غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Wednesday, 15 July 2015

اللہ کا کلام (قرآن)بھی اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی کوئی صفت حادث نہیں Kalam Allah


اللہ کا کلام (قرآن)بھی اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی کوئی صفت حادث نہیں
حادث کا مطلب ہے جو چیز پہلے نہ ہو اور بعد میں ایجاد ہو
ہمارا مذہب ہے کہ اللہ کا کلام اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی تمام صفات قدیم ہیں حادث نہیں صرف ان صفات (فعلیہ) کے تعلقات حادث  ہیں اور تعلقات کے حادث ہونے  کی وجہ سے خود صفات حادث نہیں ہوتیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا منظور مینگل صاحب حفظہ اللہ اس کی ایک بہترین مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں  ” زینب نکاح کے سبب حلال ہوئی۔ صفت تحلیل اور تحریم یہ اللہ کی صفات ہیں، اللہ محلل بھی ہے اور محرم بھی ۔ آپ کہیں کہ یہ حلت تو اب آئی ہے اس لئے یہ تحلیل والی صفت بھی حادث ہے، یہ غلط ہے۔ صرف اس تحلیل والی صفت کا تعلق جو زینت کے ساتھ ہوا ہے وہ حادث ہے، صفت تحلیل خود حادث نہیں“۔
(تحفۃ المناظر ص 354)
اہلسنت والجماعت  کا موقف
حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں:
وَصِفَاته فِي الْأَزَل غير محدثة وَلَا مخلوقة وَمن قَالَ إِنَّهَا مخلوقة أَو محدثة اَوْ وقف اَوْ شكّ فيهمَا فَهُوَ كَافِر بِاللَّه تَعَالَى واالقرآن كَلَام الله تَعَالَى فِي الْمَصَاحِف مَكْتُوب وَفِي الْقُلُوب مَحْفُوظ وعَلى الألسن مقروء وعَلى النَّبِي عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام منزل ولفظنا بِالْقُرْآنِ مَخْلُوق وكتابتنا لَهُ مخلوقة وقراءتنا لَهُ مخلوقة وَالْقُرْآن غير مَخْلُوق وَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن حِكَايَة عَن مُوسَى وَغَيره من الْأَنْبِيَاء عَلَيْهِم السَّلَام وَعَن فِرْعَوْن وابليس فَإِن ذَلِك كُله كَلَام الله تَعَالَى إِخْبَارًا عَنْهُم وَكَلَام الله تَعَالَى غير مَخْلُوق وَكَلَام مُوسَى وَغَيره من المخلوقين وَالْقُرْآن كَلَام الله تَعَالَى فَهُوَ قديم لَا كَلَامهم وَسمع مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام كَلَام الله تَعَالَى كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى {وكلم الله مُوسَى تكليما} وَقد كَانَ الله تَعَالَى متكلما وَلم يكن كلم مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَقد كَانَ الله تَعَالَى خَالِقًا فِي الْأَزَل وَلم يخلق الْخلق فَلَمَّا كلم الله مُوسَى كَلمه بِكَلَامِهِ الَّذِي هُوَ لَهُ صفة فِي الْأَزَل وَصِفَاته كلهَا بِخِلَاف صِفَات المخلوقين يعلم لَا كعلمنا وَيقدر لَا كقدرتنا وَيرى لَا كرؤيتنا وَيتَكَلَّم لَا ككلامنا وَيسمع لَا كسمعنا وَنحن نتكلم بالآلات والحروف وَالله تَعَالَى يتَكَلَّم بِلَا آلَة وَلَا حُرُوف والحروف مخلوقة وَكَلَام الله تَعَالَى غير مَخْلُوق

اللہ تعالٰی کا فعل مخلوق نہیں ہے اور اس کی یہ  صفات ازلی ہیں جو غیر حادث ہیں اور جس شخص نے یہ کہا کہ اس کی صفات مخلوق یا غادث (نو پیدا)  ہیں یا اس نے ان میں توقف اور شک کیا تو وہ اللہ تعالٰی کا منکر اور کافر ہوا اور قرآن کریم اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور زبانوں سے پڑھا جاتا ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے جناب نبی کریم پر نازل ہوا ہے اور ہمارا قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کا لکھنا تو مخلوق اور حادث ہے (مگر خود) قرآن غیر مخلوق ہے۔ اور حضرت موسیٰؑ اور فیگر انبیاء کرامؑ سے اللہ تعالٰی نے بطور حکایت جو کچھ بیان کیا ہے  اور فرعون  و ابلیس سے اس سے جو کچھ نقل فرمایا ہے تو یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو ان سے خبر دیتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ذکر فرمایا ہے اور اللہ تعالٰی کا کلام غیر مخلوق ہے اور حضرت موسیٰ ؑ اور دیگر مخلوق کا کلام مخلوق اور حادث ہے اور قرآن کریم اللہ تعالٰی کا کلام ہے سو وہ قدیم ہے نہ یہ کہ مخلوق کے کلام کی طرح حادث ہے۔ موسیٰ ؑ نے اللہ تعالٰی کا کلام سنا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے اور اللہ تعالٰی نے موسیٰ ؑ سے کلام کیا (مگر) اللہ تعالٰی اس وقت بھی متکلم تھا جب کہ اس نے حضرت موسیٰؑ  سے کلام نہیں کیا تھا اور اللہ تعالٰی اس وقت  ازل میں بھی خالق تھا جب کہ اس نے مخلوق کو پیدا نہیں کیا تھا پس جب اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تو آپ نے اسی کلام کے سبب جو اسکی  ازلی صفت ہے۔ اور اس کی تمام صفات مخلوق کی صفات سے بالکل الگ ہیں۔ وہ جانتا ہے لیکن نہ اس طرح جیسے ہم جانتے ہیں وہ قادر ہے لیکن ہمارے طرح اسکی قدرت نہیں وہ دیکھتا ہے مگر ہماری مثل  نہیں دیکھتا وہ کلام کرتا ہے مگر ہمارے کلام کی مانند نہیں وہ سنتا ہے مگر ایسا نہیں جیسے ہم سنتے ہیں اللہ تعالٰی ہماری طرف آلات و حروف کے ساتھ کلام نہیں کرتا کیونکہ حروف مخلوق ہیں اور اللہ تعالٰی کا کلام مخلوق نہیں ہے۔
(مترجم الفقه الأكبر ص 29- 32 عبد الحمید سواتیؒ)
لامذہب سلفیوں اور غیرمقلدین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی یہ صفات حادث یعنی نو پیدا ہیں۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے امام اہل حدیث نواب وحید الزمان خان صاحب جن کے بارے میں خود غیرمقلدین نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ عقائد میں پوری طرح سے سلفی تھے(تذکرہ النبلا فی تراجم العلماء ص 385) لکھتے ہیں:
فص الصفات الفعلية حادث
پس یہ صفات فعلیہ حادث ہیں
(ہدية المهدي ص 10)
رئیس ندوی جنہیں فرقہ اہلحدیث وکیل سلفیت کہتی ہے وحید الزمان کو امام اہل حدیث کہتے ہیں۔
دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
داؤد ارشد صاحب غیرمقلد ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
بلا شبہ یہ ہمارے اسلاف میں سے تھے“۔
(حدیث اور اہل تقلید ص 162)
اور غیرمقلدین اپنے آپ کو سلفی انہی کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و مسائل  بلکل ایک جیسے ہیں فرق اتنا ہے کہ  وحید الزمان نے کھل کر لکھے اور آج کا غیرمقلد تقیہ کرتا ہے۔
آج کل کے جاہل غیرمقلدین حضرات اپنے اس امام اہلحدیث   سے جان چھڑانے کیلئے  اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ  ہمار امام اہل حدیث بعد میں شیعہ ہو گیا تھا جب کہ خود ان کے اپنے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ وحید الزمان صاحب آخری دم تک اہل حدیث رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 صفحہ 77)


بہرحال ہم ان کی تسلی کیلئے ان کے بڑے ابن تیمیہ کا  بھی عقیدہ پیش کرتے ہیں  جس کے یہ اندھے مقلد ہیں۔

نوٹ : حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ، اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات
دونوں قدیم و ازلی   ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی صفات میں سے کوئی صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آجائے ، اگر ہم نعوذباللہ اللہ کی ذات
کے ساتھ قائم کسی صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ، اور کہیںکہ یہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے ، تو هم نے ایک خاص وقت میں اللہ کواس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ، اب اگر اس صفت کو
هم کوئی بے فائدہ کہیں تو یہ بهی گمراهی ہے کہ ہم نے اللہ کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں یا بالفاظ دیگر اللہ کی کسی صفت کو بلا فائدہ کہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت
کے وجود میں آنے سےپہلےہم نے اللہ کو کسی کمال سے خالی مان لیا حالانکہ اللہ کی ذات کسی بهی وقت کسی کمالی صفت سے محروم قرار نہیں دیا جاسکتا ، ورنہ وہ اللہ ہی نہ رہے گا ، ثابت ہو اکہ اللہ کی
ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں

ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے اللہ کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے
 
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
فَإِنْ قُلْتُمْ لَنَا: قَدْ قُلْتُمْ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ بِالرَّبِّ. قَالُوا لَکمْ (4) : نَعَمْ، وَهَذَا قَوْلُنَا الَّذِی دَلَّ عَلَیہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ،
 
ترجمہ : اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے اللہ کے ذات میں حوادث کا قیام مان لیا ، تو آپ کو وہ کہیں گے کہ ہاں یہ ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل دلالت کرتا ہے
 
 
سوال : یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ، کیونکہ انہوں نے کہا :قالوا لکم ۔ یعنی وہ لوگ آپ کو کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ
جواب : محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں تو قالوا لکم : آیا ہے لیکن چار نسخوں میں "قلنا لکم " آیا ہے جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها :(4) ب، ا، ن، م: قُلْنَا لَکمْ ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس
قول کو اپنانے والا ابن تیمیہ بهی ہے
 
علاوہ ازیں :آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنجائش هی نہیں رہتی ، بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نسبت ہو لیکن چونکہ آگے ان کی حمایت کی ہے لهذا
 
کوئی فرق نہیںپڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے :
منهاج السنة النبویة (2/ 380)
وَقَدْ أَخَذْنَا بِمَا فِی قَوْلِ کلٍّ مِنَ الطَّائِفَتَینِ مِنَ الصَّوَابِ، وَعَدَلْنَا عَمَّا یرُدُّہ الشَّرْعُ وَالْعَقْلُ مِنْ قَوْلِ کلٍّ مِنْهُمَا.
فَإِذَا قَالُوا لَنَا: فَهَذَا یلْزَمُ (1) أَنْ تَکونَ الْحَوَادِثُ قَامَتْ بِهِ. قُلْنَا: وَمَنْ أَنْکرَ هَذَا قَبْلَکمْ مِنَ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ؟ وَنُصُوصُ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ تَتَضَمَّنُ ذَلِک مَعَ صَرِیحِ الْعَقْلِ، وَہو قَوْلٌ لَازِمٌ لِجَمِیعِ الطَّوَائِفِ

ترجمہ : هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس کو شرع اور عقل رد کرتی ہے اس سے عدول کیا ، اگر ہمیں وہ کہیں کہ اس بات کے یہ لازم ہے کہ الله
کی ذات کے ساتھ حوادث کا قیام ہو ، هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انکار کیا ہے ؟ جبکہ قران و سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی طرف
اشارہ کرتی ہے ] اور یہ قول تمام فرقوں کو لازم ہوتا ہے
 
 
ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 382)
وَمَنْ قَالَ: إنَّ الْخَلْقَ حَادِثٌ کالهشامیة والکرَّامِیة قَالَ: نَحْنُ نَقُولُ بِقِیامِ الْحَوَادِثِ
.
یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے جو لوگ کہتےہیں کہ مخلوق حادث ہے وہ کہتےہیں کہ هم اللہ کی ذات کے ساتھ حوادث کے قیام کے قائل ہیں
ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں
وَلَا دَلِیلَ عَلَى بُطْلَانِ ذَلِک. بَلْ الْعَقْلُ وَالنَّقْلُ وَالْکتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ یدُلُّ عَلَى تَحْقِیقِ ذَلِک کمَا قَدْ بُسِطَ فِی مَوْضِعِهِ.
یعنی اس بات کے بطلان پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ، سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے
 
ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے اللہ کو پاک کهنا غلط ہے
 
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
ثُمَّ إِنَّ کثِیرًا مِنْ نُفَاةِ الصِّفَاتِ - الْمُعْتَزِلَةِ وَغَیرِهِمْ - یجْعَلُونَ مِثْلَ هَذَا حُجَّةً فِی نَفْی قِیامِ الصِّفَاتِ، أَوْ قِیامِ الْحَوَادِثِ بِہ مُطْلَقًا، وَہو غَلَطٌ مِنْهُمْ،

ترجمہ : پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے والوں نے یہ بات [اللہ کی ذات کے ساتھ ] صفات کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے
 
اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراصل ابن تیمیہ بعض حوادث کو اللہ کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے اللہ کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غلط
ہے
 
جیسا کہ انہوں نے کها :
منهاج السنة النبویة (2/ 381)
وَلَا یجِبُ إِذَا نَفَیتَ عَنْہ النَّقَائِصَ وَالْعُیوبَ أَنْ ینْتَفِی عَنْہ مَا ہو مِنْ صِفَاتِ الْکمَالِ وَنُعُوتِ الْجَلَالِ]
 
ترجمہ : جب آپ نے اللہ سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کساتھ ضروری نہیں کہ اس سے وہ چیزیں بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جلال کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمیه
کمال و جلال کے صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]
امام ابوالمظفر الاسفرائینی فرماتے ہیں:
"
ومما ابتدعوه- أی الکرَّامیة- من الضلالات مما لم یتجاسر على إطلاقہ قبلهم واحد من الأمم لعلمهم بافتضاحہ ہو قولهم: بأن معبودهم محل الحوادث 
تحدث فی ذاتہ أقوالہ وإرادتہ وإدراکہ للمسموعات والمبصرات، وسموا ذلک سمعًا وتبصرًا، [ التبصیر فی الدین (ص/ 66- 67]

یعنی کرامیہ نے جن گمراهیوں کو ایجاد کیا جن پر ان سےپہلےعلی الاطلاق کسی نے بهی اس کی قباحت اور رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیںوہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که: ان کا معبود حوادث
کا محل ہے اس کے ذات میں اس کے اقوال ، ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہوتے ہیں،
 
 
معلوم ہوا یہ قول امام ابن تیمیہ نے کرامیہ کی اتباع میں کها ہے
 
اس کی تصریح اور اعتراف ملک عبدالعزیز یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من الالهیات کے مولف سلفی عالم ڈاکٹر احمد الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے :
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنہ مذهب السلف وأنہ الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلی ہو بعینہ رأى الکرامیة

یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یهی وہ حق بات ہے جس کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ،، تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "
 
خود یهی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ اللہ کو کلام اللہ کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہلاتا ہے اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباللہ ]
 
البیهقی وموقفہ من الإلهیات (ص: 223)
وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول الحوادث بذات اللہ تعالى بمعنى أنہ یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید ہو الرأی الصحیح بدلالة العقل والنقل

ترجمہ :اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ، اس معنی سے کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل
 
کی دلالت سے
 
 
ان حضرات کو اللہ کی ذات میں حوادث کا حلول صحیح عقیدہ اس بنا پر لگتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ کو حادث کہتےہیں کہ اللہ جب چاہے کلام کرتا ہے تو گویا اس کلام کے ذریعے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز
چیز حلول ہوگئی جوپہلےنہیںتهی حالانکہ اگر اہل سنت کی طرح اللہ کے کلام کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ اللہ نے قران پر جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السلام کے ساتھ جو
 
تکلم کیا یہ سب اپنے اسی ازلی قدیم صفت سے کیا اور اس کلام سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل قول کا محتاج نہ ہوتے ، دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل
اللہ تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حالانکہ اللہ تعالی کے افعال جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ، وغیرہ یہ سب اللہ کی ذات میں پیدا نہیںہوتے بلکہ اللہ اپنے قدیم صفت سے ان افعال کو مخلوق میں کرتا اور
پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف کوئی بهی اشارہ کسی عقلی یا نقلی دلیل میں نہیںکہ اللہ تعالی کا کلام یا اس کے افعال سے اللہ کی ذات میں کوئی نئی چیز [حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں
 
ا
بن تیمیہ اور امام احمد ؒ کے عقیدے میں نمایاں فرق  

فائدہ :یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں فرق بتاتے ہیں کہ امام احمد ؒ قران کو اللہ تعالی کا ازلی کلام کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد اللہ کا علم کہتےہیںجس طرح ایس اکوئی وقت
نہیں تها جب اللہ علم سے معطل ہو اسی طرح ایسا وقت بهی نہیںتها جب قران نہ تها ، جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ اس سے الگ ہے چنانچہ ابن تیمیہ کہتےہیں
ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں
وإذا کان اللہ قد تکلم بالقرآن بمشیئة کان 
القرآن کلامہ وکان منزلا منہ غیر مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم
 
الله"ا.هـ[ "مجموع الرسائل" (1/380):

قران اللہ کا کلام ہے اور اسی سے نازل ہوا ہے مخلوق نہیںہے ، اور اللہ کے ساتھ اس کی قدم کی طرح قدیم نہیں ہے ،
دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مسئلے پر مناظرہ نقل کیا ہے اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو اللہ کا علم
 
اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں
البدایة والنهایة ط هجر (14/ 399)
فَقَالَ لِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا تَقُولُ فِی الْقُرْآنِ؟ فَلَمْ أُجِبْهُ، فَقَالَ الْمُعْتَصِمُ: أَجِبْهُ. فَقُلْتُ: مَا تَقُولُ فِی الْعِلْمِ؟ فَسَکتَ، فَقُلْتُ:
الْقُرْآنُ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عِلْمَ اللَّہ مَخْلُوقٌ فَقَدْ کفَرَ بِاللَّهِ. فَسَکتَ، فَقَالُوا فِیمَا بَینَهُمْ:
یا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، کفَّرَک وَکفَّرَنَا. فَلَمْ یلْتَفِتْ إِلَى ذَلِک، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: کانَ اللَّہ وَلَا قُرْآنَ؟ فَقُلْتُ: کانَ اللَّہ وَلَا
 
عِلْمَ؟ فَسَکتَ

 
اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ اللہ موجود تها لیکن قران نہ تها ، اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا اللہ موجود تها اور اس کا علم نہ تها " ، یعنی یہ کیسے
ہوسکتا ہے کہ اللہ موجود ہو اور بلاعلم کے ہو اور چونکہ امام احمد ؒ نے ان سے کها تها کہ القران من علم اللہ ، کہ قران اللہ کے علم سے ہے ، تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی قدیم ہے کیونکه
یہ اللہ کا علم ہے اور اللہ بلاعلم کبھی بهی نہیں تها
 
اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے،،
 
ابن تیمیہ ایک جگہ لکھتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
والکرَّامِیة یسَمُّونَ مَا قَامَ بِہ " حَادِثًا " وَلَا یسَمُّونَہ " مُحْدَثًا
 
کہ کرامیہ فرقہ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے
آگے لکہتےہیں:
مجموع الفتاوى (16/ 383)
وَأَمَّا غَیرُ الکرَّامِیة مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِیثِ وَالسُّنَّةِ وَالْکلَامِ فَیسَمُّونَ ذَلِک " مُحْدَثًا " کمَا قَالَ {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ}

یعنی کرامیہ کے علاوہ علم حدیث ، سنت اور علم کلام کے ائمہ اس کو محدث بهی کہتےہیںجیسا کہ اللہ نے فرمایا :
مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث 
اب یهاں صفات باری تعالی کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ امام احمد ؒ کی مخالفت کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے
 
امام ذهبی ؒ نے العلو میں نقل کیا ہے [ جس سے غیرمقلدین بهت استدلال کرتے ہیںاور روایات نقل کرتے ہیں]
العلو للعلی الغفار (ص: 150)
قَالَ ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا مُحَمَّد بن الْفضل بن مُوسَى حَدثنَا أَبُو مُحَمَّد الْمروزِی قَالَ سَمِعت الْحَارِث بن عُمَیر وَہو مَعَ فُضَیل بن عِیاض یقُول من زعم أَن الْقُرْآن مُحدث فقد کفر وَمن زعم أَنہ لَیسَ من علم اللہ فَہو زندیق
یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ اللہ کے علم میں سے نہیںہے وہ زندیق ہے
 
اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے :
العلو للعلی الغفار (ص: 169)
ابْن أبی حَاتِم حَدثنَا أَبُو هَارُون مُحَمَّد بن خلف الجزار سَمِعت هِشَام بن عبید اللہ یقُول الْقُرْآن کلَام اللہ غیر مَخْلُوق
فَقَالَ لَہ رجل أَلَیسَ اللہ تَعَالَى یقُول {مَا یأْتِیهِمْ مِنْ ذِکرٍ من رَبهم مُحدث} فَقَالَ مُحدث إِلَینَا وَلَیسَ عِنْد اللہ بمحدث //
قلت لِأَنَّہ من علمہ وَعلمہ قدیم فَعلم عبادہ مِنْهُ

یعنی هشام بن عبیداللہ فرماتے ہیں کہ قران اللہ کا کلام غیرمخلوق ہے ، کسی نے کها کہ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ "ما
یاتیهم من ذکر من ربهم محدث "
[پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے : کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف
سے کوئی نئی نصیحت نہیںآتی مگر وہ اس کو سنتے ہیںکهیلتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی اللہ نے اس کو نئ چیز کہا ہے ،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ہماری طرف نئی ہے اللہ کے هاں نئی نہیں ہے
 
امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں: میں کهتا ہوں کہ یہ بات اس لیے ہے کہ قران اللہ کے علم سے ہے اور اللہ کا علم قدیم ہے ،
 
 
یہاں امام ذهبی کا بهی ابن تیمیہ سے اختلاف ہوا ، امام ذهبی قران کو اللہ کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گزر چکا جو قران کو اللہ کے ساتھ ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔




Sunday, 12 July 2015

نزول الی السماء کے وقت لامذہب سلفی درحقیقت جہمیہ اور حلولیہ ہیں Nazool al Smah


 نزول الی السماء کے وقت لامذہب سلفی درحقیقت  جہمیہ اور حلولیہ ہیں
لامذہب سلفیوں کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ  موجود بلا مکان و جگہ ہے لامحدود ہے تو کہتے ہیں اللہ کی ذات کی کوئی انتہا نہیں تو کہتے ہیں کہ پھر تو آپ لوگ جہمی ہو گئے کیونکہ جب اللہ موجود بلا مکان و جگہ اور لامحدود ہوا تو پھر تو اپنی ہر مخلوق کے پاس ہوا اور اگر اپنی مخلوقات کے پاس ہوا تو اس سے حلول (مکس ہونا) یا اتحاد (جڑ جانا) لازم آتا ہے۔
اب نزل الی السماء کے وقت جب یہ اللہ کی ذات کو چھ آسمانوں کو چھوڑ کر آخری آسمان دنیا پر مانتے ہیں یقیناً ان کے اس عقیدے سے اللہ کیلئے حلول اور اتحاد کا  اثبات ہو جاتا ہے لہذا یہ لوگ بلا شبہ حلولیہ ہیں۔
ان لامذہبیہ کی دشمنی صرف اہلسنت اشعریہ و ماتریدہ کے ساتھ ہے جن کے یہ اقوال کو غلط معنی دے کر کہتے ہیں کہ وہ جہمیہ اور حلولیہ ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ  لامذہبی خود جہمیہ اور حلولیہ ہیں  کیونکہ جس طرح سے زمین اللہ کی مخلوق ہے ویسے ہی آسمان بھی اللہ کی مخلوق ہے جس طرح سے زمین پر اگر کوئی اللہ کی موجودگی کو حلول اور اتحاد مانتا ہے  تو اسے ایسا ہی آسمان  میں بھی حلول اور اتحاد ماننا پڑے گا۔
حلول و اتحاد کے متعلق ہمارا موقف
اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔  

یہ لامذہبی زمین پراللہ کو نہیں مانتے   کیونکہ کہتے ہیں کہ اس سے حلول لازم آتا ہے لیکن آسمان میں اللہ  کو مانتے ہیں اس سے حلول کیوں لاز م نہیں آتا ؟
جس طرح سے نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ رات کے وقت اللہ تعالٰی آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں ویسے ہی نبیﷺ نےیہ بھی فرمایا ہے کہ نماز ی جب نماز پڑھتا ہے تو اللہ سامنے موجود ہوتے ہیں۔
نزول الی السماء
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) قال يتنزل ربنا تبارک وتعالی کل ليلة إلی السمائ الدنيا حين يبقی ثلث الليل الآخر يقول من يدعوني فأستجيب له من يسألني فأعطيه من يستغفرني فأغفر له
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا پر اترتا ہے، جب کہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے اور فرماتا ہے، کہ کون ہے، جو مجھ سے دعا مانگے، تو میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے، جو مجھے سے سوال کرے، تو میں اس کو دے دوں اور کون ہے، جو مجھے سے بخشش چاہے، تو میں اس کو بخش دوں۔
(صحیح بخاری  ج3 حدیث:1271)
نزل الی السماء کے متعلق اہلسنت کا موقف آگے آئے گا  لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ دنیا  کے گول ہونے کیوجہ سے دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں رات کا وقت ہوتا ہے اور کوئی ایسا وقت نہیں جہاں دنیا میں کہیں نہ  کہیں رات نہ ہو ہر وقت دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں رات کا وقت ہوتا ہے۔اب جس طرح سے یہ لامذہبی حدیث  کے ظاہری معنی کو لیتے ہیں اس سے پھر یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ  ہر وقت  آسمان دنیا پر ہی ہو یا اللہ ہر وقت عرش اور آسمان دنیا دونوں پر ہو  ، حالانکہ یہ  لامذہی یہ بات نہیں مانتے کہ اللہ  ہر وقت آسمان دنیا پر  ہی ہے یا  ہر وقت عرش پر بھی ہے اور آسمان دنیا پر بھی ہے ،   اگر یہ ایسا کہیں تو ان کا    باقی من گھڑت عقیدہ تباہ ہو جائے ۔
نمازی کے سامنے اللہ
عن عبد الله بن عمر أن رسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) رأی بصاقا في جدار القبلة فحکه ثم أقبل علی الناس فقال إذا کان أحدکم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلی
عبداللہ بن عمر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ایک مرتبہ) قبلہ کی دیوار میں کچھ تھوک دیکھا، تو آپ نے اسے صاف کر کے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے، تو وہ اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے، اس لئے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے، تو اللہ سبحانہ اس کے سامنے ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری ج 1  حدیث : 401)
اہلسنت کا ایسے اقوال کے متعلق یہ کہنا ہے کہ     اس کی حقیقت اللہ ہی خوب جانتا ہے  ہم اللہ کیلئے  کوئی تخصیص نہیں کرتے کہ یہ کہیں کہ اگر اللہ سامنے ہوا تو عرش  خالی ہو گی اگر عرش پر ہوا تو سامنے نہ ہوا اگر آسمان پر ہوا تو عرش خالی ہو گیا وغیر  ہ
ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی حقیقت  کو اللہ کے ہی سپرد کرتے ہیں  یہی صحابہ او ر اہلسنت سلف کا موقف تھا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
”جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں“۔
(الإتقان في علوم القرآن ج 3 ص 14)
نمازی سامنے اللہ موجود ہوتا ہے یہ حدیث ان پر اہتمام حجت ہے جو کہ ظاہری معنی لیتے ہیں  اور اللہ کیلئے تخصیص کرتے ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ  یہ لامذہبی سلفی اللہ کی مراد کو اللہ کے سپرد کرنے کے بھی پکے منکر ہیں
چنانچہ ایک سلفی مولوی امام جلال الدین سیوطیؒ کی عبارت کو نقل کرنے کے بعد  یہ بکواس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
ترجمہ:
”میں کہتا ہوں یہ عبارے پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں“۔ (والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)

اب انہیں چاہئے کہ منافقت چھوڑ کر بغیر تفسیر کے اس کا ظاہری معنی لیں۔ 


نزول الی السماء کے متعلق اہلسنت والجماعت کا موقف

اخْتُلِفَ فِي مَعْنَى النُّزُولِ عَلَى أَقْوَالٍ فَمِنْهُمْ مَنْ حَمَلَهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيقَتِهِ وَهُمُ الْمُشَبِّهَةُ
امام الجرح والتعدیل حافظ ابن  حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیںؒ
نزول کے معنی کے متعلق مختلف اقوال ہیں مگر جس نے اسے ظاہر اور حقیقت پر حمل کیا وہ مشبہۃ (گمراہ فرقہ) ہے۔
(فتح الباري لابن حجر ج 3 ص 30)
 لامذہبی سلفیوں کے شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں:
نزوله تعالي حقيقي
اللہ کا نزول حقیقی ہے۔
(شرح العقیدة الوسطيه ص 13)
لفظ حقیقی کی تشریح
اگر حقیقت  سے یہ مراد ہو کہ وہ حقیقت جو اللہ کی شان کے لائق ہے اور ہم اس کو بالکل نہیں جانتے  اور اسے اللہ کے سپرد کرتے ہیں تو بلکل درست ہے۔
لیکن اگر حقیقی سے یہ مراد ہے کہ جو  مخلوقات کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کسی   ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرکے منتقل ہو جانا  تو ہم  قطعاً اس کا انکار کرتے ہیں اور ابن حجرؒ نے بھی اسی حقیقی کا رد کیا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقی سے فرقہ سلفی کیا مراد لیتا ہے۔

فرقہ سلفیہ کے ہاں اللہ حرکت کرتا ہے۔
چنانچہ سلفیہ کے شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں:
شیخ محمد بن عثیمین لکھتے ہیں۔
الحرکة لله تعالي فالحرکة له حق
)الجواب المختار ص 22(
اللہ حرکت کرتا ہے یہ حق ہے۔

فرقہ سلفیہ کے ہاں اللہ منتقل ہوتا ہے۔
سلفیہ کے شیخ خليل هراس  امام ابن حزيمه كي التوحيد ر اپني تعليق ميں اللہ کے نزول کے قول کے تحت حاشئے میں  لكهتے ہيں:
)ص126( :
«يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه : انتقال من علو إلى سفل!».
ترجمه :
يعنی الله كا آسمان دنيا پر نزول اس بات كا تقاضا كرتي  ہے كہ  الله اس كے اوپر ہو كيونكہ نزول اوپر سے نيچے منتقل ہونے كو كهتے ہيں“۔
 نعوذبالله
بالفرض اگر وہ ایسا نہ بھی لکھتے تب بھی لامذہبی سلفیوں کے  اصول  و ضوابط کے مطابق یہی بات لازم آتی ہے کیونکہ ان کا دعوی ہے کہ ان کا ظاہری معنی ہی لینا ہے اور نزول ا وپر سے نیچے منتقل ہونے کو ہی کہتے ہیں جیسا خلیل ہراس نے کہا۔

فرقہ سلفیہ  کہ ہاں  نزول کے وقت عرش خالی ہوتا ہے۔
چنانچہ فرقہ سلفیہ کے شیخ ابن عثیمین نے نزول کے وقت عرش کے خالی ہونے کا اہلسنت کا قول قرار دیا ہے۔
سلفیوں کے شیخ ابن العثیمین  لکھتے ہیں:
واذا كان علماء اهل السنة لهم في هذا ثلاثة قول يخلو، وقول بانه لا يخلو، وقول بالتوقف
(شرح عقیدہ الاوسطیہ للعثیمین ص 261)

لہذا معلوم ہوا ہے کہ یہ لامذہبی حقیقی کی وہ مراد لیتے ہیں جو مراد گمراہ فرقہ مشبہہ کے ہاں ہے۔
(new)




Saturday, 11 July 2015

بری جگہوں پر اللہ کی ذات و صفات کا تصور Har Jagha

بری جگہوں پر اللہ کی ذات و صفات کا تصور
فرقہ سلفیہ لامذہبیہ ایک عقلی ڈھکوسلہ ضرور دیتے ہیں کہ
اگر اللہ ہر جگہ ہے تو پھر کیا اللہ گندی جگہوں پر بھی ہے بیت الخلا میں بھی ہے؟
حالانکہ یہ اعتراض تب  بنے جب کوئی اللہ کی ذات  کیلئے حلول (مکس) یا اتحاد (جڑ) کا قائل ہو جیسا کہ جہمیہ ہیں جو کہ حلول اور اتحاد کے قائل ہیں انہیں تو ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں مگر جو اس کا قائل نہیں  اس پر یہ اعتراض نہیں پڑتا اب ہم تو یہ کہتے نہیں کہ اللہ مخلوق میں مکس ہو گیا ہے یا اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔کیونکہ اللہ اس سے پاک ہے اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔
 لیکن یہ فرقہ چونکہ اللہ کی ذات  کو ایسا ہی حقیر سمجھتا ہے کہ اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد ہو جائے گا اس لئے یہ اعتراض پھر ہم پر  کرتے ہیں لیکن یہ اعتراض ہم پر نہیں بلکہ انہی پر جاتا ہے نزول الی السماء کے وقت اللہ کی ذات کا سب سے نچلے آسمان پر مانتے ہیں ساتھ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی ذات مخلوق کے پاس ہو تو حلول اور اتحاد کے سوا کوئی راستہ نہیں اسلئے یہ فرقہ یہاں حلولی جہمی ہوجاتا ہے۔
یاد رہے  دنیا کی چاہے  گندی اور بری سے بری جگہ ہی کیوں نہ ہو وہ جہنم  کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں اور جہنم کے متعلق خود نبیﷺ فرماتے ہیں وہاں اللہ تعالٰی قیامت کے روز اپنا قدم اس میں رکھیں گے۔
حدثنا أنس بن مالک أن نبي الله (صلی اللہ علیہ وسلم) قال لا تزال جهنم تقول هل من مزيد حتی يضع فيها رب العزة تبارک وتعالی قدمه فتقول قط قط وعزتک ويزوی بعضها إلی بعض

حضرت انس بن مالک (رض) بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی نے فرمایا دوزخ لگاتار یہی کہتی رہے گی ھل من مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھر دوزخ کہے گی تیری عزت کی قسم بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2676 )
لامذہبیہ اللہ کی ان صفات کو اللہ کی شان کے لائق نہیں چھوڑتے بلکہ وہ انہیں اس کی ذات کے جز  اعضا تصور کرتے ہیں۔
 اور ان لامذہبیہ کے نزدیک اگر اللہ مخلوق کے پاس ہوا تو حلول یا اتحاد لازم آئے گا۔
اب ان کے اس عقیدے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ یہ اس وقت جہنم میں اللہ کی ذات کو حلول  کے ساتھ مانیں یا اتحاد کے ساتھ اب یہ بتائیں کہ جہنم میں یہ کس کے ساتھ مانیں گے حلول کے ساتھ یا اتحاد کے ساتھ؟
ہمارا ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ یہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا علم ہر جگہ ہے اب ہم ان سے پوچھتے ہیں اگر اللہ کی صفت علم ہر جگہ ہے تو کیا اللہ کی یہ صفت بیت الخلا میں بھی ہے؟
کلام اللہ قرآن مجید اللہ کی صفت ہے جو کہ حافظ کے دل میں محفوظ ہوتی ہے کیا  جب حافظ بیت الخلا جاتا ہے تو کیا وہ اللہ کی صفت کو ساتھ لے کر جاتا ہے؟
بنی آدم کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے
نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:
«مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ»
ہر دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے چاہیں تو اسے سیدھا فرما دیں اور چاہیں تو ٹیڑھا کر دیں
(سنن ابن ماجہ ج 1 حدیث نمبر 199)
ایک اور حدیث ہے
«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ»
تمام بنی آدم کے دل رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔
(صحیح مسلم ج 4 حدیث نمبر 2249)
سلفیوں کے ایک مولوی خلیل ہراس نے لکھا ہے کہ اللہ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کا جز ہیں۔
 خليل هراس كتاب التوحيد لابن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں
ص63 :
 القبض إنما يكون باليد حقيقة لا بالنعمة
فإن قالوا : إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته الإنعام .
قلنا لهم : وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فلا مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم .. )) اهـ !
خليل هراس الله كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے :
”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ، اگر كوئي  کہے کہ باء سبب كے  لیئے ، يعني الله نے نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں : كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خلاصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو الله سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ، يهاں الله كے پكڑنے كو بهي كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس ان
كے هاں الله كي صفت يد الله تعالي كے ليے پكڑنے كا آله هے اور الله كا پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذبالله ،، الله الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اسي التوحيد كے تعليقات ميں :
ويقول 89 :
(( ومن أثبت الأصابع لله فكيف ينفي عنه اليد والأصابع جزء من اليد ؟؟!! )) اهـ
ترجمه : اور جس نے الله كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح الله سے هاته كي نفي كرتا هے حالانكه انگلياں هاته هي كا جزء هے (نعوذبالله)
يهاں الله تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ، كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه الله كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔ 

اب یمارا  ان لامذہبیہ سے سوال ہے کہ کیا  آدمی جب بیت الخلا جاتا ہے تو کیا اللہ کی انگلیوں کو باہر چھوڑ کر جاتا ہے؟ دوسرا یہ کہ اللہ کی ذات کو  آپ  لوگ صرف عرش کے اوپر ٹھہراتے ہیں اب اللہ کی ذات اوپر اور اس کا ہاتھ اور انگلیں نیچے ؟
یہ اعتراض خود فرقہ اہل حدیث پر جاتا ہے۔
1
فرقہ اہل حدیث کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی
لکھتے ہیں
 ”ہر جگہ حاضر و ناظر ہونا اور ہر چیز کی ہر وقت خبر رکھنا خاص ذات وحدہ لاشریک لہ باری تعالٰی کے واسطے ہے“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 6)

2
فرقہ اہلحدیث کے شیخ السلام ثناء اللہ امرتسری  الجہمی
لکھتے ہیں
 ” اللہ بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے“۔
(تفسیر ثنائی ص 347 )

3
محقق اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی
 لکھتے ہیں
وكما نقول هذا الاستواء والكون في تلك الجهة فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ ولا نتكلف بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوك‍ن العلم و عليتهفان هزا شعبة من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف و تبائن ماكان عليهه الصحابة و تابعوهم رضوان اللہ عليهم اجمعين
ترجمہ
”جیسا ہم استواء اور جہت فوق کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں ویسا ہی ان اقوال خدا وندی هو معكم وغيرہ ”وہ تمہارے ساتھ“ ہے کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ ہم اس کی تاویل علم کے ساتھ یا نصرت کے ساتھ کرنے میں تکلف نہیں کرتے جیسا کہ ہمارے غیر  کرتے ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ ساتھ ہونے سے اس کا علم مراد ہے کیونکہ یہ بھی تاویل کی ایک شاخ ہے جو مذہب صحابہ ؓ و تابعین وغیرہ سلف کے خلاف ہے “
(التحف ص 16  بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 202)

ان کے بارے میں کیا خیال ہے آج کے لامذہبوں کا ؟

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی چاہے اچھے سے اچھی  یا  بری سے بری تمام مخلوقات کا خالق ہے لیکن  یہ گواہی دینے کے بعد اس کی شان گھٹانے کی غرض سے اس کی ہر ہر مخلوق کے متعلق یہ پوچھے  کہ کیا اس کا بھی اللہ خالق ہے اس کا بھی اللہ خالق ہے درست نہیں۔
یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ ”اللہ اکبر“ اللہ سب سے بڑا ہے مگر یہ اقرار کرنے کے بعد  کوئی احمق کہے کہ کیا اللہ میرے ہاتھ سے بڑا ہے میری انگلیوں سے بڑا ہے کیا  فلاں چیز سے فلاں جانور سے بھی بڑا ہے قطعاً درست نہیں۔ ان سب کا ایک ہی جواب ہے کہہ دو کہ اللہ  سب سے بڑا ہے بس۔
بعض چیزوں کو اجمالاً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے،اگر تفصیلات بیان کریں تو خلافِ ادب ہے۔ مثلاً سسر اپنے داماد کو کہے: ’’میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘،تو اجمالاً قول ہونے کی وجہ سے یہ ادب ہے لیکن اگر وہ تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’سر سے لے کر پاؤں تک تمام جسم کا خالق اللہ ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک عضو کا نام لے کر یہی بات کہی جائے تو یہ خلافِ ادب ہے۔’’اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے‘‘یہ اجمالاً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درست اور ادب ہے لیکن تفصیلاً ایک ایک جگہ کا جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں، نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگا۔لہذا ایسا سوال کرنا ہی غلط، نامناسب اور ناجائز ہے۔
یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے قرآن کریم کو بیت الخلاء میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حالانکہ ہر حافظ جب بیت الخلاء جاتا ہے تو قرآن اس کے سینے میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ، کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم اللہ تعالیٰ کا جسم ہی ثابت نہیں کرتے تو بے ادبی لازم نہیں آتی ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخلاء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں، اگر ہے تو بیت الخلاء میں بابرکت کیسے ؟ تو اس کا یہ سوال لغو ہوگا کیونکہ جب رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں ۔اللہ کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔
نوٹ :
اللہ کو ہر جگہ کہنے سے ہماری مراد اللہ کیلئے کسی جگہ کا اثبات کرنا نہیں بلکہ کسی بھی جگہ کے مقرر کرنے کی نفی کرنی ہے۔
اللہ کی ذات کے متعلق ہمارا وہی عقیدہ ہے جو کہ تمام اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات موجود بلا مکان و جگہ ہے جیسا تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تھی اب بھی ویسے ہی ہے (ملاحظہ ہو اشعریہ ماتریدیہ کا منہج اور فرقہ سلفیہ سے ان کا اختلاف اختلاف نمبر 2) اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اللہ تعالٰی کسی کے ساتھ متحد اور حلول نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی چیز اللہ کے ساتھ متحد(جڑجانا)  یا حلول (مکس ہوجانا) ہو سکتی ہے اللہ تعالٰی کی ذات قدیم ہے اور قدیم حادث  (جو بعد میں پیدا ہوئے) کے ساتھ متحد و حلول نہیں ہو سکتا اتحاد اور حلول وہاں ہوتا ہے جہاں دو چیزیں ایک ہی جنس کی ہوں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی نہ تو جنس جواہر ہے اور نہ ہی جنس اعراض ۔