غیرمقلدین کے سولات کے جوابات

زیادہ دیکھی جانے والی

Thursday, 19 May 2016

نزل الی السماء کے متعلق فرقہ سلفیہ کا عقیدہ اور اس پر علماء سلف کا رد


نزل الی السماء کے متعلق فرقہ سلفیہ کا عقیدہ اور اس پر علماء سلف کا رد

نام نہاد سلفی بلکہ لامذہب سلفی جس طرح سے استوی کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں ویسےاللہ کی دوسری صفات نزول الی السماء وغیرہ  کو نہیں مانتے کیونکہ اگر ویسا مان لیں تو استویٰ کے متعلق جو یہ عقیدہ لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں وہ ان کا پھر خطرے میں پڑ جاتا ہے اسلئے اس  پر یہ لوگ اپنا عقیدہ ایسے بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ استویٰ پر اپنا بنایا عقیدہ باقی رہے۔ اپنا عقیدہ درست نہیں کرتے  اللہ کی  صفات کو اپنے عقیدے کے مطابق  ایڈجسٹ کرتے رہتے ہیں۔
 ہونا تو یہی چاہئے تھا کہ جیسے استویٰ کو مانیں ویسے ہی نزول کو مانیں دونوں اللہ کی صفات ہیں دونوں کو اسی طرح ماننا ہے ایسا تو نہیں استویٰ کو  کسی اور طرح مانیں اور نزول کے متعلق کوئی اور قاعدہ اصول بنائیں ۔
استویٰ کے متعلق  کہیں گے اس کا مطلب ہے کہ اللہ عرش پر ٹھہرا ہوا ہے اور کہیں نہیں ہے اور عرش اکی سطح سے اوپر ہے ۔ اور جب نزول کی باری آئے تو تقیہ کر لیں گے اور اپنا عقیدہ بچانے کیلئے جو اہلسنت کہتے ہیں وہی کہنا شروع کر دیں کہ اللہ کا نزول فرمانا حق ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ کا نزول کیسا ہوتا ہے یعنی کیفیت کیا ہے۔ لیکن یہی بات استویٰ کے متعلق نہیں کہتے استویٰ کے متعلق کہتے ہیں اللہ عرش پر مستویٰ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ اللہ صرف عرش کے اوپر اوپر ہے۔ یہ ساری کیفیات بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کیفیت معلوم نہیں۔ اگر کیفیت کا اثبات ایسے نہیں ہوتا جیسے یہ کرتے ہیں تو اور پھر کون سا طریقہ ہے جس سے کیفیت کا اثبات ہوتا ہو؟
اگر استویٰ کے متعلق بھی یہی کہیں اور مانیں کہ اللہ کا استویٰ فرمانا حق ہے لیکن نہیں معلوم کہ اللہ کا استویٰ کیسا ہے یعنی کیفیت کیا ہے تو اختلاف ہی ختم ہو جائے۔
مگر انہوں نے اسے ختم نہیں کرنا نہ حق کی طرف رجوع کرنا ہے صرف اپنی ضد پر قائم رہنا ہے یا تقیہ کرکے وقتی طور پر اہلسنت کا قول نزول کے متعلق بیان کر دیں گے یا پھر جیسے استویٰ کے متعلق کہتے ہیں ویسے ہی نزول کے متعلق بھی ہمت کرکے کہہ دیں گے جیسے اللہ مستوی ہوا یعنی بقول ان کے مستوی ہونے کا مطلب اللہ کی ذات عرش کے اوپر اوپر ہوئی اور نزول کیا مطلب اللہ کی ذات عرش کے نیچے آگی آسمان دنیا پر
یہ بات ہمیشہ سے ہی ان کے لئے بہت بڑی مصیبت رہی ہے اور اس سے نکلنے کیلئے ہر کوشش کرتے رہے ہیں مگر آج تک ان سے اس کا حل نہیں نکلا

ہم مثال کے طور پر سلفیوں کے چوٹی کے مولویوں سے ان کا موقف پیش کرتے ہیں
سلفیوں کے شیخ صالح العثمین لکھتے ہیں:
نزوله تعالي حقيقي
اللہ کا نزول حقیقی ہے۔
(شرح العقیدة الوسطيه ص 13)

اب اس بات میں شبہ ہے کہ حقیقی سے ان کی کیا مراد ہے اگر تو مراد یہ ہے کہ وہ حقیقت جو اللہ کی شان کے لائق ہے اور ہم اس کو بالکل نہیں جانتے اور وہ حقیقت اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور وہ حقیقت جو لغت میں معروف نہیں بلکہ اللہ ہی جانتا ہے تو بلکل ٹھیک ہے لیکن اگر حقیقی سے ان کی مراد یہ ہے کہ لغت میں نزول کا جو حقیقی معنی کیا جاتا ہے جو معروف ہے وہی مراد ہے تو پھر یہ بلکل درست نہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان نام نہاد سلفیوں کے ہاں اس سے کون سے بات مراد ہے پہلی یا دوسری
نام نہاد سلفیہ کے دوسرے چوٹی کے مولوی
 خلیل ہراس امام ابن خزیمہؒ کی التوحید اپنی تعلیق میں اللہ کے نزول کے قول کے تحت حاشئے میں لکھتے ہیں۔
«يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه : انتقال من علو إلى سفل!». 
(ص126)
ترجمہ
یعنی اللہ کا آسمان دنیا پر نزول اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ اس کے اوپر ہو کیونکہ نزول اوپر سے نیچے منتقل ہونے کو کہتے ہیں۔

کیا واقعی ان کے ہاں اللہ اوپر سے نیچے منتقل ہوتا ہے اور عرش خالی ہو جاتا ہے؟

شیخ محمد بن صالح العثمین نے نزول کے وقت عرش خالی ہو جاتا ہے کو اہلسنت کے قول میں سے ایک قول قرار دیا ہے چنانچے وہ لکھتے ہیں:
واذا كان علماء اهل السنة لهم في هذا ثلاثة قول يخلو، وقول بانه لا يخلو، وقول بالتوقف
(شرح عقیدہ الاوسطیہ للعثیمین ص 261)
ترجمہ:
علمائے اہلسنت کے نزول کے بارے میں تین اقوال ہیں
ایک یہ کہ عرش خالی ہو جاتا ہے
دوسرا یہ کہ عرش خالی نہیں ہوتا
تیسرا یہ کہ (خالی ہوتا ہے یا نہیں) اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے۔


ہم ان شاء اللہ ان کے تینوں اقوال کی دھجیاں اڑائیں گے کہ ان میں سے ایک قول کو بھی یہ اپنے لئے اختیار نہیں کر پائیں گے۔

پہلا قول
آنکھوں والے اپنے آنکھیں کھول کر دیکھیں صاف صاف سلفیوں کے اس چوٹی کے عالم نے عرش خالی ہونے کو اہلسنت کا قول قرار دیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلک یعنی بقول اس کے اللہ کی ذات نزول کے وقت عرش چھوڑ کر نیچے منتقل ہو جاتی ہے یہ اہلسنت کا عقیدہ ہے۔
کم فہم سلفیو دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا یہ عقیدہ درست ہے اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو یہ قرآن اور حدیث دونوں کے خلاف ہے،
اس کی تفصیل ”عقائد علماء اہل حدیث“ عقیدہ نمبر 19 میں دیکھیں بہرحال یہاں مختصر لکھتے ہیں۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
(الحدید 3)
ترجمہ
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن
رسول اللہﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے تیرے نیچے کچھ نہیں۔
(صحیح مسلم)

جبکہ ان لامذہبوں کے ہاں نزول الی السماء کے وقت عرش اللہ کے اوپر ہوتا ہے نعوذ باللہ
پہلے تو یہ سمجھا جاتا کہ شاید یہ لامذہب اللہ کے اوپر کسی چیز کو نہیں مانتے مگر یہاں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ گمراہ تو جیسے اللہ کی ذات کو نیچے سے ختم مان کر اگے مخلوق کا تصور مانتے ہیں  جس کا رد نبیﷺ نے کیا اسی طرح اللہ کے اوپر بھی مخلوق ماننے کے قائل ہیں۔
ان کے پہلے قول کا یہ حال ہے۔

اب آتے ہیں ان کے دوسرے قول کی طرف
کہ اللہ کا عرش خالی نہیں ہوتا
اب اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ کی ذات عرش سے نیچی آتی ہی نہیں یہ تو پھر ان کے اپنے نزدیک نزول کا انکار ہو گیا اور دوسرا مطلب یہ کہ اللہ کی ذات عرش کے اوپر بھی ہوتی ہے اور نیچے بھی ہوتی ہے یعنی بیک وقت اللہ عرش پر بھی ہوتا ہے اور آسمان دنیا پر بھی
اب اگر ان کی یہ بات مان لیں تو دنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں رات کا وقت ضرور ہوتا ہے ہوتا ہے کہ نہیں؟ تو پھر ماننا پڑے گا کہ اللہ ہر وقت عرش پر بھی ہوتا ہے اور آسمان دنیا پر بھی اب ان کا یہ کہنا کہ اللہ کی ذات صرف عرش کے اوپر ہے اور کہیں نہیں کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ یہ عقیدہ کامل نہ رہا اللہ کی ذات صرف عرش پر ہے یہ عقیدہ تو ان کے اپنے ہاتھ سے ٹوٹ گیا۔

تیسرا قول
کہ خاموشی اختیار کی جائے کہ معلوم نہیں عرش خالی ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
شیخ ابن العثمین نے اس بات سے پہلے تیسرے قول کو اختیار کیا کہ اس بارے میں سکوت کرنا چاہئے صحابہ نے کیا وغیرہ وغیرہ اب اگر نزول کے متعلق سکوت اختیار کرتے ہیں تو ویسے ہی استویٰ کے متعلق سکوت کیوں نہیں اختیار کرتے؟ پھر کیا سکوت والے قول ان کے لئے مفید ہے ؟
افسوس کے ان لامذہبوں کیلئے یہ بھی مفید نہیں
کیونکہ حافظ ابن تیمیہ جو کہ ہر نام نہاد سلفی کو محبوب ہیں ان سے ایک سوال ہوا:
وأما سؤال السائل: هل يخلو منه العرش أم لا يخلو منه؟
وقول المسؤول: هذا قول مبتدع ورأى مخترع ـ حيدة منه عن الجواب ـ يدل على جهله بالجواب السديد
ترجمہ
سوال
ایک آدمی نزول کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ آیا اس وقت عرش خالی ہوتا ہے یا نہیں تو دوسرا جب یہ جواب دے کہ یہ ایک بدعتی کا قول ہے اور نئی ایجاد کردہ رائے ہے۔(یعنی یہ سوال بدعت ہے)
ابن تیمیہ جواب دیتے ہیں
یعنی یہ کہنا کہ یہ قول بدعت ہے اور نئی ایجاد کردہ رائے ہے یہ بات دراصل جواب سے بھاگنا ہے جو کہ اس سوال کا صحیح جواب سے جاہل ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
(شرح حدیث النزول ص33 - 32)
سبحان اللہ گوا کہ شیخ ابن عثیمین جو اس معاملے میں نہ پڑنا ہی صحابہ کرام کا راستہ مانتے ہیں حافظ ابن تیمیہ کے ہاں صحیح جواب سے جاہل اور بھاگ جانے والے ہیں۔
اور دوسری سائیڈ ابن تیمیہ بقول ابن عثیمین صحابہ کرام کا راستہ چھوڑ گئے کیونکہ انہوں نے سکوت اختیار نہیں کیا۔

اب ان نام نہاد سلفیوں کو کوئی چوتھا قول بنانا چاہئےکیونکہ یہ تین تو ان کے کسی کام کے نہیں رہے۔

نام نہاد سلفیو آؤ دیکھو سلف کیا کہتے ہیں

علماء سلف  کا موقف
1
امام بیہقیؒ فرماتے ہیں:
وأن نزوله ليس بنقلة
ترجمہ:
اور اس کا نزول نہیں ہے منتقل ہونے کی طرح
(الاعتقاد - البيهقي ج1 ص 17 ، السماء والصفات للبيهقي)

2
امام أبو بكر محمد الباقلانيؒ
لا يوصف بالتحول والانتقال
ترجمہ
اللہ پاک ہے منتقل ہونے سے۔
[الإنصاف فيما يجب اعتقاده ولا يجوز الجهل به – ص ٦٤]

3
امام قرطبیؒ
والله جل ثناؤه لا يوصف بالتحول من مكان إلى مكان، وأنى له التحول والانتقال
ترجمہ
اللہ پاک ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور کہیں منتقل ہونے سے۔
[الجامع لأحكام القرءان، القرطبي – سورة الفجر آیہ وجاء ربك والملك صفا صفا]

4
امام قسطلانیؒ
لا نزول حركة وانتقال
ترجمہ
نزول نہیں حرکت والا یا منتقل ہونے والا
[شرح صحيح البخاري، القسطلاني – المجلد الثاني، ص ٣٢٣]

5
الحافظ المتبحر عبد الرحمن بن الجوزيؒ
إنه يستحيل على الله عزَّ وجلَّ الحركة والنقلة والتغيير. وواجب على الخلق اعتقاد التنزيه وامتناع تجويز النقلة وأن النزول الذي هو انتقال من مكان إلى مكان يفتقر إلى ثلاثة أجسام جسم عال وهو مكان الساكن وجسم سافل وجسم ينتقل من علو إلى أسفل وهذا لا يجوز على الله قطعا“.
( دفع شبه التشبيه بأكف التنزيه / الباز الأشهب )
ترجمہ

بے شک اللہ تعالی کیلئے حرکت کرنا، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اور حالت کا بدلنا، یہ سب کچھ ثابت کرنا ناممکن ہے. مخلوق پہ اللہ تعالی کا ہر چیز سے پاک ہونا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے ثبوت کے انکار کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے. اور نازل ہونا جو کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہے، اسکے لئے تین اجسام ضروری ہیں. بلند جسم جو کہ ٹہرنے کی جگہ ہے، اور نیچا جسم، اور وہ جسم جو بلندی سے نیچے کی طرف منتقل ہوتا ہے. اور یہ سب اللہ تعالی کیلئے بالکل بھی ثابت نہیں.

ایک اور جگہ فرقہ سلفیہ کے عقیدے کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں
”مجھے ایسے لوگوں پر بڑی حیرت ہوتی ہے جو علم کا دعویٰ کرتے ہیں اور بعض احادیث کو ظاہر پہ محمول کرتے ہوئے عقیدہ تشبیہ کا رجحاج رکھتے ہیں
اسی طرح (سلفیوں کا عقیدہ) بیان کرتے ہیں
اللہ پاک عرش پہ اپنی ذات کے ساتھ مستوی ہوا اور آسمان دنیا پہ اپنی ذات کے ساتھ نزول فرماتا ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں تو یہ ایسی زیادتی ہے جس کو اس کے قائل نے اپنی طبیعت سے سمجھا ہے قرآن و حدیث سے نہیں“۔
(مجالس جوزیہ ص 111- 112)

6
امام بدر الدين بن جماعةؒ (ت ٧٢٧ هـ) بھی فرماتے ہیں
اللہ منتقل ہونے سے پاک ہے۔
اعلم أن النزول الذي هو الانتقال من علو إلى سفل لا يجوز حمل الحديث عليه، لوجوه :
الأول : النزول من صفات الأجسام والمحدَثات ويحتاج إلى ثلاثة : منتقِل، ومنتقَل عنه ومنتقَل إليه، وذلك على الله تعالى محال.
(إيضاح الدليل في قطع حجج أهل التعطيل)

7
امام بیضاویؒ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کا نزول فرمانا منتقل ہونے کے معنی میں نہیں۔
وقال البيضاوي : ولما ثبت بالقواطع أنه سبحانه منزه عن الجسمية والتحيز امتنع عليه النزول على معنى الانتقال
[فتح البارئ شرح صحيح البخاري – المجلد الثالث – كتاب الصلاة: باب الدعاء ]

8
امام طبریؒ بھی اللہ کو منتقل ہونے سے پاک مانتے ہیں:
الحمد لله الأول قبل كل أول، والآخر بعد كل آخر، والدائم بلا زوال، والقائم على كل شيء بغير انتقال، والخالق خلقه من غير اصل ولا مثال
(تاریخ طبری ج 1 ص 3)

9
امام ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:
.وقد قالت فرقة منتسبة إلى السنة إنه ينزل بذاته ! وهذا قول مهجور لأنه تعالى ذكره ليس بمحل للحركات ولا فيه شيء من علامات المخلوقات."
(الاستذکار ج 8 ص 153)
ترجمہ
ایک فرقہ جو اپنا انتساب سنت کی طرف کرتا کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات سمیت نازل ہوتا ہے حالانکہ یہ متروک قول ہے کیونکہ اللہ تعالٰی حرکات و سکنات والی جگہ سے منسوب ہے نہ ہی اس میں مخلوقات کی کوئی علامت ہے ۔

مزید نازل بالذات کے قائلین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ليس هذا بشيء ثم أهل الفهم من أهل السنة ، لأن هذا كيفية وهم يفزعون منها ، لأنها لا تصلح إلا فيما يحاط به عيانا ، وقد جل الله وتعالى عن ذلك
ترجمہ
اہلسنت والجماعت کے حاملین فہم و فراست کے نزدیک اس بات کی کوئی حقیقت نہیں (یعنی اللہ کا بذاتہ نازل ہونا) کیونکہ اس طرح اللہ تعالٰی کی کیف لازم آئے گی اور ائمہ مذکورین اثبات کیفیت سے خوف کرتے ہیں اسلئے کہ کیفیت (یا اثبات مکان) اسی وقت ممکن ہے جب آنکھیں اللہ تعالٰی کی ذات کا احاطہ کر سکیں حالانکہ اللہ تعالٰی اس صفت مخلوق سے پاک ہے“۔
(التمهيد ج 7 ص 143)

10
محدث امام نوویؒ فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ لِأَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَآيَاتِ الصِّفَاتِ قَوْلَيْنِ أَحَدُهُمَا وَهُوَ مَذْهَبُ مُعْظَمِ السَّلَفِ أَوْ كُلِّهِمْ أَنَّهُ لَا يُتَكَلَّمُ فِي مَعْنَاهَا بَلْ يَقُولُونَ يَجِبُ عَلَيْنَا أَنْ نُؤْمِنَ بِهَا وَنَعْتَقِدَ لَهَا مَعْنًى يَلِيقُ بِجَلَالِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَظَمَتِهِ مَعَ اعْتِقَادِنَا الْجَازِمِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَأَنَّهُ مُنَزَّهٌ عَنِ التَّجَسُّمِ وَالِانْتِقَالِ وَالتَّحَيُّزِ فِي جِهَةٍ وَعَنْ سَائِرِ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِ وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ مَذْهَبُ جَمَاعَةٍ مِنَ الْمُتَكَلِّمِينَ
ترجمہ
جان لو اہل علم کا قرآن و حدیث میں موجود ان صفات کے متعلق وہی مذہب ہے جو کہ جمہور سلف کا تھا کہ
معنی میں کلام نہیں کرنا بلکہ وہ یوں کہتے ہیں کہ واجب ہے ان پر ایمان لانا، اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اس کا وہی معنی ہے جو اللہ کی شان و عظمت کے لائق ہے ، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالٰی کسی چیز کی مثل نہیں وہ پاک ہے جسم سے ، اور کہیں منتقل ہونے سے ، اور جھت میں ہونے سے اور کسی بھی مخلوق کی صفات سے۔
یہی قول ہے علماء متکلمین کا اور محققین اسلام کا۔
(شرح صحیح مسلم للنووي ج 3 ص 19)

11
امام ذهبیؒ فرماتے ہیں:
وكذا قوله : وجاء ربك ونحوه ، فنقول : جاء ، وينزل ، وننهى عن القول : ينزل بذاته ، كما لا نقول : ينزل بعلمه ، بل نسكت ولا نتفاصح على الرسول -صلى الله عليه وسلم- بعبارات مبتدعة ، والله أعلم .
ترجمہ
اسی طرح اللہ کا یہ ارشاد ”اور تمہارا رب آیا“ اور ان جیسی دوسری آیات تو ہم یہ کہتے ہیں اللہ آئے اور وہ نزول فرماتے ہیں البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ اپنی ذات سمیت نازل ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اس بات کے کہنے سے بھی باز رہتے ہیں کہ اللہ اپنے علم کے ذریعہ نازل ہوتا ہے بلکہ ہم اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور اللہ کے رسولﷺ کے تعلق سے نئی اور انوکھی عبارتیں بیان نہیں کرتے ہیں۔ واللہ علم
(الكتب » سير أعلام النبلاء » الطبقة التاسعة والعشرون » كوتاه جلد 20 ص 331)

12
امام الجرح والتعدیل حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
اخْتُلِفَ فِي مَعْنَى النُّزُولِ عَلَى أَقْوَالٍ فَمِنْهُمْ مَنْ حَمَلَهُ عَلَى ظَاهِرِهِ وَحَقِيقَتِهِ وَهُمُ الْمُشَبِّهَةُ
ترجمہ
نزول کے معنی کے متعلق مختلف اقوال ہیں مگر جس نے اسے ظاہر اور حقیقت (جیسا سلفی کرتے ہیں) پر حمل کیا وہ مشبہۃ (گمراہ فرقہ) ہے۔
(فتح الباري لابن حجر ج 3 ص 30)

یہ ہیں علماء سلف اب ذرہ خود ہی انصاف سے فیصلہ کیجئے کیا یہ فرقہ سلفی کہلائے جانے کا حقدار ہے؟

دعوت و فکر
ہم نام نہاد  سلفیوں کو دعوت و فکر دیتے ہیں کہ  جو عقیدہ جمہور سلف کا ہے اسے اپنائیں جو  حق ہے اسے قبول کریں۔  اللہ کی ذات و صفات کو اپنے عقیدے کے مطابق ایڈجیسٹ نہ کریں اس کی بنیاد ہی غلط ہے آپ کا پہلا عقیدہ دوسرے کو اور دوسرا پہلے کو رد کر دیتا ہے  اور یہ اس لئے ہوتا کہ آپ نے اللہ کی صفات  کو ماننے کیلئے   غلط بنیادیں رکھیں ۔

استوی مانتے ہو ایسے مانو  ، حق ہے  لیکن کیسا ہے یعنی کیفیت کیا ہے معلوم نہیں
نزول ہے حق    ہے، مگر  کیسا ہے کیفیت کیا ہے معلوم نہیں
آپ کہتے ہو استوی حق ہے اور  یہ ایسا ہے(یعنی کیفیت)  کہ اللہ کی ذات عرش کے اوپر اوپر ہے،  نیچےسے ذات ختم ہوتی ہے، جھت ہے مکان ہے، حدود ہیں فلاں فلاں پھر آخر میں کہہ دیتے ہو کیفیت مجھول ہے۔  
اس شبے کو مٹاؤ باقی شبے بھی مٹ جائیں گے ان شاءاللہ  جو ہمارے متعلق الزامات یا ہمارا موقف  صحیح سے نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ لوگوں کے ہاں مشہور ہیں۔

اسی موضوع کے متعلق پرانا مضمون پڑھنے کیلئے