مكان، فلما خلق المكان لم يتغير عما كان"اهـ [ الانصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به (ص/65)].
امام القاضي أبو بكر محمد الباقلاني المالكي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ کہ هم یہ نہیں کہتے کہ عرش الله تعالی کا قرار ( ٹھہرنا ) ہے یا مکان ہے کیونکہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
19.                       وذكر الشيخ أبو الطيب سهل بن محمد الشافعي مفتي نيسابور (404 هـ) ما نقله عنه الحافظ البيهقي:
 "سمعت الشيخ أبا الطيب الصعلوكي يقول: "ُتضامّون" بضم أوله وتشديد الميم يريد لا تجتمعون لرؤيتهء تعالىء في جهة ولا ينضم بعضكم إلى بعض فإنه لا يرى في جهة" اهـ، ذكر ذلك۔[ الحافظ ابن حجر فتح الباري (447/11)].
20.                       وقال أبو بكر محمد بن الحسن المعروف بابن فورك الاشعري (406 هـ) ما نصه "لا يجوز على الله تعالى الحلول في الأماكن لاستحالة كونه محدودا ومتناهيا وذلك لاستحالة كونه محدثا" اهـ.[مشكل الحديث (ص/ 57)]
21.                       وقال الشيخ الإمام أبو منصور عبد القاهر بن طاهر التميمي البغدادي الإسفراييني (429 هـما نصه "وأجمعوا (أي أهل السنة)على أنه أي الله لا يحويه مكان ولا يجري عليه زمان " اهـ[الفرق بين الفرق (ص/ 333)]
22.                       وقال أبو محمد علي بن أحمد المعروف بابن حزم الأندلسي (456 هـ)
" وأنه تعالى لا في مكان ولا في زمان، بل هو تعالى خالق الأزمنة والأمكنة، قال تعالى: (وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيراً)(سورة الفرقان/2)، وقال (خلقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا)(سورة الفرقان/59)، والزمان والمكان هما مخلوقان، قد كان تعالى دونهما، والمكان إنما هو للاجسام" اهـ.(أنظر كتابه علم الكلام: مسألة في نفي المكان عن الله تعالى (ص/ 65)
23.                       وقال الحافظ أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي الشافعي (458 هـ) ما نصه "والذي روي في أخر هذا الحديث إشارة إلى نفي المكان عن الله تعالى، وأن العبد أينما كان فهو في القرب والبعد من الله تعالى سواء، وأنه الظاهر فيصح إدراكه بالأدلة، الباطن فلا يصح إدراكه بالكون في مكان. واستدل بعض أصحابنا في نفي المكان عنه بقول النبي (صلّى الله عليه و سلّم) "أنت الظاهر فليس فوقك شىء، وأنت الباطن فليس دونك شىء"، وإذا لم يكن فوقه شىء ولا دونه شىء لم يكن في مكان " اهـ( الأسماء والصفات (ص/ 400)
24.                      وقال الفقيه المتكلم أبو المظفر الإسفراييني الأشعري (471 هـ) ما نصه "الباب الخامس عشر في بيان اعتقاد أهل السنة والجماعة: وأن تعلم أن كل ما دل على حدوث شىء من الحد، والنهاية، والمكان، والجهة، والسكون، والحركة، فهو مستحيل عليه سبحانه وتعالى، لأن ما لا يكون محدثا لا يجوز عليه ما هو دليل على الحدوث " اهـ( التبصير في الدين (ص/ 161)
25.                       وقال الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري (476 هـ) في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار ولا ملاصقة لأن الاستقرار والملاصقة صفة الأجسام المخلوقة، والرب عز وجل قديم أزلي، فدل على أنه كان ولا مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ [أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (1/ 101)]
الفقيه الإمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي الأشعري رحمہ الله فرماتے هیں کہ الله تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور مُلاصِقة ( کسی چیزسے مِلنا مُتصل هونا ) بھی نہیں ہے ، کیونکہ استقرار ومُلاصِقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ، اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ، پس یہ دلالت ہے اس بات پر کہ الله تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ، پھرجب الله تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بلامکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
26.                       وقال إمام الحرمين أبو المعالي عبد الملك بن عبد الله الجويني الأشعري (478 هـما نصه "البارىء سبحانه وتعالى قائم بنفسه، متعال عن الافتقار إلى محل يحله أو مكان يقله " اهـ.[الإرشاد إلى قواطع الأدلة (ص/ 53)]
27.                       وقال الفقيه المتكلم أبو سعيد المتولي الشافعي الأشعري (478 هـ) أحد أصحاب الوجوه في المذهب الشافعي ما نصه (ثبت بالدليل أنه لا يجوز أن يوصف ذاته تعالى بالحوادث، ولأن الجوهر متحيز، والحق تعالى لا يجوز أن يكون متحيزا" اهـ.
[الغنية قي أصول الدين (ص/83)].
28.                       وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي الاشعري (505 هـما نصه : " (تعالى أي الله عن أن يحويه مكان، كما تقدس عن أن يحده زمان، بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الان على ما عليه كان " اهـ.
[إحياء علوم الدين: كتاب قواعد العقاند، الفصل الأول (1/ 108)]
29.                       وقال لسان المتكلمين الشيخ أبو المعين ميمون بن محمد النسفي (توفي 508 هـمانصه "القول بالمكان – اي في حق الله – منافيا للتوحيد[تبصرة الأدلة (1/ 171 و 182)]
30.                       وقال أبو الوفاء علي بن عقيل البغدادي شيخ الحنابلة في زمانه (513 هـما نصه "تعالى الله أن يكون له صفة تشغل الأمكنة، هذا عين التجسيم، وليس الحق بذي أجزاء وأبعاض يعالج بها" اهـ.[الباز الأشهب: الحديث الحادي عشر (ص/ 86)]
31.                       وقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (520 هـما نصه: "ليس الله في مكان، فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ. ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل"
[المدخل: فصل في الاشتغال بالعلم يوم الجمعة (149/2)]
32.                       وقال المحدث أبو حفص نجم الدين عمر بن محمد النسفي الحنفي (537 هـ) صاحب العقيدة المشهورة بـ"العقيدة النسفيةما نصه "والمحدث للعالم هو الله تعالى، لا يوصف بالماهية ولا بالكيفية ولا يتمكن في مكان " انتهى باختصار
[العقيدة النسفية (ضمن مجموع مهمات المتون) (ص/28)]
33.                      وقال القاضي أبو بكر بن العربي المالكي . الأندلسي (543 هـ) ما نصه
" البارى تعالى يتقدس عن ان يحد بالجهات أو تكتنفه الأقطار"
[القبس في شرح موطأ مالك بن انس (1/396)]
34.                       وقال أيضا ما نصه "الله تعالى يتقدس عن أن يحد بالجهات
 [المصدر السابق (1/395)]
35.                       وقال القاضي عياض بن موسى المالكي (544 ) ما نصه
 "اعلم أن ما وقع من إضافة الدنو والقرب هنا من الله او إلى الله فليس بدنو مكان ولا قرب مدى، بل كما ذكرنا عن جعفر بن محمد الصادق: ليس بدنو حد، صفة المجد والعلاء، فإنه تعالى فوق كل موجود بالقهر والاستيلاء"[الشفا: فصل في حديث الاسراء (1/205)]
36.                       وقال الشيخ محمد بن عبد الكريم الشهرستاني الشافعي (548هـ)ما نصه : "فمذهب أهل الحق أن الله سبحانه لا يشبه شيئا من المخلوقات ولا يشبهه شىء منها بوجه من وجوه المشابهة والمماثلة"لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ" ( سورة الشورى/11). فليس البارىء سبحانه بجوهر ولا جسم ولا عرض ولا في مكان ولا في زمان " اهـ.[نهاية الأقدام (ص/ 103)]
37.                       قال الإمام الحافظ المفسر عبد الرحمن بن علي المعروف بابن الجوزي الحنبلي (597 هـ) ما نصه " الواجب علينا أن نعتقد أن ذات الله تعالى لا يحويه مكان ولا يوصف بالتغير والانتقال" اهـ.[دفع شبه التشبيه (ص/58). (2) صيد الخاطر (ص/ 476)]
38.                       وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة الله المكي الحموي المصري (599 هـ) في تنزيه الله عن المكان ما نصه وصـانـع الـعـالـم لا يـحـويـه قـطـر تـعـالـى الله عـن تـشـبـيـه قد كـان مـوجـودا ولا مكـانـا وحـكـمـه الان عـلـى مـا كـانـا سبحـانـه جل عن الـمكـان وعـز عـن تـغـيـر الـزمـان" اهـ
[منظومته "حدائق الفصول وجواهر الأصول" في التوحيد، التي كان أمر بتدريسها السلطان المجاهد صلاح الدين الأيوبي (ص13) النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب، 4/ 32)]
39.                       وقال المبارك بن محمد المعروف بابن الأثير (606 ص) ما نصه : "المراد بقرب العبد من الله تعالى القرب بالذكر والعمل الصالح، لا قرب الذات والمكان لأن ذلك من صفات الأجسام، والله يتعالى عن ذلك ويتقدس " اهـ
 [تفسير الرازي المسمى بالتفسير الكبير (سورة الملك/ أية 16ء 30/ 69)]
40.                       وقال المفسر فخرالدين الرازي (6 0 6 هـ) ما نصه "واعلم أن المشبهة احتجوا على إثبات المكان لله تعالى "أَأَمنتم من في السماء "اهـ أي أن اعتقاد أن الله في مكان فوق العرش أو غير ذلك من الأماكن هو اعتقاد المشبهة الذين قاسوا الخالق على المخلوق وهو قياس فاسد منشؤه الجهل واتباع الوهم "اهـ.[المصدر السابق (سورة الشورى أية 4ء 27/ 144)]
امام فخرالدین رازی رحمہ الله فرماتے هیں کہ (المشبهة فرقہ) نے الله تعالی کے لیئے مکان ثابت کرنے پر قول باری تعالی " أَمنتم من في السماء " سے استدلال کیا یعنی یہ عقیده کہ الله تعالی عرش کے اوپرمکان میں ہے یا اس کے علاوه دیگراماکن میں ہے ، یہ (المُشَبهة فرقہ) کا عقیده ہے جنهوں نے خالق کومخلوق پرقیاس کیا اوریہ ایک فاسد (وباطل ) قیاس ہے اورسبب اس قیاس کا جہالت ہے اور وهم وخیال کی اتباع ہے 
41.                       وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن عساكر (620 هـ) عن الله تعالى ما نصه "موجود قبل الخلق ليس له قبل ولا بعد، ولا فوق ولا تحت، ولا يمين ولا شمال، ولا أمام ولا خلف، ولا كل ولا بعض، ولا يقال متى كان، ولا أين كـان ولا كيف، كان ولا مكان، كون الأكوان، ودبر الزمان، لا يتقيد بالزمان، ولا يتخصص بالمكان " اهـ.[أنظر شرحه على العقيدة الطحاوية المسمى بيان اعتقاد أهل السنة (ص/ 45)]
42.                      وقال الشيخ إسماعيل بن إبراهيم الشيباني الحنفي (629 ص)ما نصه "مسألة: قال أهل الحق: إن "الله تعالى متعال عن المكان، غير متمكن في مكان، ولا متحيز إلى جهة خلافا للكرامية والمجسمة... والذي يدل عليه قوله تعالى "ليس كمثله شيء وهو السميع البصير "[أبكار الأفكار (ص/ 194ء 195)، مخطوط]
43.                       وقال المتكلم سيف الدين الآمدي (631 هـ) ما نصه "وما يروى عن السلف من ألفاظ يوهم ظاهرها إثبات الجهة والمكان فهو محمول على هذا الذي ذكرنا من امتناعهم عن إجرائها على ظواهرها والإيمان بتنزيلها وتلاوة كلأية على ما ذكرنا عنهم، وبين السلف إلاختلاف في الألفاظ التي يطلقون فيها، كل ذلك اختلاف منهم في العبارة، مع اتفاقهم جميعا في المعنى أنه تعالى ليس بمتمكن في مكان ولا متحيز بجهة، الخ
44.                      وقال الشيخ جمال الدين محمود بن أحمد الحصيري شيخ الحنفية في زمانه (636 ص) بعد أن قرأ فتوى ابن عبد السلام في تنزيه الله عن المكان والحروف والصوت ما نصه "هذا اعتقاد المسلمين، وشعار الصالحين، ويقين المؤمنين، وكل ما فيهما صحيح، ومن خالف ما فيهما وذهب إلى ما قاله الخصم من إثبات الحرف والصوت فهو حمار" ا.هـ
[طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237)].
45.                       وقال الشيخ جمال الدين أبو عمرو عثمان بن عمر المعروف بابن الحاجب المالكي (646 هـ) مثنيا على العقيدة التي كتبها الشيخ عبد العزيز ابن عبد السلام ومما جاء في هذه العقيدة قول ابن عبد السلام: "كان ء اللهء قبل أن كون المكان ودبر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان " اهـ ومن جملة ما ذكره في ثنائه قوله : "ما قاله ابن عبد السلام هو مذهب أهل الحق، وأن جمهور السلف والخلف على ذلك، ولم يخالفهم إلا طائفة مخذولة، يخفون مذهبهم ويدسونه على تخوف إلى من يستضعفون علمه وعقله " اهـ
[طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيزبن عبد السلام (8/ 237)]
46.                       وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السلام الأشعري الملقب بسلطان العلماء
(660 ص) ما نصه
"ليسء أي اللهء بجسم مصوَّر، ولا جوهر محدود مُقدَّر، ولا يشبه شيئا، ولا يُشبهه شىءٌ، ولا تحيط به الجهات، ولا تكتنفه الأرضون ولا السموات، كان قبل أن كوَّن المكان ودبَّر الزمان، وهو الآن على ما عليه كان" ا.هـ
[طبقات الشافعية الكبرى: ترجمة عبد العزيز بن عبد السلام (8/ 219)]
47.                       وقال المفسّر محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي المالكي (671 هـ) ما نصه
 "والعليّ " يراد به علو القدر والمنزلة لا علو المكان، لأن الله منزه عن التحيز"
[الجامع لأحكام القرأن سورة البقرة، أية/ 55 2 (3/ 278)]
48.                      وقال ابو الحافظ أبو زكريا محيي الدين بن شرف النووي الشافعي الأشعري (676) ما نصه إن الله تعالى ليس كمثله شىء ، منزه عن التجسيم والانتقال والتحيز في جهة وعن سائر صفات المخلوق "اهـ[شرح صحيح مسلم (19/3)]
49.                       وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني الشافعي الأشعري (852 هـما نصه "ولا يلزم من كون جهتي العلو والسفل محالا على الله أن لا يوصف بالعلو، لأن وصفه بالعلو من جهة المعنى، والمستحيل كون ذلك من جهة الحس، ولذلك ورد في صفته العالي والعلي والمتعالي، ولم يرد ضد ذلك وإن كان قد أحاط بكل شىء علما جلّ وعز"اهـ[فتح الباري (3/ 30)]
50.                      وقال الشيخ بدر الدين محمود بن أحمد العَيْني الحنفي (855 هـفي شرحه على صحيح البخاري ما نصه "ولا يدل قوله تعالى :" وكان عرشه على الماء " على، أنهء تعالىء حالّ عليه، وإنما أخبر عن العرش خاصة بأنه على الماء، ولم يخبر عن نفسه بأنه حال عليه، تعالى الله عن ذلك، لأنه لم يكن له حاجة إليه " ا.هـ.[عمدة القاري (مجلد 12/ 25/ 111)]


کبارائمہ اسلام محدثین ومفسرین وفقهاء ومحققین وسلف صالحین کے ( 50 ) پچاس اقوال میں نے باحوالہ ان کی اصل عبارات میں ذکرکیئے هیں ، باقی اقوال بخوف طوالت میں نے ذکرنہیں کیئے ، ان سب ائمہ اسلام کا اجماعی فیصلہ یہ ہے کہ الله تعالی " مـكـان وجــِـهـَــة " سے اور دیگرمخلوقات کی صفات ومشابهت سے پاک ومُبَرا ومُنزه وبلند وبرتر ہے اوریہی جمیع اهل سنت سلف وخلف کا عقیده ہے ، اور یہی عقیده اکابرعلماء دیوبند کی اجماعی کتاب ألمُهند على المُفند ) میں لکھا ہے