غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Sunday, 14 June 2015

علماء اہلحدیث کے چند باطل عقائد و نظریات Aqaid Ulma e Ahle Hadees

'

پی ڈی ایف فائل ڈاؤنلوڈ کیجئے


عقائد علماء اہلحدیث
علماء اہلحدیث کے چند باطل عقائد و نظریات
نوٹ
ہم جہاں بھی لفظ اہل حدیث ، فرقہ  اہلحدیث ، لامذہب  یا غیرمقلدین  کا لفظ استعمال کریں تو اس سے انگریز کے دور میں وجود میں آنے والا فرقہ مراد ہو گا۔ جیسا کہ  ان کے ایک بڑے بزرگ ہیں ان کی شہادت ہے  ، چنانچہ فرماتے ہیں
”کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشنا ہیں پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام بھی ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے“۔
الارشاد الی سبیل الرشاد ص 13))
فرقہ اہلحدیث کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا؟
مولانا عبد الرشید  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
”علماء اہلحدیث کا سلسلہ برصغیر میں ان ( میاں نذیر حسن دہلوی غیرمقلد) سے شروع ہوتا ہے“۔
(چالیس علماء اہلحدیث 28)
فرقہ اہلحدیث انگریزوں کا پیدہ کردہ فرقہ ہے:۔
جناب مولانا محمد حسن صاحب غیرمقلد بٹالوی  جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ  کرویا تھا    خود فرماتے ہیں: "اے حضرات یہ مذہب سے آزادی اور خود سری و خود اجتہادی کی تیز ر ہوا یورپ سے چلی ہے اور ہندستان کے شہر و بستی و کوچہ و گلی میں پھیل گئ ہے۔ جس نے غالباَ َ  ہندوؤں کو ہندو اور مسلمانوں کو مسلمان نہیں رہنے دیا۔ حنفی اور شافعی مذہب کا تو پوچھنا ہی کیا"
 (اشاعت السنۃ  ص٢٥٥)
اس غیرمقلدیت کی سرپرستی کے لئے ایک زمنی ریاست بھوپال ان کو دی گئی:
 چنانچہ نواب بھوپال صدیق حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں: "فرمان روایاں بھوپال کو ہمیشہ آزادگی مذہب (غیرمقلدیت) میں کوشش رہی ہے جو خاص منشاء گورنمنٹ انڈیا کا ہے"
ترجمان وہابیہ ص ٣))
پھر فرماتے ہیں : ”یہ آزادگی مذہب جدید  سے عین مراد انگلشیہ سے ہے" (ص ٥
”یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں جس کا اشتہار بار بار انگریزی سرکار سے جاری ہوا۔ خصوصاََ دربار دہلی سے جو سب درباروں کا سردار ہے“۔
ترجمان وہابیہ ص32))

ہم علماء اہلحدیث اور عوام اہلحدیث کے چند باطل اور گمراہ کن عقائد و نظریات پیش  کریں گے  اگر کوئی غیرمقلد اپنے کسی عالم کے کسی عقیدے کو ترک کرتا ہے تو وہ ساتھ میں اس عالم  کا اور اس کے عقیدے کا حکم بھی لکھے  اور اس بات کا اقرار کرے کہ اس کا یہ عالم گمراہ کن عقائد و نظریات کا حامل تھا تاکہ معلوم ہو کہ اس لامذہب فرقے  نے کتنے گمراہ لوگ پیدا کئے ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے مولوی زبیر علی زئی صاحب جو کہ اپنے ان علماء کے گند سے جان چھڑانے کیلئے جھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں:
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، نور الحسن ،  وغیرہ غیر اہل حدیث اشخاص ہیں۔
(الحدیث فروری 2010 صفحہ نمبر 16)
لعنت اللہ علی الکاذبین
غیرمقلدین کے گھر کی شہادت کہ زبیر علی زئی کذاب تھا اور محدثین  کی  طرف بھی جھوٹ منسوب کر دیتا تھا۔
چنانچہ اہل  غیرمقلد عالم کفایت اللہ صاحب سنابلی لکھتے ہیں:
زبیر علی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلا خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجک محدثین کا اصول بتلاتے ہیں بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ ہی نہیں پاتے ، اور کہیں محدیث کے موقف کی  غلط ترجمانی  کرتے ہیں یا بعض محدثین  و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتی ہیں۔ اور کسی  سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں اور فریق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں  بھی نہیں ہوتیں۔
(زبیر علی زئی پر رد میں دوسری تحریر ص 2)

وحید الزمان صاحب
جن کو بڑے بڑے علماء نے اپنا امام تسلیم کیا ہے۔
خود ایک جگہ غیرمقلدین کے ایک بڑے عالم رئیس ندوی صاحب  انہیں امام اہلحدیث قرار دیتے ہیں:
ملاحظہ ہو (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
اور یہ کذاب کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص ہیں۔
نواب وحید الزمان صاحب  آخری دم تک اہلحدیث رہے۔
اہل غیرمقلد عالم لکھتے ہیں:
مرحوم (وحید الزمان) حنبلی یا اہلحدیث تھے اور آخری دم تک اسی موقف پر رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 ص 77)
نوٹ : معلوم ہو گیا کہ وہ آخری دم تک اہلحدیث ہی تھے اور مولانا صاحب کی حنبلی ہونے والی بات  لطیفے سے کم نہیں۔
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، ثناء اللہ امرتسری صاحب اہلحدیث کے اسلاف تھے۔
ایک اور بڑے مولوی غیرمقلدین کے وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان صاحب ثناء اللہ امرتسری صاحب کے نام لکھ کر اگے لکھتے ہیں:
 بلا شبہ ہمارے اسلاف   تھے۔
(حدیث اور اہل تقلید ص 162)
اور آج کا ایک کذاب مولوی  زبیر علی زئی نامی کہتا ہے کہ یہ غیراہلحدیث اشخاص تھے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب کی کتاب نزل الابرار  فرقہ اہلحدیث کے نزدیک نہایت مفید کتاب ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  شیخ الحدیث ثناء اللہ مدنی صاحب  نزل الابرار کے  متعلق لکھتے ہیں۔
”فی جملہ کتاب نہایت مفید ہے“۔
(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 493)
نواب صدیق حسن خان صاحب بھی غیرمقلد ہی تھے۔
خود نواب صدیق حسن خان صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
ان احمقوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں تو مشہور اہل حدیث ہوں۔
(ابکار المنن ص  290)
آج نواب صدیق حسن خان صاحب زندہ ہوتے تو آپنے شہرت دیکھ لیتے
یہی ہے علماء اہلحدیث کی کل اوقات جو بھی مرے اس کے گند سے جان چھڑانے کیلئے اسے اپنی جماعت سے خارج قرار دے دو ، یہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص غضب ہے۔
 غیرمقلدین کے ایک بڑے مولوی مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
آج اہلحدیث ہی نہیں احناف بھی حضرت نواب صدیق صاحب  کا مسلک اہلحدیث ہونا اتنا مشہور اور معروف ہے کہ شاید بہتوں کو تعجب ہو گا کہ اس عنوان پر گفتگو کرنے کی ہم نے ضرورت ہی کیوں محسوس کی۔
(اہلحدیث اور سیاست ص 138)
نور الحسن خان صاحب جو کہ نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے تھے  نور الحسن صاحب نے اہلحدیث کی فقہ ”عرف الجادی “ نامی کتاب لکھی اور اپنے مسلک کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اور آج کا یہ کذاب مولوی کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص تھے اور اللہ کا ان پر غضب دیکھئے کہ خود اس کے اپنے ہی جماعت کے کسی دوسری مولوی نے اسکے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جو اس نے دوسرے اپنے بڑے مولویوں کے ساتھ کیا تھا۔

قرآن و حدیث کے نام پر جمع کئے گئے علماء اہلحدیث کے عقائد و نظریات جماعت اہلحدیث پر حجت ہیں۔
ڈاکٹر محمد بہاولدین صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں لکھتے ہیں:
بعض عوام کا لانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب ، بدمذہب ، ضال مضل جوکچھ کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتےہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں ۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہر ی معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں ۔جس  میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں“۔
(تاریخ اہلحدیث ص 164)
پہلے تو یہ تمام عقائد غیرمقلدین پر حجت ہیں کیونکہ یہ لوگ یہی دعوے کرتے ہیں کہ ہماری جماعت صرف قرآن اور حدیث کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتی اور  یہ تو پھر ان کے  بڑے بڑے علماء ہیں ۔ ہاں اگر  وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے تو پھر پہلے اس بات کا اقرار کریں۔

فرقہ اہلحدیث کو ننگا کرنے والا اصول
 چنانچہ ایک غیرمقلد عالم لکھتا ہے۔
کسی گروہ کے عقاےد اس کے علماء اور اکابرین طے کرتے ہیں“۔
 کیا علمادیوبند اہلسنت ہیں ص 8))
اب  ہم ان شاء اللہ اس گروہ کے علماٰء اور اکابرین کے عقائد سامنے لاتے ہیں۔

عقیدہ نمبر 1
فرقہ اہلحدیث   اللہ  کی ذات کو محدود مانتا ہے اور اللہ کیلئے مکان اور جہت کا قائل ہے۔
ملاحظہ فرمائے فرقہ اہلحدیث  کے ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن  صاحب   کی ایک ویڈیو کلپ
https://vimeo.com/137039911
نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور س کا مکان عرش ہے۔
(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)
نوٹ : نواب وحید الزمان صاحب کو خود ان کے ایک بڑے جید عالم نے امام اہلحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)

اللہ تعالٰی  کا کوئی مکان ہے؟
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته 
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رہے کہ
 ”الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے
 (متن العقيدة الطحاوية صفحہ ۱۵)
شیخ نظام الدین الهنديؒ اللہ کیلئے مکان  کا اثبات کرنے والے کو کافر لکھتے ہیں۔
قال الشيخ نظام الهندي: "ويكفر بإثبات المكان لله" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني صفحه 259)
قال الإمام محمد بن بدر الدين بن بلبان الدمشقي الحنبليؒ  اللہ تعالٰی کی ذات کو ہر مکان میںموجود  یا کسی ایک مکان میں ماننے والے کو کافر کہتے ہیں۔
 "فمن اعتقد أو قال إن الله بذاته في كل مكان أو في مكان فكافر" (في كتابه مختصر الإفادات ص: 489)
.
الشيخ محمود محمد خطاب السبكيؒ اللہ تعالٰی کیلئے جھت کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں "وقد قال جمع من السلف والخلف: إن من اعتقد أن الله في جهة فهو كافر".(إتحاف الكائنات)
الله  کیلئے جسم جھت کے قائل پر چاروں آئمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبلؒ کا کفر کا فتویٰ۔
(وفي المنهاج القويم على المقدمة الحضرمية )في الفقه الشافعي لعبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر بافضل الحضرمي: "واعلم أن القرافي وغيره حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي الله عنهم القول بكفر القائلين بالجهة والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ
ومثل ذلك نقل ملا علي القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاة)
محدث محمد زاهد بن الحسن الکوثریؒ فرماتے ہیں:
حيث تواتر ان ابا حنيفة كان يكفر من زعم فياللہ انه متمكن بمكان (تانیب الخطيب ص 101)
”یہ بات امام ابو حنیفہؒ سے تواتر سے ثابت ہے کہ وہ اس شخص کو کافر مانتے تھے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ کسی مکان میں متمکین ہیں“۔ ( یعنی کسی خاص مکان میں ہی ہیں اور بس)

عقیدہ نمبر2
فرقہ اہلحدیث اللہ تعالٰی کیلئے جسم کے اعضا  کے قائل ہیں
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالٰی کے لئے اس کی ذات مقدس کے لائق بلاتشبیہ یہ اعضا ثابت ہیں چہرہ آنکھ ہاتھ مٹھی کلائی درمیانی انگلی کے وسط سے کہنی تک کا حصہ سینہ پہلو کوکھ پاؤں ٹانگ پنڈلی، دونوں بازو
(ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 27)

عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث اللہ کی صفات متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان متشابہات کے جو ظاہری معنی ہمیں معلوم ہیں وہی اللہ کی بھی مراد ہے لیکن کیفیت اس کی معلوم نہیں۔
محدث امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:
جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
جبکہ  فرقہ سلفیہ کا دعوی ہے  کہ نصوص صفات پر ایمان لانے  کیلئے صفات  متشابہات کے معنی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
امام سیوطی ؒ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اہلحدیث عالم شمس افغانی سلفی جو کہ جامعہ اثریہ بشاور کا بانی ہے  لکھتا ہے:
هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
ترجمہ:
میں کہہتا ہوں یہ عبارے پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
 (والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)

عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث کے عقیدہ کے مطابق اللہ کی صفات متاشابہات پر ایمان لانے کیلئے ضروری ہے اللہ کی مراد کا بھی علم ہو جیسے صفات غیر متشابہات کے متعلق  ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ
(آل عمران آیت 7)
وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں) وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ( یعنی جنکے معنیٰ  معین نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔
ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کی غیر متشابہات صفات بھی ہیں جیسے علم ، حیات ، قدرت ، سمع ، بصر وغیرہ
اب ہم اور آپ دونوں ان کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ اللہ کا علم ہے لیکن ہمارے علم کی طرح نہیں اللہ کی حیات ہے لیکن ہماری حیات کی طرح نہیں۔
یہ صفات تو غیر متشابہات تھیں۔
اب جو متشابہات ہیں جیسے  ید ، قدم ، وجہ ، استوی علی العرش ، نزول الی سماء
ان صفات کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ  ہم نہیں جانتے کہ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک مراد معلوم نہیں ہو گی تب تک ایمان نہیں لایا جاسکتا۔
جب کہ نام نہاد ان صفات  متشابہات کے متعلق بھی وہی بات کہتے ہیں جو آپ غیر متشابہات صفات کے متعلق کہتے ہیں
اللہ کا  ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) استوی علی العرش سے جو اللہ کی مراد ہے وہ آپ کو معلوم  ہے جیسا غیر متشابہات صفات کی مراد معلوم ہے اور کیسے ہے اس کی کیفیت کیا ہے وہ آپ کو معلوم نہیں جیسا  کہ غیر متشابہات صفات کی معلوم نہیں۔
اب انہوں نے صفات متشابہات اور غیر متشابہات کا بلکل فرق ہی مٹا دیا اور دونوں کیلئے ایک ہی ضابطہ مقرر کر دیا اگر صفات متشابہات اور غیر متشابہات ایک ہی ہیں تو ان کی تقسیم کیوں کی گئی اور اگر  ان متشابہات کو بھی غیر متشابہات کی طرح رکھنا تھا تو  اللہ نے ایسا کیوں فرمایا کہ اس قرآن میں متشابہات بھی موجود ہیں؟

عقیدہ نمبر 4
خدا جس صورت میں چاہے ظاہر ہو سکتا ہے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب خدا کی صورت کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
وہ جس صورت میں چاہے ظاہر ہو
(ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 26)
معاذ اللہ لوگوں کے عقائد کو خراب کرنے کیلئے لوگوں کے ذہنوں میں  خدا کی صورت کا تصور بنایا جا رہا ہے جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے
ليس كمثله شيء
وہ کسی شے کی مثل نہیں۔ (الشوری 11)

عقیدہ نمبر 5
فرقہ اہلحدیث کے نزدیک بیس رکعت تراویح بدعت ہے۔
لکھتے ہیں:
بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“۔
(مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص 69)
العیاذباللہ
بیس رکعت تراویح کب سے ہو رہی ہے؟
بیس رکعت تراویح صحابہ کرام اور تابعین کے پاک زمانے سے چلی آرہی ہیں۔
 أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ»
السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
ہم لوگ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اللہ عنہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں
 20 رکعت اور تین  وتر پڑھا کرتے تھے۔
( معرفة السنن والآثار ج 4 ص 42 : صحیح)
أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة
ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر خوب اچھا پڑھنا نہیں جانتے، پس کاش! تم رات میں ان کو قرآن سناتے۔ اُبیّ نے عرض کیا: یا امیرالموٴمنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے۔ چنانچہ اُبیّ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو 20 رکعتیں پڑھائیں۔
( الأحاديث المختارة ج 3 ص 367 : صحیح)
أَبُو الخضيب قَالَ يحيى بْن مُوسَى قَالَ نا جَعْفَر بْن عون سَمِعَ أبا الخضيب الجعفِي كَانَ سويد بْن غفلة يؤمنا فِي رمضان عشرين ركعة.
ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں بیس ( 20 ) رکعتیں پڑھا تے تھے۔

(التاريخ الكبير ج 9 ص 28)

حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کا شمار کبار تابعین میں ہے، انہوں نے زمانہٴ جاہلیت پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسلام لائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی، کیونکہ مدینہ طیبہ اس دن پہنچے جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، اس لئے صحابیت کے شرف سے مشرف نہ ہوسکے، بعد میں کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب میں تھے،
۸۰ھ میں ایک سو تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
(تقریب التهذيب ج 1 ص 341)
اگر یہ بدعت ہے تو یہ بدعت شروع سے  آج تک حرم اور مسجد نبوی میں جاری ہے۔

عقیدہ نمبر 6
فرقہ  اہلحدیث کے امام الہند محمد جونا گڑھی لکھتا ہے کہ :
حضرت عمرؓ کی سمجھ معتبر نہ تھی
(شمع محمدی ص 22)
اور حضرت عمرؓ کی سمجھ کے معتبر نہ ہونے پر دلائل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسے دلائل جس سے کل کو یہی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ معاذ اللہ نبیﷺ کی سمجھ بھی معتبر نہیں۔
العیاذ باللہ جس عمرؓ کے متعلق نبیﷺ فرماتے ہیں
«لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ»
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطابؓ ہوتے۔
(سنن الترمذي ج 5 ص 619)
ان عمرؓ کے متعلق یہ رافضی کہتا ہے کہ ان کی سمجھ معتبر نہ تھی
آخر ایسا کہہ کر یہ لوگوں  کو کیا   سبق دینا چاہتے ہیں؟

عقیدہ نمبر 7
قربانی میں مرزئی بھی شریک ہو سکتا ہے۔
غیرمقلد عالم محمد علی جانباز صاحب لکھتے ہیں:
باقی رہی مرزائی کی شرکت تو اس کے متعلق بھی حرام کا فتوی نہیں لگا سکتے“۔
(فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 89)

عقیدہ نمبر 8
امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی فرض ہے اور
امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی وہ بے نمازی ہے۔
العیاذ باللہ
مفتی عبد الستار صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
فاتحہ ہر ایک مقتدی و منفرد و امام پر واجب ہے اور اس کے ترک سے بالکل نماز نہیں“۔
(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 54)
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی“۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 398)
 محب اللہ شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں
سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی بھی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ صرف ایک رعکت میں بھی نہیں پڑھی تو اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی  وہ نماز خواہ اکیلے پڑھے یا پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی“۔
(مقالات راشدیہ ص 67)
یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس مسئلہ کی ایک بھی صحیح صریح مرفوع حدیث دنیا میں موجود نہیں۔
ان کی بنیادی 2 ہی دلیلیں ہیں
 ایک صحیح بخاری سے
فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔۔۔ الخ
جواب
یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے اور امام مسلمؒ نے اس کے بعد سند نقل کرکے اس میں اضافہ بھی نقل کیا ہے اور پوری حدیث یوں ہے۔
37 - (394) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ، الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرِهِمْ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ» [ص:296] وَحَدَّثَنَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَزَادَ فَصَاعِدًا
(صحیح مسلم ج 1 ص 295)
 نبی کریمﷺ فرماتے ہیں جو سورۃ فاتحہ اور کچھ زائد قرآن نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ کَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَکُونَ وَرَائَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 301:صحیح )
، جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورت فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔

غیرمقلدین کی دوسری اور آخری مرفوع   دلیل حضرت عبادہ بن صامتؓ   سے ہے جس میں ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی ۔۔۔ الخ
یہی غیرمقلدین  کی اس مسئلہ میں اکلوتی دلیل ہے جسے خؤد ان کے  محدث البانی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(سنن ابی داؤد ص 144)
یہی انتہائی ضعیف حدیث ان کا ہر  عامی جاہل اور عالم جاہل لئے گومتا ہے  تمام امت کی نماز کو باطل قرار دینے کیلئے۔

عقیدہ نمبر 9
مرزئی اسلامی فرقہ ہے۔
ثناء اللہ امرتسری صاحب نے مرزئیوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے۔ دیکھئے
 (ثنائی پاکٹ بک ص 55)

عقیدہ نمبر 10
اجماع حجت شرعیہ نہیں۔
ویسے تو تمام غیرمقلدین اجماع امت کے منکر ہیں چاہے عملاً ہوں یا قولاً لیکن ہم ان کے بڑے  مولوی سے دکھاتے ہیں
حافظ عبد المننان نور پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں۔
اجماع صحابہ ؓ اور اجماع ائمہ مجتہد کا دین میں حجت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔
(مکالمات نور پوری ص 85)
لعنت اللہ علی الکاذبین
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا سورۃ نساء آیۃ ۱۱۵؁ۧ
اور جو کوئی مخالفت کرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کہ کھل چکی اس پرسیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا
یہ اجماع  کی حجیت نہیں تو اور کیا ہے اور یہ  سب سے افضل ہستیاں صحابہ اور ائمہ مجتہدین کے اجماع کا  انکار کر رہا ہے۔

عقیدہ نمبر 11
آذان عثمانی بدعت ضلالت ہے۔
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں۔
یہ اذان رائجہ بدعت ضلاف ہے (فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 432)
مولوی محمد جونا گڑھی  صاحب لکھتے ہیں:
پس ہمارے زمانہ میں مسجد میںں جو دو اذانین جمعہ کے لئے ہوتی ہیں صریح بدعت  ہے کسی طرح جائز نہیں۔
(فتاویٰ اہلحدیث  ج 2 ص 106)
غیرمقلد وکٹورین ایک اور بات بھی کہتے ہیں کہ  دور عثمانی میں یہ آذان  کسی بلند جگہ کہلاوئی جاتی تھی اور آج کل  اہلسنت حنفی شافعی مالکی اور حنبلی یہ آذان مسجد میں دی جاتی ہے اور ہم اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں۔ العیاذ باللہ یہ لوگ کس دلیل سے اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں حضورﷺ کے دور میں  تو بقیہ آذانیں بھی بلند جگہ پر دی جاتی تھیں اور اب صرف مسجد میں دی جاتی ہیں  اگر یہ بدعت ضلالت ہے تو کیا یہی آذان مسجد کی بجائے بازار یا کسی بلند عمارت پر دیں تو کیا  جائز ہو گئی ؟ اور یہی آذان حرم میں بھی دی جاتی ہے کیا وہ بھی بدعت ضلالت ہے؟

عقیدہ نمبر 12
دین میں نبی کی رائے حجت نہیں۔
غیرمقلدین کے خطیب الہند محمد جونا گڑھی صاحب لکھتے ہیں۔
تعجب ہے کہ جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے  کو دلیل اور حجت سمجھنے لگے
(طریق محمدی ص 40)
جبکہ یہ بات ہی صحیح نہیں کیونکہ نبیﷺ دینی معملات میں رائے نہیں دیتے بلکہ وہ ان کا حکم ہوتا ہے جسے اپنانا لازم ہوتا ہے ہاں البتہ دنیاوی معملات میں آپﷺ نے خود اختیار دیا ہے اور جان چھڑانے کیلئے  اسے مجتہدین کے اجتہادات کے ساتھ جوڑ  نا بھی  صریح حماقت ہے۔
 «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ»
  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انساں ہوں، جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں (دنیاوی معملات میں) اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔
(صحیح مسلم ج 4 ص 1835)

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے۔
آپﷺ فرماتے ہیں۔
مَا لِنَخْلِکُمْ قَالُوا قُلْتَ کَذَا وَکَذَا قَالَ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاکُمْ۔
(صحیح مسلم  ج 4 ص 1836)
 تم لوگ اپنے دنیوی معاملات کو میرے نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔

                                                                     عقیدہ نمبر 13
ائمہ اربعہؒ کی تقلید بھی شرک ہے۔
فرقہ اہلحدیث کا ہر عامی جاہل اور عالم کہلائے جانے والا جاہل  یہ بات کرتا ہے۔
اب ان  کا اپنا اقرار بھی دیکھئے
ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں:
اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ تقلید خواہ آئمہ اربعہ میں سے کسی کی ہو خواہ ان کے سوا کسی اور کی شرک ہے“۔
(الظفر المبین ص 20)
جبکہ  پوری قرآن میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں جس  میں اللہ تعالٰی نے آئمہ فقہاء مجتہدین  اہل استنباط کی تقلید کو شرک کہا ہو یا کم از کم روکا  ہو منع کیا ہو جیسا کفار مشرکین بے دین اور نا اہلوں کی تقلید سے منع  کیا ہے۔

عقیدہ نمبر 14
سنت عمر کفر ہے۔ نعوذ باللہ
فرقہ اہلحدیث کے مولوی عبد المتین میمن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں لکھتا ہیں:
سنت محمدی کو چھوڑ کر سنت عمرؓ کی طرف لوٹیں گے تو کفر ہے“۔
(حدیث خیر و شر ص 110)
العیاذ باللہ
پہلے عمرؓ کو نبی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا  پھر ان کی طرف رجوع کرنے والے کو کافر قرار دیا اس میں وہ تمام صحابہ کرام ؓ آگے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی پیروی کی لہذا اس احمق مولوی  کے مطابق حضرت عمرؓ اور ان کے پیروا سب کافر ہوئے۔  نعوذ باللہ 

عقیدہ نمبر 15
بیک وقت چار سے زائد شادیاں کی جاسکتی ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے مشہور عالم  نواب صدیق حسن خان صاحب اور نور الحسن صاحب لکھتے ہیں:
چار کی کوئی حد نہیں (غیر مقلدمرد) جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے
 (ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111)

عقیدہ نمبر 16
فرقہ اہلحدیث کے نزدیک  پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف ہونا یا پشت کرنا بالکل جائز ہے ناجائز ہونا تو دور رہا مکروہ بھی نہیں ہے۔
(دستور المتقی ص 45 از مولانا یونس دہلوی، نزل الابرار ج 1 ص 53 از امام اہلحدیث نواب وحید الزمان)
جبکہ  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشاب ، پاخانہ کرتے وقت بغیر کسی عذر کے قبلہ رو ہونا اور پشت کرنا مطلقا ناجائز ہے، آبادی میں ہو یا صحرام میں حضورﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے اور بقلہ کے اکرام کرنے کا حکم دیا ہے۔
(بخاری ج1 ص 57 ، مسلم ج1 ص 130 ، زاد المعاد ج1 ص 8 ، مجمع الزوائد ج1 ص 205  ابو داود ؤغیرہ)

عقیدہ نمبر 17
زکوۃ کا انکار اور  اس میں حیلے
فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
زیورات اور مال تجارت میں زکوۃ نہیں۔
(بدور الاہلہ ص 102)
 اور زکوۃ کہاں دی جائے؟
نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ماں باپ اور سگی اولاد کو زکوۃ دینی جائز ہے۔
(عرف الجادی ص 72)
گویا کہ زکوۃ کے اصل حقداروں کو چھوڑ کر آپس میں ہی  ایک دوسرے  کو زکوۃ دے دی جائے تاکہ مال اندر ہی رہ جائے۔

عقیدہ نمبر 18
عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے والا ملعون ہے۔
حضرت عائشہؓ کی بدترین توہین
فتاویٰ نذیریہ کے مفتی غیرمقلدین کے شیخ الکل نے حضرت عائشہؓ کی شان میں زبردست گستاخی کی ہے ، انکا قول ” کہ اگر آج نبی کریمﷺان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں  مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک گی گئی تھیں“۔
 (بخاری ج1 ص 120)
 اس کے بعد  غیرمقلدین کے شیخ الکل کی بات ملاحظہ ہو۔
”پھر اب جو شخص بعد ثبوت قول رسول و فعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ۔۔۔۔۔ الخ (الایۃ) جو حکم صراحۃ شرع  میں ثابت ہو جائے اس میں ہر گز رائے و قیاس کو دخل نہ دینا چاہئے کہ شیطان اس قیاس سے کہ انا خیر منہ حکم صریح الٰہی سے انکار کرکے ملعون بن گیا ہے اور یہ بالکل شریعت کو بدل ڈالنا ہے“
(فتاویٰ نذیریہ جلد۱ ص۲۶۶)
غیرمقلدین کے شیخ الکل کی گمراہی ملاحظہ  فرمائیں اس نے در پر وپ حضرت عائشہؓ پر کیسا زبردست حملہ کیا ہے، افسوس اس فتویٰ  غیرمقلدین کے شیخ الکل کا بھی بلا کسی اختلافی نوٹ کے دستخط موجود ہے۔
اور نذیر حسن  نے لوگوں کو کیا تاثر دیا ہے
حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کی۔
حضرت عائشہ نے اس مسئلہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کرکے آیت مذکورہ بالا کا مصداق ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ نے اس مسئلہ میں اپنے قیاس اور رائے کو دخل دیا۔
حضرت عائشہؓ نے دین کے حکم میں رائے اور قیاس کو دخل دیکر وہی کام کیا جو شیطان نے انا خیر منہ کہہ کر کیا تھا۔
حضرت عائشہؓ نے معاذ اللہ یہ کہہ کرکہ موجودہ وقت عورتوں کو مسد اور عید گاہ جاانا مناسب نہیں ہے۔شریعت کو بدل ڈالنے کی جرأت کی۔

عقیدہ نمبر 19
آج کل کے تمام غیرمقلدین یہ عقیدہ رکھتے  اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ
   اللہ کی ذات صرف عرش  کے اوپر اوپر تک ہے نیچے سے ختم ہوتی ہے اور اللہ کی ذات کے بعد اس کے نیچے سے  عرش اور دیگر مخلوقات شروع ہوتی ہیں   العیاذ باللہ
جبکہ یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
 (الحدید 3)
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن
رسول اللہﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے  تیرے نیچے کچھ نہیں۔
(صحیح مسلم)
دون کا مطلب ”علاوہ“  بھی ہوتا ہے اور ”دون“ کا مطلب ”نیچے بھی ہوتا ہے۔
(المورد ص 557)
 ہم دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ ”دون“ نیچے کیلئے استعمال ہوا ہے۔
نبی کریمﷺ کی حدیث ہے
وَلَا الْخُفَّيْنِ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ تَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَمَا دُونَ الْكَعْبَيْنِ
اور اگر تمہارے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو“۔
(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)

امام بيهقي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
 (الأسماء والصفات للبيهقي ج۲ ص۲۸۷)
ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان  و جگہ سے پاک ہے۔

عقیدہ نمبر 20
اللہ کی صفت ”ید“ متشابہات میں سے نہیں۔
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
اللہ کی صفت ”ید“ کو متشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے“۔
(اصول المصابیح  ص 38 ترجمہ و تحقیق و تخریج زبیر علی زئی)


عقیدہ نمبر 21
ننگے ہو کر نماز پڑھنا
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
عورت کی نماز بغیر ستر چھپائے صحیح ہے عورت تنہا ہو یا دوسری عورتوں کے ساتھ ہو یا پھر اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا دوسرے محارم(باپ بھائی بیٹے) کے ساتھ  ہو غرض ہر طرح صحیح ہے زیادہ سے زیادہ سر چھپا لے“۔
(بدول الاہلہ ص 39)

عقیدہ نمبر 22   
صحابہ کرام پر فاسق ہونے کا اطلاق  کیا جاسکتا ہے۔
غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب حولہ  (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)  نزل الابرار میں لکھتا ہے کہ ہے
تمام صحابہ کو عدول قرار دینے کا معنی ہے کہ وہ نقل روایت میں ثقہ و عادل و معتبر ہیں نہ کہ سارے صحابہ معصوم ہیں، ان سے کوئی ایسی بات سر زد  ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنا پر ان پر لفظ فاسق کا اطلاق نا ممکن ہے“۔
(حاشیہ نزل الابرار ج 3 ص 94)
 معاذ اللہ

عقیدہ نمبر 23
   مشت زنی واجب ہے
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
نظر بازی کا خطرہ ہو تو مشت زنی واجب ہے“۔
(عرف الجادی ص 207)
سوال یہ ہے کہ اگر یہ واجب ادا نہ کیا گیا تو کیا گناہ  ہو گا؟
ایک غیرمقلد سنت پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا اسے نظربازی  کا خطرہ محسوس ہوا اب وہ سنت ادا کرے یا پہلے واجب ؟
اگر نظر بازی کا یہی اعلاج ہے تو پھر نفس پر قابو کا کیا مطلب ہے؟

عقیدہ نمبر 24
اگر زنا پر مجبور کیا جائے تو  زنا کرنا جائز ہے۔
نواب الحسن خان صاحب  غیرمقلد لکھتے ہیں:
کوئی شخص زنا پر مجبور کیا جائے اس کیلئے زنا کرنا جائز ہے“۔
(عرف الجادی ص 215)
العیاذ باللہ
حضرت یوسفؑ کا مشہور واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب زلیخا انہیں اپنی طرف مجبور کر رہی تھیں تو حضرت یوسفؑ نے اس سے کہا
معاذ اللہ انه ربياحسن مثواي انه لا يفلح الظلمون
ترجمہ:
معاذ اللہ ! تیرا شوہر عزیز مالک ہے میرا اور اچھی طرح رکھا ہے مجھے اس نے ، بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔
(سورۃ یوسف ص 23)
اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت کوئی  غیرمقلد وکٹورین موجود نہیں تھا جو  جائز کا فتویٰ دے دیتا۔

عقیدہ نمبر 25
بار بار طلاق دینا اور بار بار رجوع کرلینا جائز ہے۔
سائل نے  ایک غیرمقلد مولوی عبد اللہ ویلوری سے سوال پوچھا۔
سوال: زید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ اس کے بعد 10 یو زید نے رجوع کر لیا پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ تنازع ہونے کی صورت میں اس نے طلاق دے دی۔ آٹھ یوم کے بعد پھر رجوع کر لیا۔ اس نے چار پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔ طلاق دے دی اور رجوع کر لیا زید کو اس مسئلہ کے بارے میں کوئی علم نہ تھا اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟ اب پھر دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں  فتویٰ صادر فرمائیں۔ اللہ آپ جو جزائے خیر دے۔
جواب:
صورت مسئلولہ میں رجوع کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ دو گواہوں کے ر برو رجوع کرکے بیوی کو آباد کر سکتا ہے
(فتاویٰ جات ص 482)
اس احمق مولوی نے طلاق کی  مقدار  ہی ختم کر دی جو کہ شریعت نے ہمیں دی تھی۔
اب کوئی غیرمقلد  صبح شام بیوی کو طلاق دیتا پھرے اور رجوع کرے بیوی اس کے لئے حلال ہے۔

عقیدہ نمبر 26
کسی کو  حاضر ناظر جاننا شرک نہیں
فرقہ اہلحدیث کا عقیدہ ہے کہ
اللہ کی ذات حاضر و ناظر نہیں اب  جب اللہ کی ذات ہی حاضر ناظر نہیں تو کسی  ولی یا نبی کی ذات کو حاضر و ناظر سمجھا کس طرح سے شرک ہو سکتا ہے ؟ شرک ہو  تو  کس کے ساتھ اللہ  کی ذات تو حاضر و ناظر نہیں۔

عقیدہ نمبر 27
نماز کے سنت واجبات فرائض وغیرہ سب بدعات ہیں۔
ایک غیرمقلد مولوی صاحب لکھتے ہیں:
نماز کے واجبات فرائض سنن اور مستحبات یہ تمہاری  بدعت ہے اگر بدعت نہیں تو قرآن و سنت سے ثابت کریں“۔
(حنفیوں کے 350 سوالات کے جوابات ص 125)
فرقہ اہلحدیث کے ایک اور احمق مولوی صاحب لکھتے ہیں:
 فقہائے احناف کا نماز کے ارکان میں سے بعض کو فرض بعض کو واجب بعض کو سنت بعض کو مستحب قرار دینا بدترین بدعت ہے“۔
(تحفہ حنفیہ ص 125)
تمام فقہاء اور محدثین کرام نے اپنی اپنی کتب  میں بعض جگہ پر کسی مسئلہ کو فرض یا کسی کو سنت یا کسی کو واجب قرار دیا لیکن ان تمام محدثین فقہاء  جلیل القدر علماء کے خلاف ان وکٹورینوں کے نزدیک یہ ایک بدترین بدعت ہے۔

عقیدہ نمبر 28
ہر ایک اجتہاد کا حقدار ہے۔
ویسے تو یہ عقیدہ ہر ایک غیرمقلد  کا ہوتا ہے۔  لیکن ہم ایک حوالہ بھی پیش کرتے دیتے ہیں۔
مشہور غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب  ایک سائل کو سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
باقی امور کے بارے میں خود اجتہاد کر لیں“۔
(فتاویٰ علمیہ ص198)

اس احمق کے اس قول پر ہم ایک مشہور محدث کا قول نقل کرتے ہیں
امام الجرح والتعدیل حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ (وفات 748ھ)فرماتے ہیں:
نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم يسغ له أن يقلد كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا فكيف يجتهد وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟
ترجمہ:
جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعد آئمہ دیں اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اسکے اکثر حصے کا حافظ ہو  اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑھے گا ابھی اسکے پر بھی نہیں نکلے؟“۔
(سير أعلام النبلاء ج 13 ص 337)

عقیدہ نمبر 29
من پسند مسائل کو راجح قرار دینا۔
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“
(نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)
غیرمقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب  لکھتے ہیں ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔
(علمی مقالات صفحہ 219)
تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں  ائمہ میں سے کسی ایک کی پیروی کی جائے۔

عقیدہ نمبر 30
زبان سے نیت کا مطلق انکار کرنا
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں
زبان سے نیت کرنا بدعت ہے“۔
(نزل الابرار ج 1 ص 69)

 جبکہ زبان سے نیت کر نا حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن  عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے نبیﷺ نے بیان فرمایا کہ میرے پاس رات کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (فرشتہ) آیا اور اس وقت آپ عقیق میں تھے (اس نے کہا) اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہیں کہ میں نے عمرہ اور حج کی نیت کی۔
(صحیح بخاری ج 3 ح 2244)

عقیدہ نمبر 31
اگر امام کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام نماز لوٹائے مقتدی نہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں:
امام حالت جنابت یا بغیر وجو کے نماز پڑھا دے یا کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام اپنی نماز لوٹائے مقتدیوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور نہ  ہی امام کا ذمہ ہے کہ وہ مقتدیوں کو یہ بائے کہ  میں نے اسس حالت میں نماز پڑھا دی ہے۔
(نزل الابرار ج 1 ص 101)
جبکہ  نبی کریمﷺ نے امام کو ضامن قرار دیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اسکی نماز صحیح ہو گی تو مقتدیوں کی بھی صحیح ہو گی اور اگر اس کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدیوں کی بھی فاسد ہو گی۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے ۔
(مسند احمد ج 9 ح 4341)

عقیدہ نمبر 32
نا پاک اور پلید کپڑوں میں نماز بلکل صحیح ہے۔
نواب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ناپاک کپڑوں (جن پر پیشاب ، پاخانہ  وغیرہ گند لگا ہو) میں نماز صحیح ہے۔
(عرف الجادی ص 21)
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
نمازی کے جسم پر نجاست (پیشاب، پاخانہ) لگا ہوا ہوا ہو تو بھی نماز باطل نہیں“۔
(بدور الاہلہ ص 38)

عقیدہ نمبر 33
گدھی کتیا  سورنی سب کا دودھ اہلحدیث کے ہاں پاک ہے۔
مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
گدھی کتیا  ، سورنی سب کا دودھ پاک ہے“۔
(بدور الاہلہ ص 18)
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
کتے اور خنزیر کا جوٹھا پانی ، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے“۔
(نزل الابرار فقہ نبی المختار ج 1 ص 30)
آخر انہی کتیا اور سورنی کا دودھ پینے والے  ہی بھونکتے ہیں فقہاء پر

عقیدہ نمبر 34
توسل شرک  اور ناجائز ہے۔
مولوی محمد احمد  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروط طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔
(فتاویٰ صراط مستقیم ص 75)
طالب الرحمٰن زیدی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کسی فوت شدہ نبی یا وی کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔
(آئیے عقیدہ سیکھئے ص 159)
جبکہ حدیث  میں ہے کہ
حضرت انس  ؓ فرماتے ہیں  کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑتا تو حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے اس طرح دعا کرتے
«اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا»
(بخاری ج1 ص 137)
ایک اور حدیث میںں ہے
حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ” أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ
حضرت عثمانؓ بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کیلئے آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان (غالباً  مصروفیت کی وجہ سے) اس کی طرف توجہ نہ فرماتے وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو  کرکے مسجد میں جا کر  دو رکعات نماز پڑھ
اور پھر کہو اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپکی طرف متوجہ ہوتا ہو ہمارے پیارے نبی کے وسیلے سے۔
(معجم الصغير ج 1 ص 183-184  صحیح )

عقیدہ نمبر 35
عیسائیوں کا قبضہ بھی دارلاسلام ہوتا ہے۔
وکیل اہلحدیث محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
ہندستان باوجود  یہ کہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔
(الاقتصاد فی مسائل اجہاد ص 25)

عقیدہ نمبر 36
حضرت عیسیٰؑ کے والد کا اثبات۔ العیاذ باللہ
مشہور غیرمقلد عالم عنایت اللہ اثری صاحب لکھتے ہیں:
عیسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تو اپنا شوہر اور اس کا باپ بتا رہی ہے اور باپ بیٹا بھی دونوں اسے تسلیم فرما رہے ہیں مگر صدیوں بعد لوگوں نے انہیں بے پدر بتایا اور آپ کی والدہ کو بے شوہر بتایا کیا خوب ہے۔
(عیون زمزم ص 40)
نوٹ
اس عقیدہ میں ھضرت عیسیؑ کے لئے والد ثابت کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے قرآن یہی بتاتا ہے۔

 عقیدہ نمبر 37
مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھنا
مولوی عبد العزیز صاحب سیکرٹری جمعیہ مرکزیہ اہلحدیث ہند لاہور صاحب غیرمقلد ثناء اللہ امرترسی صاحب جو کہ فرقہ اہلحدیث کے  ہاں شیخ الاسلام ہیں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
آپ (ثناء اللہ امرتسری صاحب) نے لاہوری مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھی“۔
آپ نے فتویٰ دیا کہ مرزئیوں کے پیچھے نماز جائز ہے
آپ نے مرزئیوں کو عدالت میں مرزئی وکیل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرزئیوں کو مسلمان مانا“۔
العیاذ باللہ
(فیصلہ مکہ ص 36)

عقیدہ نمبر 38
جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔
چنانچہ نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو خیر ہے کھاتے وقت پڑھ لے۔(عرف الجادی 239)

عقیدہ نمبر 39
کپڑوں پر اگر حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ لگا ہوا ہو تو اس میں پڑھنی درست ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے عالم لکھتے ہیں:
اور جس کپڑے پر وہ (حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ) لگا ہوا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے“۔
(فتاویٰ ستاریہ ج 1  ص 105)

عقیدہ نمبر 40
نماز کی طرف دعوت دینا درست نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے بڑے عالم طالب الرحمن صاحب کی ایک بڑی حماقت
  لکھتے ہیں:
کیا لوگوں کو نماز کی دوعت دینا اسوہ رسولﷺ ہے ۔ اگر نہیں تو پھر نبیﷺ کے طریقے کو کیوں نہیں اپنایا  جاتا“۔ (یعنی نماز کی دعوت نہ دی جائے)
(تبلیغی جماعت عقائد و نظریات ص 10)

عقیدہ نمبر 41
کتا پاک ہے اور اس کا پاخانہ بھی نجس نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے  عالم جنہیں فرقہ اہلحدیث امام شوکانی کے نام سے جانتی ہے لکھتے ہیں:
حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات یعنی گوشت ، ہڈیاں ، خون بال وغیرہ پاک ہے کیونکہ اصل طہات  ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل  موجود نہیں“۔
(فقہ الحدیث ص 147)
کتے کا پخانہ بھی پاک ہے۔
چنانچہ امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
اور لوگوں (غیرمقلدین) کا  اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتے کا پاخانہ  نجس ہے یا نہیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں“۔
(نزل الابرار ص 50)
نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کتے اور خنزیر کے پلید ہونے کا دعویٰ ٹھیک نہیں۔
(عرف الجادی ص 10)

عقیدہ نمبر 42
صحابہ کرامؓ میں سے بعض لوگ فاسق تھے العیاذ باللہ
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے جیسے ولید بن عقبہ (رض) ایے ہی   معاویہ (رض) ، عمرو بن العاص (رض)  ، مغیر بن شیبہ (رض) اور سمرہ بن جندب (رض) کے متعلق
(نزل الابرار ج 3 ص 94)
نعوذ باللہ من ذالک

عقیدہ نمبر 43
رام چندر اور لکھشمن نبی ہیں اور انہیں نبی ماننا واجب ہے۔
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں۔
ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم دیگر انبیاء کی نبوت کا انکار کریں جن کا ذکر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں نہیں کیا اور کافروں میں تواتر کے ساتھ وہ معروف ہیں۔ اس میں کوئی چک نہیں کہ وہ نیک انبیاء  تھے جیسے رام چندر لچھمن کرشن جی جو ہندؤں میں ہے اور زراتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوس اور مہاتما بدھ جو چین اور جاپان میں ہے اوور سقراط  جو یو نان میں ہیں ہمر پر واجب ہے کہ ہم یوں کہیں ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لائے اور ان میں  کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے  اور ہم سب کے فرمان بردار ہیں۔
(ہدایۃ المہدی ص 85)
حافظ عبد القادر صاحب روپڑی غیرمقلد اس کا دفاع کرتے ہوئے فرماتےہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کا ذکر آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا۔۔۔۔ اگے فرماتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالٰی نے عرب کے سوا اور نبیوں کا ذکر نہیں کیا جیسے ہندستان ، چین ، یونان ، فارس ، یورپ  افریقہ ، امریکہ جاپان اور برما وغیرہ ۔۔۔۔  اس لئے  ان نبیوں کی نبوت سے انکار کرنا جائز نہیں۔۔۔۔ (اگے امام اہلحدیث وحید الزمان صاحب کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں۔) پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاء  پر ایمان لاویں اور ان میں سکی میں تفریق نہ کریں۔
(فتوحات اہلحدیث ص 148)
اگر قران پاک میں سب انبیاء کا ذکر نہیں آیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ پکڑ کے انبیاءٰ کی تعداد کو پورا کیا جائے؟ اور انہیں نبی ماننے کو واجب قرار دے دیا جائے؟ اور واجب کا انکاری گنہگار ہوتا ہے لیکن غیرمقلدین کے ہاں واجب اور فرض ایک ہی ہیں  لہذا   ان کے عقیدے کے مطابق رام چندر وغیرہ کو نبی نہ ماننے والا کافر ہوا؟

عقیدہ نمبر 44
نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
مشہور  اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
چنانچہ حضور  اکرمﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود  اور حاضر ہوتے ہیں اسلئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے اور آپﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہو“۔
(مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ص 259-260)

عقیدہ نمبر 45
غیر اللہ سے مدد
غیرمقلد عالم غلام رسول صاحب نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
رحم یا نبی اللہ ترحم
یعنی  رحم کر اے اللہ کے نبی رحم کر
چونکہ جاہل غیرمقلدین کے ہاں کفر و شرک کے کوئی اصول متعین نہیں اسلئے ان کا جہاں جی چاہتا ہے کفر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب  فرماتے ہیں:
قبلہ دین مددی ، کعبہ ایماں مددی
ابن قیم مددی قاضی شوکاں مددی
ترجمہ
اے میرے دین کے قبلہ مدد کر اے میرے ایمان کے کعبہ مدد کر اے ابن قیم مدد کر اے قاضی شوکانی مدد کر۔
(ہدیۃ المہدی صفحہ 23)
نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں
یا سیدی یا عروتی ووسیلتی
ویا عدتی فی شدۃ ورخائی
قد جئت بابک ضار عا متضرعا
متاوھا بتفنس الصد بتنفس الصعداء
مالکی ورائک مستغاث فارحمن
یا رحمۃ للعالمین بکائی
ترجمہؒ
اے میرے آقا اے میرے سہارے اور اے میرے وسیلے اور اے خوشحالی و بدحالی میں میری متاع میں روتا گڑ گڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا ۔ آپ کے درپہ آیا ہوں آپ کے علاوہ میرا کوئی فریاد رس نہیں  ۔ سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ وزاری پر رحم فرما۔
(ماثر صدیقی  ج 2 ص 30- 31)
غیرمقلدین سے سوال ہے کہ کیا ان کے یہ علماء مشرک ہوئے یا نہیں؟
 چونکہ غیرمقلدین کے ہاں کسی  پر کوئی فتوی دینا یا اس کی تکفیر کرنے کوئی احتیاط نہیں اسلئے غیرمقلدین کے ان علماٰ کا مشرک ہونا لازم آتا ہے۔

عقیدہ نمبر 46
زیادہ بھوک لگتی ہو تو روزہ معاف
نوب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
روزہ رکھنے کیلئے استطاعت شرط ہے اس لئے جس کو بہت بھوک پیاس لگتی ہو یا جس کو بہت بھوک لگتی ہو اس کو روزہ رکھنا واجب نہیں۔
(عرف الجادی ص 80)

عقیدہ نمبر 47
عام عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
عورتوں کو جائز ہے کہ غیر مردوں کو دیکھیں البتہ ازواج مطہرات کو یہ منع تھا۔
(نزل الابرار ج 3 ص 74)

مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
پردہ کی آیات خاص ازواج مطہرات ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں امت کی عورتوں کے واسطے نہیں ہیں۔
(البیان المرصوص ص 168)

نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
وہ آیت جن میںں پردہ کرنے کا حکم ہے وہ صرف رسول خداﷺ کی بیویوں کے ساتھ مختص ہے۔
(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 48
ماں بہن بیٹی وغیرہ  کی قبل و دبر کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔
نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ماں بہن بیٹی وغیہر کی قبل و دبر (یعنی اگلی پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔
(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 49
کافر کے پیچھے نماز جائز
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
ولو اخبر بعد الصلوۃ بانه کافر فلا يعيدون
نماز پڑھانے کے بعد کافر نے  بتلایا کہ وہ کافر ہے تو بھی مقتدی اپنی نماز  کو نہیں دہرائیں گے۔
(کنز الحقائق ص 24)
غیرمقلدین کا اس پر عمل
خود غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے
(فیصلہ مکہ ص 36)

عقیدہ نمبر 50
قضا نمازیں معاف
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں
اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ  جو نماز بلا عذر شرعی چھوڑ دی گئی ہو اس کی قضا واجب ہے۔
(عرف الجاد ی ص 35)

علماء اہل حدیث اور ان کی تربیت کردہ  انکی نجس عوام کے چند عقائد و نظریات  جو ان میں پائے جاتے ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
1
کرامت صاحب کرامت کے اختیار میں ہوتی ہے اللہ کے نہیں۔
2
فقہاء سب گمراہ تھے۔
3
نماز میں  آہستہ آمین کہنے والا یہودی ہے۔
جبکہ  خود یہ لوگ صرف فرض نماز میں دو جگہ اونچی آمین کہتے ہیں اور بقیہ 22 جگہ پر یہودیوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور عورتین تو ان کی ہر وقت ہی یہودیوں کی طرح  نماز پڑھتی ہیں۔
4
اجماعی  اور غیر اجتہادی مسائل میں اجتہاد کا کرنا
5
قرآنی تعویذ لٹکنا بھی شرک ہے۔
6
جہاں اللہ اب موجود ہے وہاں مخولوقات کو پیدا کرنے سے پہلے موجود نہ تھا
7
قبر میں جسم عذاب و ثواب سے بری ہوتا ہے۔
8
تین طلاق تین نہیں۔
9
 قبر میں روح کے لوٹنے کا انکار
جبکہ قبر میں روح کا لوٹنا صحیح صریح حدیث سے  بھی ثابت ہے۔
” حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے  اور قبرستان میں پہنچے لیکن ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی آپﷺ بھی وہاں جلوہ افروز ہوئے اور ہم بھی آپﷺ کے پاس ہی بیٹھ گئے آپ نے (ایک طویل حدیث میں)  مومن اور کافر کی وفات کا تذکرہ فرمایا اس میں مومن کے بارے میں یہ ارشاد  مذکور ہے کہ :
 ”مومن کی روح کو پھر (مرنے کے بعد) ساتوں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں درج کر دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹاؤنگا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تمہارا رب کون ہے۔۔۔ الخ“
      اور اسی حدیث میں کافر کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ
”آسمانوں کے دروازے اس کیلئے نہیں کھلتے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس کی کارگذاری اور نام وغیرہ سجین میں لکھ دو جو ساتویں زمین میں ہے پھر اسکی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپؐ نے ارشاد خدا وندی پڑھا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے  گہرے گڑھے میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تیرا رب کون ہے ۔۔۔ الخ“
امام حاکمؒ اس روایت کی متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِالْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَزَاذَانَ أَبِي عُمَرَ الْكِنْدِيِّ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ فَوَائِدُ كَثِيرَةٌ لِأَهْلِ السُّنَّةِ وَقَمْعٌ لِلْمُبْتَدِعَةِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِطُولِهِ، وَلَهُ شَوَاهِدُ عَلَى شَرْطِهِمَا يُسْتَدَلُّ بِهَا عَلَى صِحَّتِهِ» .
”یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔(اگے فرماتے ہیں) اس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے“۔
[المستدرك على الصحيحين : کتاب الإيمان :أَمَا حَدِيثُ مَعْمَر]
10
اللہ کی صفت حاضر ناظر کا انکار

11
 بدعی طلاق کو واقع نہ کرنے فتویٰ دینا
12
 سلف احناف پر لعن طعن کرنا۔
13
بزرگ گان دین کے اشعار  اور  صوفیا کی عبارات میں سے من پسند عقیدہ اخذ کرکے اس کی تکفیر کر لینا۔
14
 اولی الامر سے فقیہ مراد لینے کو غلط کہنا
حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ
” اس آیت  (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں  ہیں کہ
أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر”اولی الامر سے مراد  فقہ  والے ہیں“ یعنی کہ فقہاء کرام  ہیں۔امام حاکمؒ  اس کو حدیث کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ ”یہ حدیث صحیح ہے“۔(مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)
محدثین کے قاعدے کے مطابق صحابی کی تفسیر مسند اور مرفوع ہوتی ہے  یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے اور اس کی طرح حجت ہوتی ہے۔
امام حاکم ؒ فرماتے ہیں:
” تَفْسِيرَ الصَّحَابِيِّ حَدِيثٌ مُسْنَدٌ“ ۔(المستدرك على الصحيحين ج۱ صفحہ ۷۲۶)
”صحابی کی تفسیر مسند ہوتی ہے“۔(یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے)
15
ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن سنت کی طرح لوٹانے کا دعویٰ کرکے خود عقائد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر لینا۔
16
 ائمہ کے اجتہادی اختلافات کو گمراہی قرار دینا اور اپنے فروعی و اصولی دونوں اختلافات کو حق قرار دینا۔
17
فقہ کے متعلق بدگمانیاں پھیلانا۔
18
فقیہ کے کسی  غیر شرعی فعل  پر  کوئی شرعی حکم بتانے کو غلط کہنا۔
19
 قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرنا اور گند اور کچرہ جمع کرنا۔
20
اپنے آپ کو فقہاء سے زیادہ حدیث کے سمجھنے والا کہنا۔
21
 قرآن و حدیث کے ظاہری معنی پر اکتفاء کرلینا اور تفقہ حاصل نہ کرنا۔
22
سماع موتیٰ کو شرک قرار دینا
جبکہ
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِينَ يُوَلُّونَ عَنْهُ»۔.[ المستدرك على الصحيحين (ج/1ص/536) سندہ صحیح]
”  اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ (مردہ) اسوقت جوتیوں کی کھٹکھٹاہت سنتا ہے جب لوگ اس سے واپس ہوتے ہیں۔
 امام حاکمؒ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دفن کے بعد قبر میں قبر سے واپس ہونے والے لوگوں کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ  اور آواز سنتا ہے اور جب یہ سنتا ہے تو انسانوں کی آواز بطبریق اولٰی سنتا ہے۔ لیکن اس کے سننے سے یہ  بات نہیں کہ وہ سن کر  کسی کی کوئی مدد بھی کر سکتا ہے جیسا آج کل جاہل مشرکین کا خیال ہوتا  ہے اور یہ بھی نہیں کہ ان مشرکین کے ڈر سے بندہ نبیﷺ کی حدیث کا ہی انکار کر  دے۔
23
غیر مدخولہ کو ایک لفظ سے تین طلاق دینے کو واقع نہ سمجھنا۔
24
علماء سلف کی عبارات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کر دینا۔
25
فقہاء کرام پر کافروں والی آیات فٹ کرنا۔
26
حدیث کے معنی میں صحابی کو بھی چھوڑنا تابعی کو بھی چھوڑنا اور ان کے خلاف اپنا من گھڑت معنی بیان کرنا۔
27
اللہ کی ذات جہاں  مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی اب وہاں نہیں ہے۔
28
عرش اور اللہ  کی ذات کے درمیان بھی  ایک  فاصلہ غیر اللہ یعنی مخلوق ہے۔
29
تین طلاق کو تین ماننا گمراہی ہے۔
30
حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں۔
31
عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹانگیں چوڑی کرکے نماز پڑھیں
32
جماعت اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مقابلے میں شیعوں اور مرزئیوں کے عقائد و مسائل کو ترجیح دینا
33
 فاتحہ کے قرات ہونے کا انکار
34
تواتر کا انکار
35
قرآن حدیث کو جان چھڑانے کا ذریعہ بنانا۔
36
ضعیف اور موضوع حدیث میں کوئی فرق نہ کرنا۔
37
اپنی ذاتی تحقیق سے فقہ لکھ کر اسے نبیﷺمعصوم  کی طرف منسوب کر دینا۔
38
نبیﷺ کی قبر اطہر کے پاس یہ عقیدہ رکھ کر صلاۃ سلام پیش کرنا ہے کہ نبیﷺ یہ نہیں سن رہے
39
 اپنی ہر  غلطی کو اجتہادی خطا کا نام دے دینا
40
اللہ کی صفات متاشابہات کو لغت سے سمجھنا۔
41
امام ابو حنیفہؒ پر لعن طعن کرنا۔
42
 بلا دلیل بات کی پیروی کو اتباع کہنا غلط ہے۔
43
طلاق کی دل میں نیت سے بھی نکاح نہیں ہو گا بلکہ زنا ہوگا
44
حد نہیں کا مطلب جائز ہونا ہوتا ہے۔
غیرمقلدین کے کئی جاہل علماء نے فقہ کے خلاف اپنی کتب اور تقاریر میں ایسا کہا ہے اور کہتے ہیں اور انکی عوام بھی یہی کہتی ہے۔
اب  ذرہ یہ لوگ ایک سوال کا جواب دیں کہ
پیشاب پینے پر کتنی حد ہے؟
اگر  حد ہے تو حد دکھائیں  اگر نہیں ہے تو پی کر دکھائیں۔